حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرحوم آیت اللہ عزیزاللہ خوشوقت، جو حوزہ علمیہ کے معروف اساتیدِ اخلاق میں سے تھے، نے اپنے ایک درسِ اخلاق میں “نفس کی غلامی اور بار بار توبہ توڑنے کا حل” کے عنوان سے گفتگو فرمائی، جس کا خلاصہ یہ ہے:
سوال: میں اپنی نفسانی خواہشات کا اسیر ہوں، اس وجہ سے بہت پریشان رہتا ہوں۔ یہی پریشانی مجھے اندر سے کھا رہی ہے اور روحانی اذیت میں مبتلا کر دیتی ہے۔
میری گناہ چھوڑنے کی ارادہ کمزور ہے۔ بار بار ارادہ کرتا ہوں، مگر پھر گِر جاتا ہوں۔ کیا میں اسی طرح کوشش کرتا رہوں یا ہار مان لوں؟
جواب:اگر کوشش جاری رکھی، تو بالآخر ٹھیک ہو جائے گا۔
لیکن اگر ہار مان لی، تو حالت بدتر ہو جائے گی۔
ایک ہفتہ پختہ ارادہ کر کے ڈٹے رہو۔ اگر پھر بھی لغزش ہو جائے، تو دوبارہ اٹھو اور ایک ہفتہ پھر کوشش کرو۔
یہ عمل تمہارے عزم اور ارادے کو مضبوط کرے گا، اور آخرکار کامیابی تمہارا مقدر ہوگی۔
لیکن اگر ہار مانو گے اور خود کو چھوڑ دو گے، تو تباہ ہو جاؤ گے۔
سوال: اگر کسی گناہ سے بار بار توبہ کی ہو، لیکن ہر بار توبہ توڑ دی ہو، اور اب یہ خدشہ ہو کہ شاید دوبارہ بھی وہی گناہ ہو جائے — تو کیا ایسی توبہ کا کوئی فائدہ ہے؟
جواب: ہاں، توبہ ضرور کرنی چاہیے۔ کیونکہ اگر توبہ نہ کرو گے، تو گناہ مزید بڑھ جائیں گے۔









آپ کا تبصرہ