بدھ 10 ستمبر 2025 - 16:10
وحدت کا اسلامی نقطۂ نظر (قسط 2)

حوزہ/اتحاد کا معنی و مفہوم بہت آسان اور واضح ہے، اس سے مراد مسلمان فرقوں کا باہمی تعاون اور آپس میں ٹکراؤ اور تنازعے سے گریز ہے۔ اتحاد بین المسلمین سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کی نفی نہ کریں، ایک دوسرے کے خلاف دشمن کی مدد نہ کریں اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر ظالمانہ انداز میں تسلط قائم کریں۔

تحریر: مولانا ہلال اصغر ہندی

حوزہ نیوز ایجنسی| وحدت اسلامی ایک ایسا بنیادی تصور ہے جو امت مسلمہ کی مضبوطی، یکجہتی اور اجتماعی تحفظ کے لیے پیش کیا گیا۔ اہل تشیع کے نزدیک وحدت کا مطلب صرف یکسانی عقائد نہیں بلکہ فقہی اختلافات کے باوجود مشترکہ امور میں تعاون، دشمن کے مقابلے میں اتحاد اور معاشرتی و دینی یکجہتی ہے۔ یہ مقالہ وحدت کے لغوی اور اصطلاحی معنی، تاریخی پس منظر، اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات، عملی مظاہر، مراجع کرام کے بیانات اور عصرِ حاضر میں اس کی ضرورت پر روشنی ڈالتا ہے۔

اتحاد بین المسلمین مراجع کرام کی نگاہ میں

امام خمینی رح کی نظر میں اتحاد بین المسلمین

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پوری زندگی میں وحدتِ اسلامی کو امت مسلمہ کی بقا، عزت اور دشمنوں پر غلبے کا واحد راستہ قرار دیا۔ ان کے نزدیک اتحاد بین المسلمین کا مفہوم یہ تھا کہ:

١: مشترکات کو محور بنانا

امام خمینی رہ نے فرمایا:ہم سب مسلمان قرآن اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والے ہیں۔ یہ سب سے بڑی مشترکہ چیز ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ انہی مشترکات کو ہم بھلا کر آپس میں لڑیں۔صحیفہ امام، ج ١٦، ص ٢٤٦-

٢: اختلافات کو دشمن کا ہتھیار نہ بننے دینا

آپ کا قول ہے:وہ ہاتھ جو شیعہ اور سنی کے درمیان اختلاف ڈالے، نہ شیعہ ہے نہ سنی، بلکہ اسلام اور قرآن کا دشمن ہے۔صحیفہ امام، ج ٤، ص ٤٣٧-

٣: اسلامی ممالک میں تعاون

امام خمینی رہ نے ہمیشہ زور دیا کہ اسلامی ممالک باہمی تعاون کریں اور اپنی توانائی ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ کریں، بلکہ استعمار اور استکبار (امریکہ و صہیونیت) کے مقابل متحد ہوں۔ صحیفہ امام، ج 21، ص ٩٠-

٤: ہفتہ وحدت کی بنیاد

آپ نے ١٢ ربیع الاول (اہل سنت کے نزدیک) اور ١٧ ربیع الاول (شیعہ کے نزدیک) کے درمیانی ایام کو ہفتہ وحدت قرار دیا تاکہ سب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو مرکز اتحاد بنائیں۔صحیفہ امام، ج ١٨، ص ٢٩١۔

٥: امت واحدہ کا پیغام

امام خمینی رہ نے فرمایا:مسلمانوں کو چاہئے کہ ایک امت کی طرح ہوں۔ اگر ایک ارب مسلمان متحد ہو جائیں تو نہ امریکہ کچھ کر سکتا ہے نہ روس۔صحیفہ امام، ج ١، ص ٢٧٨۔

پس خلاصہ کے طور پر کہا جاسکتا ہےکہ حضرت امام خمینی رہ کے نزدیک اتحاد بین المسلمین کا مطلب:

الف: شیعہ اور سنی کے درمیان احترام اور اخوت۔

ب: قرآن اور رسول کو محور بنانا۔

ج: مشترک دشمن (استعمار و صہیونیت) کے مقابل ایک امت کی طرح کھڑا ہونا‌۔

د: فرقہ واریت کو دشمن کا حربہ سمجھ کر اس سے بچنا۔

حضرت امام خامنہ ای دامت برکاتہ کی نظر میں اتحاد بین المسلمین

ہم نے جمہوری اسلامی ایران میں اس ہفتے یعنی بارہ سے سترہ ربیع الاول کو ہفتہ وحدت کا نام دے رکھا ہے۔ یہ صرف نامگذاری کی حد تک نہیں، کوئی اس کو سیاسی حرکت یا ٹیکٹیک بھی نا سمجھے بلکہ اس پر ہمارا اعتقاد اور قلبی ایمان ہے۔ جمہوری اسلامی ایران حقیقی معنوں میں امت اسلامی کے اتحاد کے لزوم کا معتقد ہے۔ اور ایسا بھی نہیں کہ یہ اسلامی انقلاب کے آنے کے بعد ایسا شروع ہوا اور پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا، بلکہ مرجع بزرگ مثل آیت اللہ بروجردی کہ جو پوری دنیاء تشیع کے مرجع کل تھے، ہماری جوانی کے ایام میں وہ بھی وحدت اسلامی کے بہت سخت حامی تھے۔ تقریب مذاہب اسلامی کے بہت جدی طور پر حمایتی تھے وہ ہمیشہ اسلامی دنیا کے علماء، اہلسنت علماء کے ساتھ آمد و رفت رکھتے اور ان سے گفتگو کرتے، پس امت اسلامی کا اتحاد ہمارا سیاسی اقدام نہیں بلکہ مذہبی اعتقاد ہے۔ ایک قلبی و عمیق اعتقاد۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں یا اس طرح سے ظاہر کرتے ہیں کہ یہ نعرہ فقط ایک سیاسی ٹیکٹیک ہے۔ جی نہیں! اس طرح سے ہرگز نہیں ہے۔ یہ ہمارا قلبی ایمان ہے۔

ہفتہ وحدت کے متعلق میری راۓ یہ ہے کہ امام راحل کے اس عظیم ابتکار کی اہمیت اب پہلے سے زیادہ کھل کر سامنے آ گئی ہے۔

جن ایام میں ہمارے بزرگوار امام نے ہفتہ وحدت کا اعلان فرمایا تھا اور وحدت مذاہب اسلامی و فِرق اسلامی کو مختلف جہات عمومی و سیاسی اور اسی طرح سے اجتماعی کی بنا پر ضروری قرار دیا، ان دنوں بہت سے مخاطبین نے اس پیغام کی اہمیت کو درک نہ کیا۔

بلکہ بہت سے اسلامی ممالک کے مسؤولین و سربراہان نے اس کو اصلا نہیں سمجھا تھا کہ یہ پیغام کس مقدار اہمیت کا حامل ہے۔ بہت سے نہیں سمجھ سکے اور بعض ضد پر اتر آۓ، البتہ انہوں نے ذاتی اغراض کی بنا پر اس پیغام کی اہمیت کا انکار کیا۔ آج ہم اس پیغام کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کیونکہ آج جو حوادث پیش آ رہے ہیں اور اسلامی ممالک میں جو اختلافات سامنے آ رہے ہیں، اور اسی طرح سے جو شام، عراق، لبیبا، یمن اور افغانستان میں ہو رہا ہے ان سب ممالک کے حوادث سے انسان سمجھ سکتا ہے کہ اسلامی ممالک میں وحدت کی کتنی ضرورت ہے۔ اس امت اسلامی کی یکپارچگی عنصر ذی قیمت ہے کہ جس کو امام نے لازمی قرار دیا اور تمام ممالک کے مسلمانوں سے درخواست کی، اور اگر اس درخواست پر عملی طور پر اقدامات ہوتے تو بہت سے ناگوار واقعات پیش نہ آتے۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم

آیت الله العظمیٰ سیستانی

ایک عظیم فقیہ اور مقتدر ہیں جو اسلامی مکاتب فکر کے درمیان اتحاد کے مسئلہ پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ فقہ اور اصول سے ہٹ کر پڑھانے میں بھی وہ "شیعہ فقہ اور دیگر مکاتب فکر کی فقہ کے درمیان تقابلی موازنہ" کا طریقہ استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے اپنے تحقیقی کام میں "اسلامی" کو ترجیح دی ہے کیونکہ ان کی رائے میں فتویٰ جاری کرتے وقت سنی فقہی سوچ کا علم، جیسا کہ موطا مالک کا علم اور ابو یوسف کے فتاویٰ اور دیگر فقہا کی آراء، ائمہ علیہم السلام کے اہداف کو ظاہر کرتی ہیں اور شیعہ رہنماوں کے نظریات کے بارے میں۔ ہم شیعوں اور سنیوں کے درمیان اتحاد کے حوالے سے ان کے افکار، نظریات اور عملی طریقوں کا جائزہ لیتے ہیں:

اتحاد پر زور دیتے ہوئے ملک کی گورننگ کونسل کے رکن محسن عبدالحمید اور سنی علماء کے ایک وفد سے ملاقات میں شیعوں اور سنیوں کے اتحاد پر تاکید کی۔ عبدالحمید نے جو اسلامی پارٹی آف عراق کے سربراہ بھی ہیں، میٹنگ کے آخر میں کہا: ہم نے آیت اللہ سیستانی کے ساتھ ملاقات میں عہد کیا کہ عراق کے اتحاد، سالمیت اور آزادی کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

انہوں نے عراق کے مختلف قبائل کے درمیان تفرقہ کو دشمنوں کے سب سے خطرناک ہتھیاروں میں سے ایک قرار دیا اور کہا: قرآن، پیغمبر اور ہمارا قبلہ ایک ہے لہذا شیعہ اور سنی کے درمیان تفرقہ اور تفرقہ کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

عبدالحمید نے کہا: عراقی عوام، شیعہ اور سنی دونوں ہی دشمنوں کی سازشوں کے مقابلے میں چوکس کھڑے ہیں اور عراق میں مختلف نسلی گروہوں کے درمیان کسی قسم کے خلل پیدا نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی آئندہ ہونے دیں گے۔ انہوں نے کچھ اسطرح سے وضاحت کی کہ: یہ وہ وقت ہے جب بہت سے لوگوں نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اگر صدام گر گیا تو عراق کی سڑکوں پر شیعوں اور سنیوں کا خون بہایا جائے گا۔

اس رپورٹ کے مطابق اس ملاقات میں شیخ محمود خلف الجراد، شیخ احمد الجبوری، حازم الجنابی اور شیخ حسن ملا علی کی سربراہی میں سنی اوقاف اور علمائے کرام کا ایک وفد محسن عبدالحمید کے ہمراہ تھا۔ اسلامی جمہوریہ نیوز ایجنسی، ١/٤/٢٠٠٤۔خبرگزاری جمهوری اسلامی، ۴/١/١٣٨٣.مجله، فرهنگ زیارت، مهر ماه سال ١٣٩٢ شماره ١٨۔

آیت اللہ مکارم شیرازی کی نظر میں اتحاد بین المسلمین

ایسے حالات میں مسلمانوں کو اپنے دشمنوں کے بے رحمانہ حملے کے خلاف اتحاد اور یکجہتی کی سخت ضرورت ہے، اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر شخص قرآن کے گرد جمع ہو جائے۔ یہ اللہ کی رسی اور مضبوط الہی دھاگہ ہے جو تمام دلوں کو جوڑتا ہے۔

سب سے پہلے، میں آپ سب کو، پیارے مفکرین، ہفتہ وحدت کے موقع پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں معزز بانیوں اور تمام معزز شرکاء، پیارے بھائیوں اور بہنوں کو بھی اس کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، جن کا نعرہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، امت اسلامی کے اتحاد کی علامت ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ تاریخ اسلام میں کسی بھی دور میں بھی مسلم اتحاد کی اتنی ضرورت نہیں رہی جتنی کہ آج ہے۔ دنیا آج ہر طریقے کی جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ دنیا میں اسلام کی ترقی کو روکنے اور مختلف خطوں و علاقوں بالخصوص مشرق وسطیٰ میں اسلامی حکومت کو شکست دینے کے لیے امریکہ، یورپی یونین، اسرائیل اور ان کے زیر کفالت اور کرائے کے ممالک نے ہاتھ ملایا ہے۔

دوسری طرف خداوند متعال کا شکر ہے کہ عرب اور ان کے قواعد و قوانین، اسلامی قواعد و قوانین اور رنگ ڈھنگ میں تبدیل ہو گئی ہے، اور ایک کے بعد ایک مسلم ممالک اپنی اسلامی شناخت کو نئے سرے سے دریافت کر رہے ہیں، جس نے حزب اختلاف کو بہت خوفزدہ کر دیا ہے۔

ان حالات میں دشمن نے جس اہم ترین ہتھیار کا سہارا لیا ہے، وہی ہتھیار جو ہمارے لیے بہت خطرناک اور دشمن کے لیے بہت کارگر ہے، مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ اور غیر فرقہ وارانہ خانہ جنگی کا پیدا ہونا ہے، جس کی واضح اور شدید مثال ہمیں مظلوم ملک شام میں دیکھنے کو ملتی ہے۔

امریکہ اور اسرائیل اور بدقسمتی سے ان کے بعض ظاہری طور پر اسلامی کٹھ پتلی ممالک پیسہ اور اسلحہ فراہم کرتے ہیں تاکہ مسلمان ایک دوسرے کا خون بہا کر اپنے ملک کو تباہ و برباد کر دیں۔

یہ جبکہ قرآن کریم واضح طور پر اختلاف اور اختلاف کو اسلامی معاشرے کی روح کی ناکامی اور تباہی کا سبب قرار دیتا ہے اور سورہ انفال میں واضح طور پر فرماتا ہے: وَ لاَ تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَ تَذْهَبَ رِیحُکُمْ۔ سورہ انفال آیت نمبر ٤٦.اور جھگڑا نہ کرو، کیونکہ تم ناکام ہو جاؤ گے اور تمہاری شان و شوکت مقام و منزلت چلی جائے گی۔

اور دوسری جگہ اختلاف کو آسمانی اور زمینی آسمانی اور زمینی آسمانی ریاستوں میں سے ایک کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ سورہ انعام میں ارشاد فرمایا: قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَی أَنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابآ مِّنْ فَوْقِکُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِکُمْ أَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعآ وَیُذِیقَ بَعْضَکُمْ بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الاْیَاتِ لَعَلَّهُمْ یَفْقَهُونَ۔سورہ انعام آیت نمبر ٦٥۔کہہ دو وہ (اللہ) ہی قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے عذاب بھیجے، یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے، یا تمہیں گروہوں (فرقوں) میں ملا دے اور بعض کو بعض کے عذاب کا مزہ چکھائے۔ دیکھو ہم کس طرح آیات کو مختلف صورتوں میں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں۔

اور دوسری جگہوں پر بھی وہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور تفرقہ کو شرک اور کفر کے راستے پر گامزن سمجھتے ہیں جیسا کہ سورہ انعام میں فرماتے ہیں: إِنَّ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَهُمْ وَکَانُوا شِیَعآ لَسْتَ مِنْهُمْ فِی شَیءٍ۔ سورہ انعام آیت نمبر ١٥٩۔بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، پھر وہ انہیں بتا دے گا جو کچھ وہ کرتے تھے۔

یہ عجیب بات ہے کہ ہم ان آیات کو حفظ کرتے ہیں، دن رات ان کی تلاوت کرتے ہیں، اور اپنے قرآن کے حافظوں کو ان کا بدلہ دیتے ہیں، اور ان کے پیغام اور مواد پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔ تاریخ درج : ١١/١٣٩١ /٠٨، زمان درج :١٦:٣٤ منبع : makarem.ir

ہفتہ وحدت پر اعتراضات اور اس کے جوابات

١: اعتراض: کیا ہفتۂ وحدت بدعت ہے؟

بعض لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ صحابہ کرام، تابعین یا ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے ہفتہ وحدت نہیں منایا، اس لیے یہ بدعت ہے اور دین میں نئی چیز داخل کرنے کے مترادف ہے۔

جواب:

١: بدعت کی شرعی تعریف

بدعت وہ چیز ہے جو عبادت یا عقیدہ کے عنوان سے دین میں داخل کر دی جائے، حالانکہ اس کی کوئی اصل شریعت میں نہ ہو۔

جبکہ ہفتہ وحدت کوئی نئی عبادت، نماز، روزہ یا عقیدہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک اجتماعی و سماجی تدبیر ہے تاکہ مسلمانوں کو قریب لایا جائے۔

اس طرح کی تدابیر مصالح مرسلہ یا عنوانات ثانویہ کے تحت آتی ہیں، جو فقہ اسلامی میں جائز ہیں۔

٢: قرآنی دلیلیں

الف: اتحاد کا حکم

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا. آل عمران،١٠٣-یعنی اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔

ب: نزاع کی ممانعت

وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ (الأنفال، ٤٦-یعنی آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم ناکام ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔

ان آیات سے ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی وحدت بذاتِ خود شرعی واجب ہے، اور ہفتہ وحدت اسی حکم پر عمل کرنے کا ایک عملی ذریعہ ہے۔

٣: اہل سنت کے نزدیک

(الف) مسلمان ایک جسم کی مانند

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضاً(صحیح بخاری، صحیح مسلم)مومن مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے۔

ب: بھائی چارے کی تعلیم

المسلم أخو المسلم، لا يظلمه ولا يخذله ولا يحقره (صحیح مسلم) مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے چھوڑتا ہے اور نہ اسے حقیر جانتا ہے۔

یہ احادیث واضح کرتی ہیں کہ مسلمان آپس میں جڑنے اور ایک دوسرے کا سہارا بننے کے مکلف ہیں۔ ہفتہ وحدت اسی مقصد کی تقویت ہے۔

٤: اہل تشیع کے نزدیک

الف: امام علی علیہ السلام کا فرمان

اللہ سے ڈرو! اللہ سے ڈرو! مسلمانوں کے امور اور ان کے اتحاد میں اختلاف پیدا نہ کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اصلاح ذات البین افضل من عامة الصلاة والصیام۔(نہج البلاغہ، خطبہ ٤٧-)یعنی آپس میں صلح کرانا عام نماز اور روزے سے افضل ہے۔

ب: امام جعفر صادق علیہ السلام

کونوا لنا زیناً ولا تکونوا علینا شیناً، صلّوا فی عشائرهم، وعودوا مرضاهم، واشهدوا جنائزهم (الکافی، ج ٢، ص ٦٣٦-)یعنی ہمارے لیے زینت بنو، ہمارے لیے باعث ننگ و عار نہ بنو۔ ان کی جماعتوں میں نماز پڑھو، ان کے بیماروں کی عیادت کرو، اور ان کے جنازوں میں شریک ہو۔

یہ اقوال اہل بیت علیہم السلام کے نزدیک مسلمانوں کے درمیان تعلق، تعاون اور وحدت کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔

ہفتہ وحدت عبادت یا عقیدہ کے طور پر کوئی نئی چیز نہیں، لہٰذا شرعی بدعت نہیں۔

ہفتہ وحدت بدعت نہیں، بلکہ قرآن، سنت اور اہل بیتؑ کی تعلیمات پر عمل کی ایک جدید اور کارآمد شکل ہے، جو امت مسلمہ کو دشمنوں کے مقابلے میں طاقتور بناتی ہے۔

٢: اعتراض: ہفتہ وحدت کا مطلب یہ ہے کہ شیعہ اپنے عقائد سے دستبردار ہوں؟

جواب: یہ اعتراض کہ ہفتۂ وحدت کا مطلب یہ ہے کہ شیعہ اپنے عقائد سے دستبردار ہوں نہ صرف غیر علمی ہے بلکہ قرآن، سنت اور شیعہ علما کے بیانات کے خلاف بھی ہے۔

آئیے اس کا تفصیلی، مدلل اور حوالہ جات کے ساتھ جواب دیکھتے ہیں:

١: قرآن کی روشنی میں

قرآن کریم اتحاد کی دعوت دیتا ہے، لیکن یہ کبھی بھی یہ نہیں کہتا کہ اپنے عقائد کو چھوڑ دو۔

١: آیت ١:

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا- آل عمران: ١٠٣-اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔ اللہ کی رسی۔ قرآن و اہل بیت (ع) ہیں (تفسیر صافی، ج ١، ص ٣٢٣؛ بحارالانوار، ج ٢٣، ص ١٠٤-

اس آیت میں اتحاد کی بات ہے، عقیدے کے ترک کرنے کی نہیں۔

آیت ٢:

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ- آل عمران: ٦٤-کہہ دو: اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے۔ یہاں بھی مشترک اصول کی بات ہے، عقیدے کی نفی کی نہیں۔

٢: حدیث کی روشنی میں

حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا۔ مومن، مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے، ایک دوسرے کو سہارا دیتا ہے۔ صحیح بخاری، ج ١، ص ١١٣؛ اصول کافی، ج ٢، ص ١٦٦۔یہ حدیث اتحاد کی تاکید کرتی ہے، مگر کوئی روایت یہ نہیں کہتی کہ اتحاد کے لیے ایمان یا عقیدہ چھوڑ دو۔

امام علی علیہ السلام کا قول

النَّاسُ صِنْفَانِ: إِمَّا أَخٌ لَكَ فِي الدِّينِ، أَوْ نَظِيرٌ لَكَ فِي الْخَلْقِ نہج البلاغہ، خطبہ ٥٣۔لوگ دو قسم کے ہیں: یا تو دین میں تمہارے بھائی ہیں، یا خلقت میں تمہارے جیسے ہیں۔

امام علی علیہ السلام نے وسیع پیمانے پر اخوت اور احترام کی تعلیم دی، عقائد کی نفی نہیں کی۔

٣: شیعہ علما و مراجع کا موقف

حضرت امام خمینی رہ

ہفتہ وحدت کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے عقائد سے ہٹ جائیں۔ شیعہ اپنے عقائد پر قائم رہیں گے، سنی اپنے عقائد پر قائم رہیں گے، مگر ہم دشمن کے مقابلے میں متحد رہیں گے۔ صحیفہ امام، ج ١٧، ص ٢١٧۔

آیت اللہ سیستانی

ہماری تاکید یہ ہے کہ دوسرے مکاتب فکر کا احترام کیا جائے، اور ان کے مقدسات کی توہین نہ کی جائے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی اپنے عقائد سے دستبردار ہو۔ بیانات دفتر آیت اللہ سیستانی، نجف اشرف، ٢٠١٤۔

