تحریر:عباس رضا
حوزہ نیوز ایجنسی| اسلامی تعلیمات میں باہمی تعلقات کی اہمیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے لیے رحمت اور اخوت کا ذریعہ بنایا ہے۔ قرآن اور سنت دونوں میں ایک پُرامن اور باوقار معاشرتی زندگی گزارنے کے لیے واضح اصول دیے گئے ہیں، جن میں صاف گوئی، امانت اور عفو و درگزر کو کلیدی مقام حاصل ہے۔ تاہم، ہماری زندگی میں بعض اوقات کچھ ایسے غیر مکمل یا ادھورے معاملات رہ جاتے ہیں جو دو افراد کے درمیان اعتماد کو متزلزل کر دیتے ہیں۔ یہ معاملات ضروری نہیں کہ بہت بڑے ہوں، لیکن ان پر خاموشی یا نامکمل ردعمل ان کے اثرات کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔
خاص طور پر جب ایک فرد کی جانب سے کسی غلطی، ندامت، یا معذرت کا اظہار کیا جائے اور دوسرا فریق اس پر کوئی حتمی، واضح، اور تسلی بخش ردعمل دینے سے گریز کرے، تو یہ خاموشی، رشتوں میں غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیتی ہے۔ اس صورتحال میں ایک فریق کی احساسِ ندامت اتنی گہری ہو جاتی ہے کہ وہ ہر عام گفتگو کو بھی اپنی ماضی کی خطا سے جوڑ کر دیکھتا ہے۔ یہاں سے عقل و منطق کا زوال شروع ہوتا ہے اور اس کی جگہ احساسات اور بدگمانی لے لیتی ہیں۔ یہ ایک ایسا نفسیاتی اور اخلاقی بحران ہے جو رشتوں کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔
احساسِ ندامت کی گہرائی
دینِ اسلام میں ندامت کو اصلاح کی پہلی سیڑھی سمجھا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: "الندم توبۃ" (ندامت ہی توبہ ہے)۔ ایک مومن کے لیے اپنی غلطی پر شرمندہ ہونا ایمان کی علامت ہے، جو اسے اللہ کے حضور توبہ اور انسانوں سے معافی کی طرف راغب کرتا ہے۔ لیکن جب یہی ندامت حد سے بڑھ جائے، اور ندامت کا اظہار کرنے والے کو معافی یا عفو کا اطمینان نہ ملے، تو یہ ایک نفسیاتی بوجھ بن جاتی ہے۔
یہ بوجھ انسان کو دو خطرناک حالتوں میں لے جاتا ہے:
جب ندامت بہت گہری ہو جاتی ہے تو انسان ہر بات کو اپنے اوپر حملہ سمجھنے لگتا ہے۔ وہ خود کو مسلسل کمزور اور شرمندہ محسوس کرتا ہے، جس کے نتیجے میں کوئی بھی غیر متعلقہ بات یا تبصرہ اسے فوری طور پر اپنے ماضی کے عیب سے جوڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ ایک قسم کا ذہنی تحفظ ہوتا ہے جو دماغ اپنے پرانے زخموں کو دوبارہ کریدنے سے بچانے کے لیے اختیار کرتا ہے، لیکن عملی طور پر یہ ہر بات چیت کو زہریلا بنا دیتا ہے۔
خاموشی سے طعنے کا گمان چونکہ دوسرا فریق نے واضح طور پر معاملے کو ختم نہیں کیا، لہذا پہلے فریق کے ذہن میں یہ غلط گمان بیٹھ جاتا ہے کہ یہ خاموشی ایک طرح کا خاموش طعنہ ہے یا دوسرا شخص اب بھی اس کی غلطی کو یاد رکھے ہوئے ہے۔ یہ گمان آہستہ آہستہ پختہ یقین میں بدل جاتا ہے، اور یوں ایک عام جملہ بھی اسے ماضی کے اشارے کے طور پر سنائی دیتا ہے۔ یہ نفسیاتی کیفیت، جہاں جذبات منطق پر غالب آ جائیں، دینی اور اخلاقی توازن کو بگاڑ دیتی ہے۔
حسنِ ظن کی پامالی اور بدگمانی کا خطرہ
اس مسئلے کی سب سے بڑی جڑ اخلاقی تعلیمات سے دوری اور حسنِ ظن کی پامالی ہے۔ اسلام ہمیں تاکید کرتا ہے کہ "اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں...(سورۃ الحجرات: 12)۔ اس معاملے میں، ندامت اٹھانے والا شخص دوسروں کے ہر قول و فعل کو اپنی ذاتی کمزوری کی عینک سے دیکھتا ہے، اور یہ فرض کر لیتا ہے کہ دوسرا شخص ضرور اس کی نیت پر سوال اٹھا رہا ہے یا اس کا مذاق اڑا رہا ہے۔
بدگمانی کا یہ رویہ نہ صرف گناہ ہے بلکہ یہ ایک خود ساختہ اذیت بھی ہے۔ یہ شخص خود کو غیر ضروری طور پر ایک ایسے شک کے زندان میں قید کر لیتا ہے جہاں وہ ہر بات چیت میں چھپے ہوئے اشارے ڈھونڈتا ہے، اور چونکہ ذہن جس چیز کو ڈھونڈتا ہے، اسے پا ہی لیتا ہے، لہذا اسے ہر جملے میں اپنی تذلیل یا تنقید محسوس ہوتی ہے۔ یہ رویہ تعلقات کے خلوص کو تباہ کر دیتا ہے اور دوسرے فریق کو بھی غیر ضروری طور پر محتاط اور متنفر کر دیتا ہے۔ جب لوگ آپ کی ہر عام بات کو بھی غلط رنگ دینا شروع کر دیں تو صحت مند بات چیت کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ سیرتِ طیبہ کی روشنی میں واضح گفتگو اور عفو کا راستہ
اس جذباتی اور اخلاقی بحران کا حل صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی پیروی میں پنہاں ہے۔ سیرتِ طیبہ ہمیں شفافیت، صفائی اور دوٹوک گفتگو کی تعلیم دیتی ہے۔ جب معاملہ واضح نہ ہو تو اسے شک اور ابہام میں نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس مسئلے کو ختم کرنے کے لیے دونوں فریقین پر اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے: ذمہ داری فریقِ اول (جس سے ندامت کا اظہار ہوا ہے)
عفو و درگزر کی تکمیل:جس سے ندامت کا اظہار کیا گیا ہے، اس پر اللہ کی رضا کے لیے یہ اخلاقی فرض ہے کہ وہ معافی کو مکمل کرے۔ اگر وہ معاف نہیں کر سکتا یا نہیں کرنا چاہتا، تو یہ بات صاف گوئی سے کہے، اور اگر معاف کر دیا ہے، تو اب اس ماضی کے معاملے کو نہ خود یاد کرے اور نہ ہی اس کے اشارے دے۔ کسی بھی مسلمان کو طعنہ دینا یا احساسِ کمتری میں مبتلا رکھنا شرعاً ناپسندیدہ فعل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:"اور وہ غصہ پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں، اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (آل عمران: 134)۔ معافی صرف زبان سے نہیں بلکہ دل سے ہونی چاہیے۔
ذمہ داری فریقِ ثانی (جو ندامت کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے):
ماضی کو دفن کرنے کا عزم:اس فرد کو اللہ پر اور دوسرے کی صاف گوئی پر اعتمادکرتے ہوئے یہ یقین کر لینا چاہیے کہ وہ معاملہ اب ختم ہو چکا ہے۔ اسے ہر بات میں اشارے ڈھونڈنے کی عادت کو ترک کرنا پڑے گا، جو کہ شیطانی وسوسہ ہے۔ اسے یہ عزم کرنا ہوگا کہ وہ دوسروں کی ظاہری بات پر حسنِ ظن رکھے گا۔ اگر اسے شک ہو بھی تو وہ چپ رہنے یا ناراض ہونے کی بجائے، واضح سوال کرے: "کیا آپ کا اشارہ اس پرانے معاملے کی طرف ہے؟" تاکہ غلط فہمی فوراً ختم ہو۔
حدود اور نئے تعلق کی تعمیر: اگر رشتہ (مثلاً استاد-شاگرد یا محض ساتھی) ایک نئی سطح پر آ چکا ہے، تو دونوں کو مل کر اس رشتے کی نئی حدود کو باوقار طریقے سے واضح کرنا چاہیے تاکہ لاشعور کو مستقبل کے بارے میں کوئی غیر ضروری امید یا خدشہ نہ رہے۔
نتیجہ: اعتماد کی تعمیر اور تعلقات کی نجات
جہاں عقل و منطق جذباتی بوجھ کے ہاتھوں شکست کھا جائے، وہاں ایمان اور اخلاقی ذمہ داری کو آگے بڑھنا چاہیے تاکہ رشتوں کو بدگمانی کے سائے سے نجات ملے۔
کسی بھی رشتے کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ دونوں فریقین یہ تسلیم کریں کہ:غلط فہمی ایک روحانی بیماری ہے جس کا علاج سچائی اور وضاح ہے۔معافی صرف کہنے کا عمل نہیں بلکہ دوسرے کے لیے حسنِ ظن قائم رکھنے کا عہد ہے۔
جس نے ندامت کا اظہار کیا ہے، وہ توبہ اور ندامت کے بعد، اپنی زندگی میں اصلاح لائے اور آئندہ دوسروں سے حسنِ ظن رکھے۔ اور جس نے معافی دی ہے، وہ مکمل عفو و درگزر سے کام لے، اور کبھی بھی دوسرے کے اس پرانے معاملے کو بحث میں ہتھیار کے طور پر استعمال نہ کرے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمارے معاشرتی تعلقات کو شک و شبہات سے پاک کر کے محبت، احترام، اور سچائی کی روشنی میں لاتا ہے، جو کہ ایک اسلامی معاشرت کا حقیقی تقاضا ہے۔ ہمیں ہر لمحہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری دنیا اور آخرت کی کامیابی معاملات کی صفائی اور دلوں کے اطمینان میں ہی پنہاں ہے۔









آپ کا تبصرہ