جمعرات 4 ستمبر 2025 - 20:34
میلادِ پیغمبرِ اِسلام (ص) اور ہفتۂ وحدت کی ضرورت

حوزہ/ربیع الاوّل کی بارہویں اور سترہویں تاریخ کے درمیانی عرصے کو اسلامی دنیا میں عقیدت و احترام کے ساتھ ’’ہفتۂ وحدت‘‘ کے نام سے منایا جاتا ہے؛ یہ ہفتہ دراصل نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ کی بابرکت ولادت سے جُڑا ہوا ہے، جن کے وجودِ مقدس نے نہ صرف عرب کے تاریک معاشرے کو ایمان و نور سے روشن کیا، بلکہ ساری انسانیت اور تمام مخلوقات کے لیے رحمت بن کر آیا۔

تحریر: مولانا شیخ قادر بخش حیدری

حوزہ نیوز ایجنسی| ربیع الاول کی بارہویں اور سترہویں تاریخ کے درمیانی عرصے کو اسلامی دنیا میں عقیدت و احترام کے ساتھ ’’ہفتۂ وحدت‘‘ کے نام سے منایا جاتا ہے؛ یہ ہفتہ دراصل نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ کی بابرکت ولادت سے جُڑا ہوا ہے، جن کے وجودِ مقدس نے نہ صرف عرب کے تاریک معاشرے کو ایمان و نور سے روشن کیا، بلکہ ساری انسانیت اور تمام مخلوقات کے لیے رحمت بن کر آیا۔

اسلامی روایات میں ولادتِ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ کی تاریخ کے حوالے سے دو بڑے نظریات ملتے ہیں: اہلِ سنت کے نزدیک یہ بارہ ربیع الاول ہے جبکہ اہلِ تشیع کی معتبر روایات کے مطابق سترہ ربیع الاول۔ انہی دونوں تاریخوں کے درمیانی عرصے کو انقلابِ اسلامی کے بانی حضرت امام خمینیؒ نے ’’ہفتہ وحدت‘‘ قرار دیا تاکہ مسلمان اپنے اختلافات کو بھلا کر قریب ہوں اور رسولِ اکرم ﷺ کی تعلیمات پر متحد ہوکر عمل کریں۔

نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ کی ولادت ایک ایسا عظیم واقعہ ہے جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ جہاں صرف بت پرستی، جہالت، قبائلی دشمنیاں اور عورتوں کی ناقدری تھی، وہاں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ امن، علم، اخوت، عورت کی عزت اور انسانیت کے احترام کا پیغام لے کر تشریف لائے۔ قرآنِ کریم میں مسلمانوں کو بار بار یاد دلایا گیا ہے کہ ان کی اصل طاقت اتحاد میں ہے: ’’اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘ (آلِ عمران: 103)

یہ پیغام صرف ماضی کے لیے نہیں بلکہ آج کی دنیا کے لیے بھی ہے۔ جب مسلمان متحد ہوں گے تو دنیا کی سب سے عظیم تہذیب بنیں گے اور جب وہ تفرقوں میں بٹ جائیں گے تو کمزور ہوجائیں گے۔

ہفتۂ وحدت؛ اخوت اور بھائی چارے کا درس

ہفتہ وحدت صرف ایک مذہبی تقریب نہیں بلکہ ایک اجتماعی تحریک ہے۔ اس ہفتے کا پیغام یہ ہے کہ مسلمانوں کا اصل دشمن تفرقہ اور باہمی دشمنی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی میلادِ مبارک کا یہ ہفتہ ہمیں سکھاتا ہے کہ:

پرانی دشمنیوں کو ختم کرکے بھائی چارے میں بدلا جائے۔

نسل، رنگ، زبان اور قبیلے کے فرق کو چھوڑ کر سب کو ایک اللہ اور ایک رسول ﷺ کے زیرِ سایہ جمع ہو جائیں ۔

امتِ مسلمہ کی اجتماعی طاقت کو دشمنوں کی سازشوں کے مقابل استعمال کیا جائے۔

اسی وحدت کی برکت سے مکہ و مدینہ کے مہاجر و انصار بھائی بنے، عرب و عجم، کالے اور گورے سب ایک صف میں اکٹھے ہوئے۔

آج کی دنیا اور وحدت کی ضرورت

آج جب دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب سے زیادہ ہے اور بعض اسلامی ممالک غیر معمولی ترقی کررہے ہیں، تب استعماری اور صیہونی طاقتیں سب سے زیادہ مسلمانوں کی وحدت سے خائف ہیں۔ ان کی تاریخ مسلمانوں کے اتحاد کے ہاتھوں شکستوں سے بھری پڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کریں: کبھی مذہبی اختلافات کے نام پر، کبھی قومی و نسلی تعصبات کے ذریعے اور کبھی دنیا پرستی کے جال میں پھنساکر۔

حضرت علی علیہ السلام کا ایک فرمان نہج البلاغہ میں آج بھی ہمارے لیے سبق ہے:

’’خدا کی قسم! دل کو کرب ہوتا ہے کہ وہ باطل پر متحد ہیں اور تم حق پر ہوکر بھی اختلاف میں مبتلا ہو۔‘‘

یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ اگرچہ حق پر ہونا بڑی نعمت ہے، لیکن جب تک وحدت نہ ہو کامیابی ممکن نہیں۔

تکفیری سوچ؛ امت کے لیے زہر

آج کی اسلامی دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ تکفیری سوچ ہے جو دشمنوں کے ہاتھوں تیار کی گئی ہے۔ داعش جیسے گروہ، جو مسلمانوں ہی کو قتل کرتے ہیں، دراصل اسلام کے نہیں بلکہ اسلام دشمنوں کے آلہ کار ہیں۔

اگر مسلمانوں کو موجودہ مصیبتوں، پسماندگی اور دشمنوں کے ظلم سے بچنا ہے تو صرف ایک راستہ ہے: وحدت۔ اس کے لیے ایک بڑی فکری اور ثقافتی تحریک چلانی ہوگی جو تکفیری سوچ اور تفرقہ پرور ذہنیت کا خاتمہ کرے۔ علما، دانشور اور نیک شخصیات کو اس جدوجہد میں آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا ہوگا۔

داعش کو شاید عراق و شام میں فوجی شکست ہوگئی ہو، مگر اگر اس کی سوچ کو ختم نہ کیا گیا تو یہ زہر کسی اور خطے میں پھر پھیل سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ قرآن اور رسولِ اکرم ﷺ کے حکم کے مطابق ’’ہفتہ وحدت‘‘ کو محض ایک تقریب نہیں بلکہ ایک حقیقی تحریک بنایا جائے۔

وحدتِ اسلامی محض ایک نعرہ نہیں، بلکہ امتِ مسلمہ کی بقاء اور ترقی کی بنیاد ہے۔ دشمن ہمیشہ چاہتا ہے کہ مسلمان آپس میں بٹے رہیں، لیکن اگر ہم سب ایک ہو جائیں تو کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔

آج جب ہفتۂ وحدت کا آغاز ہوتا ہے تو ہمیں نہ صرف خوشیاں منانی چاہئیں، بلکہ اپنے آپ سے یہ عہد بھی دہرانا ہوگا کہ ہم قرآن و رسولِ خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ کے پیغام پر عمل کرتے ہوئے تفرقے کو چھوڑیں گے اور اتحاد و بھائی چارے کو اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنائیں گے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha