۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
آیت اللہ حافظ ریاض نجفی

حوزہ/ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر نے خطبہ جمعہ بیان کیا کہ قبر سے ہی انسان کی جنت یا جہنم کے سفر کا آغاز ہو جاتا ہے لہٰذا دنیا کی اسی چند روزہ زندگی میں ہی اپنے لئے ہمیشہ کی زندگی کی راحت کا انتظام کرے اور قبر اور بعد کے مراحل کے عذاب سے بچنے کا چارہ کرے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لاہور/ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے جامع علی مسجد حوزہ علمیہ جامعتہ المنتظر میں نماز جمعہ کے خطبہ میں کہا ہے کہ عام طور پر موت سے عبرت حاصل نہیں کی جاتی ۔کسی دوسرے انسان کی موت سے یہی سمجھا جاتا ہے ،گویا اسی نے مرنا تھا حالانکہ ہر کسی کو ہمیشہ موت کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ انسان کو ہررات سونے سے پہلے اپنا محاسبہ کرنا چاہئے۔معصومؑ کا حکم بھی ہے کہ اس سے پہلے کہ آپ کا محاسبہ کیا جائے،خود اپنا محاسبہ کرو۔ انسان اللہ کی لاتعداد نعمتوں کا احساس کرے۔سوچے کہ اس کے وجود میں اور باہر کتنی نعمتیں ایسی ہیں جو بے پناہ سرمایہ خرچ کر کے بھی حاصل نہیں کی جاسکتیں لیکن اللہ نے اسے عطا فرمائی ہیں۔اپنے دن بھر کے کاموں کا جائزہ لے۔اچھے کاموں پر شکر اور برائیوں پر توبہ و استغفار کرے۔موت کے لئے تیار رہے۔

ان کا کہنا تھاکہ کسی بھی وجہ سے غلط کاریوں کے بعد موت کے وقت مجرموں کی آنکھیں کھل جائیں گی اور اپنے سارے کرتوت نظروں کے سامنے آ جائیں گے۔بے بسی کے عالَم میں موت سے ہمکنار ہو کر قبر میں جائے گا جہاں سانپ، بچھو قسم قسم کی اذیت سے اس کے بدن کو ریزہ ریزہ کر دیں گے۔

حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ در حقیقت قبر سے ہی انسان کی جنت یا جہنم کے سفر کا آغاز ہو جاتا ہے لہٰذا دنیا کی اسی چند روزہ زندگی میں ہی اپنے لئے ہمیشہ کی زندگی کی راحت کا انتظام کرے اور قبر اور بعد کے مراحل کے عذاب سے بچنے کا چارہ کرے۔

انہوں نے کہا کہ پُل صراط سے ہر حال میں گزرنا ہو گا چاہے تیز رفتاری سے یا گرتے پڑتے۔انسان پر لازم ہے کہ زندگی میں اپنے واجبات پر عمل کرے، گناہوں،حرام کاموں سے بچے۔ایسا نہ ہو کہ جو مال زندگی بھرکمایا ہے وہ موت کے بعد دوسرے اسے گناہ میں خرچ کریں اور اس مرنے والے کو اس کا عذاب سہنا پڑے۔ کوشش کی جائے کہ خود کو اس قابل بنائیں کہ چھوٹی غلطیوں کی معافی کے لئے اہل بیتؑ کی شفاعت نصیب ہو سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ حضرت موسیٰؑ کے واقعات کے ضمن میں اُن کا اپنے بھائی ہارون کے ساتھ فرعون کے پاس جانا ، اسے ایمان کی دعوت دینا اور بعد کے واقعات میں کافی سامانِ عبرت ہے۔معجزے دیکھ کر فرعون نے حق قبول کرنے کی بجائے ،روایات کے مطابق ایک ہزار جادوگر بلا لئے لیکن جب حضرت موسیٰؑ کے عصا نے اژدہا کی شکل میں اپنا کام دکھایا تو فرعونیوں میں اختلاف پیدا ہو گیا کیونکہ الوہیّت کا تصور ان کے ہاں تھا ۔سابقہ امتوں کے ہلاک ہونے کی خبر بھی سُن رکھی تھی۔جادوگروں نے متاثر ہو کر ایمان قبول کر لیا توفرعون نے سخت ترین طریقہ سے موت کے گھاٹ اتارنے کی دھمکی دی لیکن وہ ڈٹ گئے کہ حق کو پہچاننے کے بعد اور راہِ ہدایت دیکھنے کے بعد باطل کی طرف واپس جانا ممکن نہیں۔جو بھی انجام ہو اس کی پرواہ نہیں۔فرعونیوں نے حضرت موسیٰ کی جائز اعتراضات اور تنقید کو تسلیم کرنے کی بجائے اسے اپنے اقتدار اور حکومت کے خلاف سازش قرار دیا جیسا کہ حکومتوں پر جائز تنقید کرنے والوں پر ہر دور میں یہی الزام لگایا جاتا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .