تحریر: سیدہ محدثہ کوثر حسینی
حوزہ نیوز ایجنسی| انسانی معاشروں میں مظلومیت ایک ایسی حقیقت ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ مظلوموں کے حقوق کی پامالی ہمیشہ سے ایک دردناک مسئلہ رہی ہے۔ اس تناظر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیتؑ کی سیرت ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے جو مظلوموں کی حمایت اور ظالموں کے مقابل قیام کا درس دیتی ہے۔
قرآنی تعلیمات کی روشنی میں
قرآن کریم میں بارہا مظلوموں کی حمایت اور ان کے دفاع پر تاکید ملتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "اور تم کیوں اللہ کی راہ میں نہیں لڑتے، حالانکہ وہ کمزور مرد، عورتیں اور بچے (مظلوم ہوکر) پکار رہے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنی طرف سے مددگار اور حامی مقرر فرما۔" (النساء: 75)
اسی طرح، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اور ہرگز یہ نہ سمجھو کہ اللہ ظالموں کے اعمال سے غافل ہے۔" (ابراہیم: 42)
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ مظلوموں کی مدد صرف دینی حکم نہیں بلکہ ایک عظیم انسانی فریضہ بھی ہے۔
سیرتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ شفقت، ہمدردی اور انصاف کا سلوک فرمایا۔ آپ کی سیرت عدل و رحمت کی زندہ مثال ہے۔ آپ نے مدینہ میں مختلف قبائل کے درمیان صلح قائم کی اور کمزوروں کے حق میں کھڑے ہوئے۔ آپ کا فرمان ہے:
"مظلوم کی مدد کے لیے پانچ میل بھی جانا پڑے تو جاؤ، اور فریادی کی مدد کے لیے چھ میل بھی سفر کرنا پڑے تو کرو۔" (مصادقة الاخوان، ص 58)
اہل بیتؑ کی تعلیمات
اہل بیت علیہم السلام کی زندگیاں بھی مظلوموں کی حمایت اور ظلم کے خلاف قیام کا روشن چراغ ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کی تحریک کربلا اس کا سب سے تابناک نمونہ ہے، جہاں آپ نے حق و انصاف کے لیے اپنی اور اپنے خاندان کی قربانی پیش کی۔ امام صادقؑ فرماتے ہیں: "مومن وہ ہے جو مظلوم کی مدد کرتا ہے، مسکین پر رحم کرتا ہے، اپنی ذات کو تکلیف میں ڈال کر دوسروں کو راحت دیتا ہے۔" (الکافی، ج 2، ص 236)
عصرِ حاضر اور فلسطین
آج فلسطین کے مظلوم عوام ظلم و ستم کی زندہ مثال ہیں۔ عالمی اداروں کی خاموشی اور بڑی طاقتوں کی مفاد پرستی نے ان کی حالت کو مزید ابتر بنا دیا ہے۔ یہ مسئلہ صرف فلسطین کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا امتحان ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے بارہا تاکید کی ہے کہ مظلوموں کی حمایت اور ان کے حقوق کی بازیابی مسلمانوں کا دینی و اخلاقی فریضہ ہے۔
مظلوموں کے ساتھ برتاؤ کی اقسام
مدد: عملی و مالی تعاون اور ان کے حق میں آواز بلند کرنا۔
اخلاقی سکون: تسلی، دلاسہ اور حوصلہ دینا۔
نفسیاتی تعاون: ان کے ساتھ کھڑا رہنا، ان کی فریاد سننا اور ساتھ نبھانا۔
نتیجہ
قرآن، سیرتِ رسولؐ اور اہل بیتؑ کی تعلیمات ہمیں یہ پیغام دیتی ہیں کہ مظلوموں کی حمایت ایمان اور انسانیت دونوں کا تقاضا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور مظلوموں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔ جب ہم اس روش پر چلیں گے تو عدل و انصاف پر مبنی ایک پرامن معاشرہ تشکیل دے سکیں گے۔ یہی اسلام کی اصل تعلیم اور ہماری حقیقی پہچان ہے۔









آپ کا تبصرہ