شہید مطہری رہ

وحدت اسلامی کا مقصد یہ نہیں کہ سب شیعہ یا سنی ہو جائیں، بلکہ یہ ہے کہ سب ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے مشترکہ دشمن کے مقابلے میں کھڑے ہوں۔ مقالات شہید مطہری، وحدت اسلامی، ص ٤٥۔

٤: عملی مثالیں

شیعہ ہمیشہ اپنے عقائد پر قائم رہتے ہوئے عاشورا، غدیر اور اہل بیت علیہم السلام کی یاد مناتے ہیں، اور ساتھ ہی ہفتہ وحدت میں اہل سنت بھائیوں کے ساتھ مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی بھی مناتے ہیں۔ یہ اتحاد سیاسی، فکری اور دفاعی میدان میں ہے، عقائد میں یکسانیت کا مطالبہ نہیں۔

٣: اعتراض: اختلافات کو دبانے سے وہ ختم نہیں ہوتے۔

جواب: اختلافات کو دبانے سے وہ ختم نہیں ہوتے- اور اس کا جواب قرآن، احادیث اور معتبر شیعہ منابع میں کچھ اسطرح بیان ہوئے ہیں:

١: قرآن کی روشنی میں

اختلاف کا وجود فطری ہے

وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ-ھود: ١١٨-اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا، لیکن وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے۔

قرآن کہتا ہے کہ اختلاف فطری ہے اور باقی رہے گا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر اختلاف کو دشمنی یا تفرقے میں بدل دیا جائے۔

منفی اختلاف سے بچنے کی تاکید

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا-آل عمران،١٠٥-ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا۔

قرآن کریم فرق کو دبانے کا نہیں بلکہ منفی اور تفرقہ انگیز اختلاف کو روکنے کا حکم دیتا ہے۔

اتحاد کی اصل بنیاد

إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ-الانبیاء،٩٢-اللہ نے سب مسلمانوں کو ایک ہی امت کہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علمی و فقہی اختلاف اپنی جگہ، مگر عملی میدان میں ایک امت کی صورت میں رہنا ضروری ہے۔

٢: احادیث کی روشنی میں

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

اختلاف امتی رحمة- کنزالعمال، ج ١، ص ٤٤٥-

تشریح: علمی و فقہی اختلاف اگر حدود میں رہے تو یہ رحمت ہے، کیونکہ امت میں فکری وسعت اور اجتہاد کا ذریعہ بنتا ہے۔ لیکن یہ اختلاف اگر تفرقہ اور عداوت میں بدل جائے تو لعنت اور ہلاکت کا سبب بنتا ہے۔

حضرت امام علی علیہ السلام کا فرمان

إياكم والفرقة فإن الشاذ من الناس للشيطان كما أن الشاذ من الغنم للذئب-نہج البلاغہ، حکمت ١٢٧-فرقہ بندی سے بچو، کیونکہ جو فرد لوگوں سے کٹ جائے وہ شیطان کا شکار ہوتا ہے، جیسے بکریوں میں سے الگ ہونے والی بکری بھیڑئیے کا شکار بن جاتی ہے۔

حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اختلاف کو دشمنی میں بدلنا شیطان کے ہاتھ مضبوط کرتا ہے۔

٣: شیعہ علما و مراجع کی وضاحت

امام خمینی رہ

اختلافات ختم نہیں ہو سکتے، مگر ان کو اس حد تک نہ پہنچایا جائے کہ مسلمانوں کی طاقت بکھر جائے اور دشمن ہم پر غالب آ جائے۔ (صحیفہ امام، ج ١٦، ص ١٥-

آیت اللہ خامنہ ای

اختلاف رائے ہونا ایک حقیقت ہے، لیکن یہ اختلاف ہمیں ایک دوسرے سے دور کرنے کی بجائے باہمی تعاون اور تکامل کا ذریعہ بننا چاہیے۔ بیانات، ١٢ ربیع الاول ١٤٣٣ھ۔

