حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ محمد باقر تحریری نے اپنی ایک تقریر میں ائمہ معصومین علیہم السلام کی شفقت و مہربانی کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے قریبی صحابی رُمیلَہؒ کی روایت بیان کی۔
رُمیلَہؒ بیان کرتے ہیں:
"میں امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے زمانے میں شدید بیمار ہو گیا، یہاں تک کہ ایک جمعہ کے دن مجھے کچھ افاقہ محسوس ہوا۔ میں نے سوچا کہ بہتر یہی ہے کہ غسل کر کے مسجد جاؤں اور امیرالمؤمنینؑ کی اقتدا میں نماز ادا کروں۔
میں مسجد پہنچا، لیکن جب حضرت منبر پر تشریف لے گئے تو میری حالت دوبارہ بگڑ گئی۔ نماز کے بعد جب امیرالمؤمنینؑ مسجد سے نکل کر دارالحکومت تشریف لے گئے تو میں بھی ان کے ساتھ اندر داخل ہوا۔
حضرت نے فرمایا:
‘اے رُمیلَہ! میں نے دیکھا کہ تم تکلیف میں مبتلا تھے۔’
میں نے عرض کیا: جی ہاں، پھر میں نے اپنی بیماری اور نماز میں شرکت کی وجہ بیان کی۔
اس پر امیرالمؤمنینؑ نے فرمایا:
‘اے رُمیلَہ! کوئی مؤمن بیمار نہیں ہوتا مگر یہ کہ ہم بھی اس کی بیماری میں شریک ہو جاتے ہیں، کوئی مؤمن غمگین نہیں ہوتا مگر یہ کہ ہم بھی اس کے غم میں غمگین ہو جاتے ہیں، کوئی دعا نہیں کرتا مگر یہ کہ ہم اس کی دعا پر آمین کہتے ہیں، اور اگر وہ خاموش بھی رہے تو ہم اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔’
میں نے عرض کیا:
‘اے امیرالمؤمنین! یہ بات شاید ان مؤمنین کے بارے میں ہو جو یہاں آپ کے سامنے موجود ہیں، لیکن وہ لوگ جو زمین کے دوسرے حصوں میں ہیں، ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟’
اس پر امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
‘اے رُمیلَہ! مشرق و مغرب میں کوئی بھی مؤمن ہم سے پوشیدہ نہیں ہے۔’"
آیت اللہ تحریری نے کہا کہ یہ روایت ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی وہ اعلیٰ ترین شفقت اور عطوفت ظاہر کرتی ہے جو ایک انسان دوسرے انسان کے لیے رکھ سکتا ہے، بلکہ یہ درحقیقت خداوندِ متعال کی رحمت اور مہربانی کا کامل مظہر ہے۔









آپ کا تبصرہ