آیت اللہ سیستانی

ہمیں اپنے اختلافات کو علمی دائروں تک محدود رکھنا چاہیے اور معاشرتی و سیاسی میدان میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ بیانات دفتر نجف اشرف، ٢٠١٥-

٤: اختلافات دبانے کیلئے نہیں ہوتے، بلکہ انہیں مدیریت اور اعتدال کے ساتھ چلایا جاتا ہے۔ اتحاد کا مطلب یہ نہیں کہ فقہی و عقیدتی اختلافات ختم ہو جائیں، بلکہ یہ کہ:

الف: ہم دشمن کے سامنے ایک امت کی طرح کھڑے ہوں، ب: ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین نہ کریں، ج: مشترکہ دشمنوں کے مقابلے میں ساتھ دیں۔

پس کہا جائے کہ: اختلاف فطری اور باقی رہنے والا ہے- سورہ ھود، ١١٨-

منفی اختلاف و تفرقہ ممنوع ہے- آل عمران،١٠٥

اختلاف اگر علمی حدود میں رہے تو رحمت ہے حدیث اختلاف امتی رحمة

ائمه اہل بیت علیہم السلام اور مراجع کا حکم ہے کہ اختلاف کو دشمنی میں بدلنے کی بجائے حکمت کے ساتھ اتحاد میں تبدیل کیا جائے۔

لہٰذا اختلاف کو دبانے کا مطلب یہ نہیں کہ اسے مٹا دیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ اسے تشویش، نفرت اور دشمنی کا ذریعہ نہ بننے دیا جائے۔

٤: اعتراض یہ ہےکہ اتحاد صرف سیاسی نعرہ ہے، عملی فائدہ نہیں؟

جواب: اس اعتراض اور شبہہ کا تفصیلی جواب کچھ اس طرح سے ہے:

١: قرآن کی روشنی میں

اتحاد کو صرف نعرہ نہیں بلکہ عمل قرار دیا گیا

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ-الحجرات،١٠-بیشک مومن آپس میں بھائی ہیں، پس اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرا دیا کرو۔

یہاں قرآن نے اتحاد کو محض قول یا نعرہ نہیں بلکہ عملی فریضہ قرار دیا ہے۔

دشمن کے مقابلے میں اجتماع کی تاکید

وَلاَ تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ-الأنفال، ٤٦-

آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ کمزور ہو جاؤ گے اور تمہاری طاقت جاتی رہے گی۔

یہ آیت صاف بتاتی ہے کہ اتحاد عملی فائدہ رکھتا ہے: اگر اختلاف ہوگا تو طاقت ختم ہو جائے گی، اگر اتحاد ہوگا تو طاقت محفوظ رہے گی۔

٢: احادیث کی روشنی میں

حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا-

صحیح بخاری، ج ١، ص ١١٢؛ اصول کافی، ج ٢، ص ١٦٦-مومن، مومن کے لیے دیوار کی مانند ہے جو ایک دوسرے کو سہارا دیتی ہے۔

یہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ اتحاد محض نعرہ نہیں بلکہ عملی سہارا اور قوت ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام

كونوا لنا زيناً ولا تكونوا علينا شيناً.اصول کافی، ج ٢، ص ٧٧-ہمارے لیے زینت بنو، ہمارے لیے باعث شرمندگی نہ بنو۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے عملی کردار پر زور دیا، یعنی شیعہ ایسے اعمال کریں جن سے اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والوں کی عزت بڑھے اور تفرقہ نہ ہو۔

حضرت امام علی علیہ السلام

إياكم والفرقة، فإنها تهدم الدين وتفسد اليقين۔ غرر الحكم، حدیث ١٠٢٥٨-فرقہ بندی سے بچو، کیونکہ یہ دین کو برباد اور یقین کو ضعیف کر دیتی ہے۔

امام عالی مقام نے واضح فرمایا کہ اتحاد عملی فائدہ ہے اور تفرقہ عملی نقصان۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha