۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
سیپارۂ رحمان

حوزہ/قرآن مجید کے تیس پاروں کا اجمالی جائزہ؛پہلے اور دوسرے پارے کا مختصر جائزه۔

حوزہ نیوزایجنسیl

ترتیب و تحقیق: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

پہلےاور دوسرے پارے کا مختصر جائزه

پہلے پارے کےچیدہ نکات

(سورهٔ حمد، سورهٔ البقرہ)

سورهٔ حمد

1. خدا کے نام سے ابتدا انتہائی با برکت شئے ہے جس سے تکمیل کار کی ضمانت بھی حاصل ہوتی ہے اور مسلمانوں کی ذہنی تربیت بھی ہوتی ہے کہ کسی کام میں یاد خدا سے غافل نہیں ہونا چاہیے اور جس کو ہر کام میں خدا یاد رہے گا اس کا کوئی کام قانون خدا کے خلاف نہ ہوگا اور اس کی زندگی میں گناہوں کا گزر نہ ہوگا کھانے میں بسم اللہ حرام کھانے سے پرہیز ، جنسی تعلقات میں بسم اللہ حرام کاری سے پرہیز، پڑھنے میں بسم اللہ مہمل لٹریچر کے مطالعہ سے پر ہیز کا سبق دیتاہے۔

2. رحمان مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی عظیم اور وسیع رحمتوں والا ہے، اس لفظ کا اطلاق عام طور سے خدا کے علاوہ کسی دوسرے پر نہیں ہوتا۔

3. رحیم وہ صفت ہے جس میں دوام کا مفہوم پایا جاتا ہے یعنی ہمیشہ رحمت اور مہربانی کرنے والا رحمان کے بعد رحیم کے لفظ کو اسی لئے رکھا گیا ہے کہ اس سے عظیم رحمتوں کے دوام کو ظاہر کیا جاتا ہے ۔

4. حمد۔مدح سے مختلف چیز ہے جس کے لئے عمل کا اختیاری ہونا ضروری ہے اور چونکہ اختیارِکل رب العالمین کے ہاتھ میں ہے لہذا واقعی حمد کا استحقاق بھی اسی کے لئے ہے یہ جمله "الحمد لله" اگر چہ کلام خالق ہے لیکن درحقیقت یہ بندوں کی تربیت کے لیے ہے کہ ہم تعریف کا سلیقہ نہ سکھائیں گے تو انسان ذاتی طور پر تعریف کرنے کے قابل بھی نہیں ہوسکتا ہے ۔

واضح رہے کہ دنیا میں عام طور سے تعریف کے چار اسباب ہوتے ہیں ذاتی کمال، حاصل ہونے والا فائدہ ، فائدہ کی توقع اور خوف؛ اور پروردگار عالم ان چاروں ہی جہات کا حامل ہے وہ اللہ بھی ہے، رب العالمین بھی ہے، رحمان و رحیم بھی ہے اور مالک یوم الدین بھی ہے، لہذا وہ ہرقسم کی تعریف کا حقدار ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا ایسی تعریف کا حق دار نہیں ہے ہاں وو خودکسی کو محمد بنا دے تو اور بات ہے۔

5. رب العالمین۔ عالمین عالم کی جمع ہے یعنی کسی ایک خاص قسم کی مخلوقات یعنی وہ تمام مخلوقات کا خالق بھی ہے اور پروردگار بھی، مخلوقات پیدا ہونے کے بعد بھی اس سے بے نیاز نہیں ہوسکتیں۔

6. مالک۔ دنیا کے تمام افراد زمانے کے ملک اور بادشاہ ہوتے ہیں مالک نہیں ہوتے اور سب کی ملوکیت بھی دنیا ہی تک محدود رہ جاتی ہے لیکن رب العالمین ملک بھی ہے اور مالک بھی اور وہ بھی روز جزایعنی روز قیامت کا مالک ہے۔

7. ایاک نعبد۔ عبادت کے ساتھ لفظ جمع کا استعمال کرنا جسے عام طور سے مقام تعظیم میں استعمال کیا جاتا ہے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ انسان میں انانیت اور خود غرضی نہیں پیدا ہونی چاہیے اور اسے سارے بندوں کی طرف سے اظہار بندگی کرنا چاہیے تا کہ جو کچھ بھی حاصل ہواسے سب میں تقسیم کر دے "ہم" اس لفظ میں انانیت کا شائبہ تھا لہذا اس کے بعد استعانت کا ذکر کردیا گیا کہ ہم سب عبادت کرنے میں بھی تیری ہی مدد کے محتاج ہیں ورنہ آ قائی کرنا تو بڑی بات ہے ہم عبادت کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں ۔

8. اهدنا۔ ہدایت کا مسلسل مطالبه اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ صراط مستقیم ایمان و عمل کا مجموعہ ہے اور اس کے مل جانے کے بعد بھی انسان کے لئے ہر آن بہک جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔

روایات میں ثبات قدم کی تفسیراسی مسلسل مطالبہ کی تعبیر ہے، ورنہ ہدایت کے معنی رہنمائی ہی کے ہیں۔

9. انعمت عليهم۔یہ لفظ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں صاحبان کردار کی اس قدر اہمیت ہے کہ صراط مستقیم کا تعارف انہیں کے نام سے کرایا جاتا ہے حالانکہ وہ خود صراط مستقیم ہی کے پابند ہیں اور اسی پر چل رہے ہیں۔

10. غیر المغضوب عليهم ۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام میں کوئی بات دونوں پہلوؤں کے بغیر تمام نہیں ہوتی اچھے انسانوں کو اپنایا جائے اور برے انسانوں سے نفرت کی جائے ۔

11. ولا الضالین۔یعنی اسلام میں فقط مستحقِ غضب ہو جانا ہی عیب نہیں ہے جو دیدہ و دانستہ مخالفت کا نتیجہ ہوتا ہے، بلکہ بہک جانا بھی عیب ہے جس کے بعد انسان کا راستہ صراط مستقیم کہےجانے کے قابل نہیں رہ جاتا۔

سورهٔ البقرہ

12. الم۔ قرآن مجید کے حروف مقطعات میں پہلا حرف ہے جس کے معنی بظاہرلغت عرب میں موجود نہیں ہیں ، یہ درحقیقت عبد و معبود کے درمیان ایک رمز ہے جس کی تشریح خاصانِ خدا کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا۔

13. لاریب فیه۔ یعنی لوگ تشلیک کی بہت کوشش کریں گے لیکن اس کتاب میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ کتاب ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔

14. هدی للمتقین۔ہدایت کا لفظ منزل مقصود تک پہنچا دینے والی ہدایت کی طرف اشارہ ہے جو متقین کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے اور واضح رہے کہ اسلام میں تقوی کے لئے ایمان بالغیب کے ساتھ نماز اور انفاق بھی ضروری ہے صرف ایمان کے بھروسے پر تقوی حاصل نہیں کیا جا سکتا اور قرآن مجید سے استفادہ کرنا بھی ممکن نہیں ہے بے شک قرآن مجید ہدایت دے گا لیکن تقویٰ کے بعد، اور تقویٰ ایمان کے ساتھ ، یعنی بدنی اور مالی دونوں طرح کی قربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہے، تقوی نہیں ہے تو قرآن کی ہدایت کا فائدہ بھی نہیں ہے، اور یہ قرآن و اہلبیت کا کمال اتحاد ہے کہ قرآن هدى للمتقین ہے اورعلی امام المتقین ہیںقرآن انھیں کو ہدایت دےگا جو مومن، نمازی اور کریم الطبع ہوں اور حضرت علی انھیں کی امامت کریں گے جو انھیں صفات سے متصف ہوں گے ایمان مکمل نہیں ہے تو نہ قر آن کام آئے گا اور نہ اہل بیت سفارش کریں گے جب کہ دونوں ہی ہادی ہیں اور دونوں ہی شفاعت کرنے والے ہیں اور دونوں ہی کا مطالبہ پر ہیز گاری کا ہے کہ تم اپنے طور پر پرہیز گار بنو، پھر اگر غلطی ہو جائے گی تو شفاعت کرنا ہمارا کام ہے بغاوت میں شفاعت نہیں ہوا کرتی ۔

15. یقیمون الصلوة ۔یہ تمام ارکان و شرائط اور مکمل پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنے کا اشارہ ہے ورنہ نماز کا تذکرہ تو یصلون سے بھی ہوسکتا تھا

16. ممارزقناهم۔ یہ انسانی ذہن کی اصلاح ہے کہ انسان انفاق کر کے مغرور نہ ہو جائے کہ ہم نے کوئی کام کیا ہے نہیں اس نے اس مال میں سے انفاق کیا ہے جسے خدا نے پہلے بطور رزق دیا ہے پھر انفاق کرتے وقت رزق اور انفاق کے تناسب پربھی نگاه رکھے کہ خدا نے اسے رزق کتنا دیا ہے اور اس نے اس کی راہ میں کتنا خرچ کیا ہے انسان کارِ خیر کرتے وقت اس نکتے کی طرف سے بالکل غافل ہو جاتا ہے اور اپنے عمل کی مقدار کو دیکھنے لگتا ہے کہ ہم نے سب سے زیادہ چندہ دیا ہے وہ یہ بھول جاتا ہے کہ خدا نے بھی اسے سب سے زیادہ رزق دیا ہے اور خدا کی عطا کے مقابلہ میں اس کے عمل کی کوئی قیمت نہیں ہے۔

17. غیب۔ یوں تو ہر غیر محسوس شئے کا نام غیب ہے جو نگاہوں میں نہیں آتی ہے لیکن ہر غائب پر ایمان لانا ایمان کا جزو نہیں بن سکتا اس سے ایسے امور مراد ہیں جو غائب بھی ہیں اور جزوِ ایمان بھی ہیں چاہے وہ قیامت کی تفصیلات ہوں یا امامت کے متعلقات۔

18. بما انزل اليك ۔ اس جملہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام نہ ماضی سے رابطہ توڑنا چاہتا ہے اور نہ مستقبل سے اس کے نزدیک جس طرح پیغمبر اسلام پر نازل ہونے والے حقائق پر ایمان لانا ضروری ہے اس طرح ماضی میں تمام نازل ہونے والی باتوں پر بھی ایمان لازم ضروری ہے اور آخرت کا ایقان بھی لازم ہے ماضی کا خیال عبرت کا سامان فراہم کرتاہے اور مستقبل کا لحاظ ذہنی آمادگی کا سبب بنتا ہے۔

19. یوقنون۔ یہ اشارہ ہے کہ صرف ایمان ہی کافی نہیں ہے بلکہ ایقان ضروری ہے اور یقینِ آخرت کے بغیر اصلاح عمل اور انفاق کا کوئی امکان نہیں ہے اور یقینِ آخرت کے بعد پھر بدعملی اور بخل کا امکان بھی نہیں رہ جاتا ہے۔

20. انسانوں کی تین قسموں کا تذکرہ کیا گیا ہے پہلی قسم میں صاحبان ایمان ہیں جن کا ایمان غیب پر ہے اور نماز و انفاق وغیرہ کے پابند ہیں دوسری قسم ان کفار کی ہے جو انتہائی متشدد ہیں کہ ان پر ہدایت کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا ہے، گویا ان کے دلوں پر مہر لگ گئی ہے اور آنکھوں پر پردے پڑ گئے ہیں وہ بہرے ہیں کہ آواز سنتے نہیں ہیں گونگے ہیں کہ کلمہ حق نہیں بولتے ہیں اور اندھے ہیں کہ آیات حق کو نہیں دیکھتے ہیں اور ان سے کیا کارِ خیر کی امید نہیں کی جاسکتی ہے تیسری قسم ان منافقین کی ہے جن میں اتنی ہمت تو ہے کہ بظاہر کفر سے الگ ہوگئے ہیں لیکن دل میں ایسی بیماری باقی رہ گئی ہے کہ اپنے اسلام ہی کو فریب دہی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں اور اس طرح ان کی بیماری روزبروز بڑھتی جا رہی ہے، یہ اپنے فساد کو اصلاح کا نام دیتے ہیں اور صاحبانِ ایمان کو بیوقوف سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کافروں سے قطع تعلق کر کے دنیاوی فوائد کے دروازے بند کرلئے ہیں۔

ان تمام تذکروں کا مقصد یہ ہے کہ عالم انسانیت کے سامنے یہ سارے کردار ہیں اور انسان دوسروں کا حساب کرنے کے بجائے اپنا محاسبہ کرتا رہے اور یہ دیکھتا رہے کہ خود اس کی نگاہ میں اس کا شمار کس قسم میں کیا جا سکتا ہے۔

21. منافقین کا اصلی کردار ہر دور میں یہی رہا ہے کہ وہ صاحبان ایمان سے ایمان و ہدایت کی بات کرتے ہیں اور اپنی جماعت میں استہزاء اور مذاق کا حوالہ دیتے ہیں... حالانکہ خدا ان کے استہزاء کا جواب اس طرح سے دے رہا ہے کہ ان کا اعتبار نہ اُس جماعت میں ہے اور نہ اِس جماعت میں اب وہ ہر آن اپنے دل میں ایک طرح کا چور محسوس کرتے ہیں، اور یہ وہ کرب انگیز کیفیت ہے جس کا اندازہ وہی شخص کر سکتا ہے جو اس منزل سے گزرا ہو، اس کا اندازہ ہر شخص کو نہیں ہوسکتا ،واضح رہے کہ کبھی کبھی صاحبان ایمان کو بھی ایسی دہری پالیسی اختیار کرنا پڑتی ہے اور اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ منافق کافر کی جماعت کا آدمی ہوتا ہے اور صاحبان ایمان کا مذاق اڑاتا ہے اور مومن ایمانی جماعت کا فرد ہوتا ہے اور کافر کو غلط فہمی میں رکھنا چاہتا ہے جو کام اسلامی فوج کی طرف سے جاسوسی یا تقیہ کے موقع پر انجام دیتا ہے، آیت کریمہ پر باقاعدہ غورکرنے سے منافق اور صاحبِ تقیہ مؤمن کے کردار کا فرق بالکل واضح ہو جاتا ہے۔

22. آیات میں مختلف مثالوں کے ذریعے منافقین کے کردار کی وضاحت کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ منافق کی مثال گویا اس اندھے کی ہے جو چراغ لے کر چلتا ہے کہ دوسرے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور وہ خود بدبختی کا مارا ہوا اپنی روشنی سے محروم رہتا ہے، منافقین نے فروغ اسلام میں ساتھ دیا کہ اسلام کی روشنی ہر طرف پھیل گئی دوسرے ملکوں تک اسلام پہنچ گیا اس کی قوت و شوکت میں اضافہ ہوگیا اس کے گرد ایک مجمع لگ گیا اور پھر خدا نے اس روشنی کو سلب کر لیا کہ نفع کی بنا پر خود اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے اور انجام جہنم ہی ہوا۔

دوسری مثال اس بارش کی ہے جس میں اب رحمت کے ساتھ گرج چمک اندھیرا اجالا سب کچھ ہو کہ لوگوں کو خود اپنی موت دکھائی دینے لگے اور خوف کے مارے کانوں میں انگلی رکھ لیں ذرا روشنی کا سہارا ملے تو آگے بڑھ جائیں اور ذرا اندھیرا چھا جائے تو ٹھہر جائیں اور آخرکار اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے حالانکہ کان بھی موجود ہیں اور آوازیں بھی سن رہے ہیں اور آنکھیں بھی موجود ہیں کہ حقائق دیکھ بھی رہی ،اور خدا چاہتا تو ان صلاحیتوں کو سلب کر لیتا لیکن اس وقت جبر کا الزام اس کی ذات اقدس پر آجاتا اس لیے اس نے صلاحیتوں کو سلب نہیں کیا اور ان کو انھی کے حال پر چھوڑ دیا مذکورہ بالا مثال میں صدر اول کی جس شوکت اسلام کا ذکر کیا گیا ہے اس سے فائدہ نہ اٹھانا انسان کی انتہائی بد بختی کی دلیل ہے ،گرج ایسی کہ قیصروکسریٰ کے دل دہل جائیں اور چمک کیسی کے ابولہب اور ابوجہل کی نگاہیں خیرہ کرنے لگیں، اور اس کے بعد بھی منافقین کو کچھ نہ نظر آئے اور نہ کچھ سنائی دے یہ انتہائی بدنصیبی اور نالائقی نہیں ہے تو اور کیا ہے۔

یہ مثال آج بھی ان صاحبان ایمان کے لئے مرقع عبرت ہے جو کسی مرکزی ہدایت سے قریب تر ہوتے ہیں اور احکام الہیہ کی گرج چمک دیکھتے رہتے ہیں اور اس کے بعد آبائی طریقوں پر جمے رہتے ہیں اور حق کا راستہ اختیار نہیں کرتے ان کی بدنصیبی دیہات اورجنگل میں رہنے والے مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے اور ان کا کردار منافقین کی زندگی سے کہیں زیادہ عبرت انگیز ہے۔

23. جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے بالکل مختلف ہے اسے انسانوں اور پتھروں سے بھڑکایا گیا ہے اور اس میں مجرم بیک وقت سزایافتہ بھی ہے اور ایندھن بھی جس طرح بعض خاصان خدا صاحبِ نعمت بھی ہوتے ہیں اور وسیلہء نعمت بھی پابندِ شریعت بھی ہوتے ہیں اور ماخذ شریعت بھی، پتھروں سے مراد وہ پتھر ہیں جن کی پرستش کی گئی ہے کہ بندے اور خدا ایک ہی جگہ ہوں گے۔

24. اعجاز قرآن کے ذیل میں ایک سوره کا مطالبہ کرنا دلیل ہے کہ سوره کاتعین پروردگار ہی کی طرف سے تھا اور وقت نزول قرآن ہوچکا تھا اور قرآن از اول تا آخر معجزہ ہے کہ اس کے ایک سورے کا جواب بھی ممکن نہیں ہے اس کے بعد منکرین کی تحدید کرنا بھی علامت ہے کہ حقائق کا انکار صرف انکار نہیں ہوتا اس کا انجام بھی بہت برا ہوتا ہے۔

25. جنت کے پھل دنیا کے مشابہ ہونگے لیکن حقیقت میں بالکل مختلف ہونگے جس طرح کہ جنت کے صاحبان اختیار اور سردار عام انسانوں کے مشابہ ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں ان سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔

26. درحقیقت یہ چیز عبرت کا سامان ہے کہ انسان اپنے کو بہت بڑی شئے سمجھتا ہے حالانکہ اس کے بعض اعضاء و جوارح ایک مچھر سے بھی کم ہیں، صاحبان ایمان اس نکتے کو سمجھتے ہیں اور فاسق نہیں سمجھتے ہیں۔

27. قدرت خدا کی طرف اشارہ ہے اور کافروں کو تنبیہ ہے کہ اپنی خلقت اور زمین و آسمان کی عظیم تخلیق کو دیکھنے کے بعد بھی کفر اختیار کرتے ہو یہ انتہائی عجیب و غریب بات ہے۔

28. خلافت الہیہ کا کام خدا نے خود انجام دیا ہے اور اس کا معیار تقوی اور تقدس کے ساتھ علم اسماء کو قرار دیا ہے، ملائکہ کو بھی خدا نے تعلیم دی تھی جس کا انہوں نے خود اقرار کیا ہے لیکن وہ انہیں شخصیات پر منطبق نہ کر سکے ،یہ کام بشری صلاحیت کا ہے تو خدا نے اپنے علم کا حوالہ دے کر واضح کردیا کہ جو آسمان و زمین کے غیب جانتا ہے وہ تمہارے دل کی بات بھی جانتا ہے اور آدمؑ کا مستقبل بھی جانتا ہے، اس کے پہلے مخلوقات نے فساد کیا تھا تو وہ خلیفہ نہیں تھے آدم کو خلیفہ بنا رہا ہوں تو خلیفۃاللہ مُفسد نہیں ہوتا بلکہ صاحب کردار اور اعلم کائنات ہوتا ہے۔

29. ابلیس ایک سجدے کے انکار سے کافر ہوگیا تو مستقل سجدے کو ترک کرنے والوں کا انجام کیا ہوگا؟اس نکتہ پر ہر صاحب علم و عقل کو غور کرنا چاہیے ۔

30. و کلا منھا رغداً حیث شئتما۔ دلیل ہے کہ پابندی جگہ کی تھی کھانے کی نہیں تھی اور چونکہ جناب آدمؑ قریب نہیں گئے لہذا گناہ نہیں ہوا ،صرف اتنی سی احتیاط لازم تھی کہ کھانے کے بارے میں بھی حکم خدا دریافت کر لیتے اس لئے ترکِ اولیٰ ہو گیا ورنہ وہ زمین کے خلیفہ تھے تو انہیں زمین پر آنا ہی تھا۔

31. بعضکم لبعض عدو۔اس فقرے میں اولادِ آدم کی کیفیات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کی دنیا میں عداوت فساد تعیش سب ہی کچھ ہوتا ہے۔

32. کلمات۔ روایات میں "کلمات" سے مراد پنجتن پاک کے اسماء ہیں اور یہ تعجب خیز بات نہیں ہے، یہ حضرات مالک جنت ساقی کوثر اور سرداران جنت ہیں لہذا جنت میں جانے کے لیے ان کے علاوہ کس کا واسطہ درکار ہوگا ۔

33. اسرائیل جناب یعقوبؑ کا لقب تھا بنی اسرائیل کے لیے سب سے بڑی نعمت یہ تھی کہ ان کے درمیان بے شمار انبیاء اور راہنما آئے ان سے اطاعت کا عہد لیا گیا اور خدا نے ان سے ثواب کا عہدکیا لیکن ان لوگوں نے اپنے عہد کو پورا نہ کیا اور قرآن کو بھی نہ مانا آنا جو توریت کی مخالفت نہیں بلکہ اس کی تصدیق کرنے والا تھا۔

34.جو کام توریت میں بنی اسرائیل نے کیا تھا وہی آیات قرآنی کے بارے میں مسلمانوں نے کیا وہ الفاظ نہ بیچ سکے تو معانی اور تفسیروتعبیر کی تجارت شروع کردی حق و باطل کو مخلوط کر دیا حق پر پردہ ڈال دیا، انجام کار دونوں کا ایک ہی ہے۔

35. یہودیوں کی نماز میں رکوع نہ تھا لہذا رکوع کی دعوت دی گئی اور جماعت کی طرف بھی متوجہ کیا گیا کہ جماعت میں شرکت کا معیار یا اس کی آخری حد رکوع ہے اسکے بعد پھر رکعت شمار نہ ہوگی۔

36. جس کے ذہن میں نماز کا فلسفہ لقاء الہی ہے اور اجروثواب کا یقین ہے اس کے لیے صبح دوپہر شام کوئی وقت مشکل نہیں ہے اور خدا ذہن سے نکل جائے تو پھر ہر وقت مشکل ہے۔

37.بنی اسرائیل کی افضلیت ذاتی کردار کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ان نعمتوں کا اثر ہے جو انبیاء اور مرسلین کی شکل میں دی گئی ہیں کہ سب سے زیادہ انبیاء انھی کے درمیان پیدا ہوئے ہیں کاش یہ ان نعمتوں کی قدر بھی کرتے۔

38.لا یقبل منھا شفاعۃ۔نعمت خدا کی ناشکری حق کی پردہ پوشی اور حق وباطل کا امتزاج ہی وہ جرائم ہیں جن کی سزا سے بچانے والا کوئی نہیں ہے آیت شریفہ میں جس شفاعت کا انکار ہے وہ انھی کے ساتھیوں کی شفاعت ہے خاصان خدا کی نہیں کہ وہ ایسے افراد کی سفارش کسی قیمت پر نہیں کر سکتے ہیں۔

39. روایات میں صبر سے مراد روزہ ہے اور یہ طے شدہ بات ہے کہ نماز اور روزوں سے زیادہ طاقت کسی اسلحے میں نہیں ہے اور خدا سے مدد مانگنے کا اس سے بہتر کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے آل محمد علیہم السلام نے اس قدر نمازیں پڑھیں اور روزے رکھے کہ وہ خود بھی استعانت کا بہترین وسیلہ قرار پا گئے، اسی لئے روایات میں صبر کو نصف ایمان بتایا گیا اور علیB کو کل ایمان!

40. بنی اسرائیل پر کیے جانے والے احسانات اور ان کی نالائقیوں کا ذکر کیا گیا ہے فرعون اپنی حکومت کو بچانے کے لیے لڑکوں کو قتل کردیتا تھا اور لڑکیوں کو خدمت کے لیے زندہ رکھتا تھا، اور اس نے موسیؑ کی قوم کا تعاقب کیا تو ہم نے قوم کو بچالیا اور فرعون کو لشکر سمیت غرق کردیا لیکن اس کے بعد بھی قوم نے جناب موسیٰؑ کے کوہ طور پر جاتے ہی دوسرا خدا تیار کرلیا اور سامری کے کہنے میں آگئے پھر بھی ہم نے معاف کردیا لیکن اس کی بھی قدر نہ کی اور رؤیت کا مطالبہ کردیا جس پر بجلی گرائی گئی اور پھر زندہ کر دیا کہ اب ہوش میں آ جائیں لیکن نہ آئے، ابر کا سآیت دیا ،من و سلویٰ کی غیبی غذا دی لیکن جب قریے میں داخل ہونے کا وقت آیا تو نہ سجدہ کیا اور نہ ہی حطٗہ کہا بلکہ حنطہ کہہ دیا جبکہ ہم معاف کرنے کے لئے تیار تھے بلکہ ہم تو اضافہ بھی کر دینے والے تھے۔

ان واقعات سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ خدا کی نعمتوں کا حاصل ہوجانا فرد یا قوم کا کمال نہیں ہے خدا ایسے نالائق افراد کو بھی ایسی عظیم نعمتیں دے دیتا ہے جن کا عالمین میں جواب نہیں ہوتا، کمال انسانی اس کے تشکر،دست شناسی، توبہ اور سجدہ و استغفار میں ہے جسے بنی اسرائیل نے نظر انداز کردیا تھا اور بار بار عذاب الہی کے حقدار ہوگئے تھے۔

41. خدا دیکھنے کے قابل نہیں ہے اور نہ کسی بشر میں اس امرکی صلاحیت پیدا ہوسکتی ہے اور جب جناب موسیٰB جیسا پیغمبر نہ دیکھ سکے تو دوسرے افراد کے دیکھنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔

42. بنی اسرائیل اس قدر بے ایمان تھے کہ عملی اتباع تو بڑی بات ہے لفظِ حطہ اور مغفرت کو زبان پر نہیں لانا چاہتے تھے اور اس کے بجائے حنطہ کہہ رہے تھے یعنی آخرت کے بجائے دنیا کی نعمتوں کی فکر میں لگے ہوئے تھے یہی وہ طرز عمل تھا جو عذاب الہی کا باعث ہو گیا، دنیا کو آخرت پر مقدم کرنا بدترین طرز عمل ہے۔

43.بظاہر دنیا میں نہ آسمان سے غذا نازل ہوتی ہے نہ عصا مارنے سے چشمہ نکلتا ہے لیکن پروردگار عالم نے اتمام حجت کے لیے یہ سب کچھ کر دیا کہ ہمارے ہو جاؤ تو اقتصادی بائیکاٹ یا معاشی ناکہ بندی کی کوئی فکر نہیں ہے ہم عصا سے چشمہ نکال سکتے ہیں اور فضا سے من و سلویٰ نازل کر سکتے ہیں۔

44. آیات الہی کا انکار اور مادی غذاؤں کی فکر انسانی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہے، جو شخص خدا ئی عطیئےپر اکتفا نہیں کرتا اور ہوس میں پڑ جاتا ہے اور رنگ برنگ کی غذاؤں پر جان دیتا ہے اور پھر ان کا شکریہ ادا نہیں کرتا اس کے حصے میں ذلت اور محتاجی کے سوا اور کچھ نہیں ہے، دنیوی غذاؤں کا خاصہ ہی یہ ہے کہ جتنی قسمیں زیادہ ہوگی اتنی ہی محتاجی زیادہ ہوگی، سادہ غذا انسان خود بھی بہ آسانی فراہم کرسکتا ہے، تلوٗن اور تنوع کی فکر ہی اسے محتاج اور ذلیل بنا دیتی ہے۔

45. صرف دعائے ایمان کافی نہیں ہے جب تک واقعی ایمان اور عمل صالح نہ ہو اور یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ سابق میں غیر مذہب پر ہونا ایمان لانے یا عمل کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا، انسان کفر بھی اپنے اختیار سے اختیار کرتا ہے اور ایمان بھی اپنے ارادے سے اختیار کرتا ہے، پیدائشی طور پر نہ کوئی کافر ہوتا ہے نہ مسلمان، فطرت اسلام پر پیدا ہونا اور ہے اور مسلمان ہونا اور ہے، ایمان کے ذیل میں صرف اللہ اور آخرت کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ ایمان بالرسول درحقیقت ایمان باللہ ہی کا لازمہ ہے جس طرح کے ایمان بالامام ایمان بالرسول کا لازمہ ہے، رسول پر ایمان کے بغیر خدا پر ایمان لانے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔

46. بنی اسرائیل سے توریت پرعمل کرنے کا عہد لینے کے لیے سر پر کوہ طور لٹکادیا گیا تو انہوں نے عہد کر لیا لیکن پھر بھی عمل نہ کیا، اکثر لوگ کہا کرتے ہیں کہ اسلام بزور شمشیر پھیل سکتا ہے، قرآن مجید نے یہ واضح کردیا کہ جن کو نہیں ماننا ہوتا ہے وہ بہرحال نہیں مانتے ہیں چاہے عذاب الہی سر پر معلق کردیا جائے۔

47. بظاہر مخالفت بہت معمولی تھی کہ شنبہ کے دن مچھلی کا شکار ممنوع تھا اور وہ جمعہ کے دن گڑھے کھود دیا کرتے تھے کہ مچھلیاں اس طرف آ جائیں اور انہیں پکڑ لیں، لیکن خدا نے انہیں بندر بنا دیا کہ اگر تمہیں اس طرح کی ہیرا پھیری آتی ہے تو ہمیں بھی خلقت کو تبدیل کر دینا آتا ہے، خدا کسی بندے کا محتاج نہیں ہے سب اس کے محتاج ہیں انسانیت کا حق انھی لوگوں کا ہے جو احکام الٰہیہ کی اطاعت کرتے ہیں باقی سب بند رہیں۔

48. بنی اسرائیل میں لوگوں نے ایک رئیس کو قتل کردیا تھا کہ اس کا ترکہ تقسیم کرلیں اور دوسرے پر الزام رکھ دیا خدا نے کہا کہ گائے ذبح کرکے اس مقتول کے جسم سے مس کر دو وہ زندہ ہو کر قاتل کا نام بتا دے گا ان لوگوں نے الزام باقی رکھنے کے لیے تا دیر حیلہ حوالہ کیا اور اور بالآخر مجبور ہوئے۔

الزام تراشی کرنے والے حقائق کا سامنا کرنے سے ہمیشہ گھبراتے ہیں اور ان کاانجام ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا اس واقعے سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ جو خدا ایک گائے کے گوشت کو مس کر کے مقتول کو زندہ کر سکتا ہے وہ تقاضائے مصلحت کے بعد انسان کی ٹھوکر سے بھی مردے کو زندہ کر سکتا ہے، اور گہوارے سے جسم مس کرنے والے کو نئے بال و پر بھی عطا کرسکتا ہے،قدرت خدا سے کوئی شئے بعیدنہیں ہے، صرف مصلحت کے تقاضے کی ضرورت ہے۔

49. بعض روایات میں ہے کہ ایک عورت کے عقد کا جھگڑا تھا جس کا عقد ایک شخص سے ہوگیا اور اسکے رقیب نے اسے قتل کرکے دوسرے قبیلے میں لاش پھینک دی اور ہنگامہ شروع ہوگیا آخر میں اتنی بحث ہوئی کہ ایک گائے کی قیمت اس کی کھال کے اندر سما جانے والے سونے کے برابر قرار پائی اور یہ قیمت ایک مرد مومن کو مل گئی جس کا مطلب یہ ہے کہ رقابت پہلا جرم قتل دوسرا جرم اور اتنی قیمت ادا کرنا تیسری سزا ہے اور ان سب کا فائدہ ایک دیندار آدمی کو ہوا کہ پروردگار نیک بندوں کو مختلف طریقوں سے رزق عطا کرتا ہے اور موذیوں کے جھگڑے سے مومنین کو فائدہ پہنچاتا ہے۔

50. یہودی علماء توریت سے صفات پیغمبر کو نکال کر دوسرے الفاظ رکھ دیتے تھے کہ کہیں مرید ہاتھ سے نکل نہ جائیں، یہودی صفت افراد آج بھی عوام کو قبضے میں رکھنے کے لیے حقائق میں تحریف کرتے رہتے ہیں۔

51. بعض لوگوں کا ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ کتاب کا مصرف صرف مرادیں پوری کرنا اور ثواب کمانا ہے، عمل و کردار سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، قرآن مجید نے اس طرز تفکر کو یہودی طرزفکر قرار دیا ہے اور مسلمانوں کو متوجہ کیا ہے کہ کتاب خدا منت مراد اور فقط تحصیل اجر ثواب کے لئے نہیں ہے اس کا مقصد کردار سازی ہے اور اجر تو قہری طور پر حاصل ہو ہی جائے گا۔

52. یہ کردار بھی ہر دور میں پایا جاتا رہا ہے کہ اپنی خانہ ساز باتوں کو خدائی کہہ کر عوام کو دھوکا دیا جائے اور چند پیسے کمائے جائیں حالانکہ اس کا انجام بہت برا ہوتا ہے اور اس پر دہرا عذاب ہوتا ہے۔

53.و اذ اخذنا میثاقکم۔یہ عہد ہر دور کے انسان سے ہے کہ آپس میں قتل و خون نہ کیا جائے اور لوگوں کو آوارہ وطن نہ بنایا جائے لیکن کل کے یہودیوں کی طرح آج کے مسلمان عوام اور حُکّام بھی اس بد عہدی میں مبتلا ہیں، اور اپنے علاوہ کسی کو زندگی کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، قرآنی زبان میں اسے ایمان بالکتاب نہیں کہتے، اور اس کی سزا عذاب آخرت کے علاوہ دنیا کے ذلت و رسوائی بھی ہے جس میں یہودیوں کی طرح مسلمانوں کی اکثریت بھی مبتلا ہے۔

54. و ان یاتوکم اُسٰریٰ ۔یہودیوں کے روساء غریبوں کو قتل کرتے تھے آبادی سے نکال دیتے تھے اور جب لوگ انہیں گرفتار کرلیتے تھے تو فدیہ دے کر آزاد بھی کرالیتے تھے یہ "آگ لگا کر بالٹی لے کر دوڑنے "کی پالیسی ہے جو آج بھی پائی جاتی ہے اور جسے اکثر مسلمان لیڈر اپنائے ہوئے ہیں، پہلے عوام پر ظلم کرتے ہیں اور اس کے بعد جب ظلم عام ہو جاتا ہے تو اظہار ہمدردی کرنے لگتے ہیں تاکہ لوگوں کی توجہ ان کے مظالم کی طرف سے ہٹ جائے اور وہ قوم کے ہمدرد کہے جانے لگیں فاعتبروا یا اولی الابصار۔

55. خواہش نفس انسانی زندگی کی وہ بلا ہے جس سے انسان چھٹکارا حاصل نہیں کرپاتا،بلکہ جس قدر قانون الہی سے دور تر ہوتا جاتا ہے خواہشات میں مزید گرفتار ہوتا جاتا ہے ،یہ خواہش غریبوں کو گمراہ کرتی ہے اور رئیسوں کو قاتلِ انبیاء تک بنا دیتی ہے، اور انسان اس کے پیچھے دیدہ و دانستہ حقائق کا انکار کر دیتا ہے، جیسا کہ تاریخ اسلام میں اقوال پیغمبرﷺ کی مخالفت اور ائمہ معصومینؑ کے قتل کے پس منظر میں دیکھا گیا ہے کہ انسان اپنی مرضی کے خلاف کچھ سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔

56. پیغمبر اسلام 1کے آنے سے پہلے یہودی اپنی کتاب کی بشارتوں کی بنا پر اپنے دشمنوں سے کہتے تھے کہ محمد آگئے تو تم سب کا قلع قمع ہو جائے گا لیکن جب وہ آگئے تو ان کا بھی انکار کردیا ،یہ درحقیقت اپنے نفس کا بدترین سودا ہے کہ انسان چند دن کے راحت و آرام کے لیے ابدی عذاب اختیار کرلے۔

57. جن یہودیوں کو مخاطب بنایا گیا ہے وہ گذشتہ دور کے انبیاء کے قاتل نہیں تھے قاتل ان کے باپ دادا تھے لیکن چونکہ سب کا فلسفہ ایک ہی تھا اور اولاد اپنے بزرگوں کے طرز عمل سے راضی تھی لہذا اسے بھی قاتل فرض کیا گیا ہے جو اسلام کا کھلا ہوا قانون ہے کہ کسی کے بھی عمل سے راضی ہونے والا اس کے عمل میں برابر کا شریک سمجھا جاتا ہے اسلامی روایات میں آئمہ معصومینؑ کے قاتلوں سے اتفاق رائے رکھنے والوں اور ان کے اعمال کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنے والوں کو بھی انہی آیات کی روشنی میں ملعون قرار دیا گیا ہے۔

58. جب باطل دل کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے تو نہ نبی و رسول کی بات کا اثر ہوتا ہے نہ ظاہری عذاب کا یہودیوں نے زبان سے اقرار کرلیا لیکن دل میں نافرمانی کی ٹھانے رہے، جو تمام مصلحت پرست مسلمانوں کا بھی طریقہ کار ہے اور اس کا اظہار پیغمبراسلام (ص)کے بعد ہوا، قرآن مجید نے اس ایمان کو بد ترین ایمان قرار دیا ہے۔

59. تمنائےموت اللہ کی محبت اور آخرت پر ایمان کا بہترین نمونہ ہے یہ درحقیقت لقائے الہی اور حصول آخرت کا ذریعہ ہے اب اگر کوئی واقعی اللہ کا دوست ہے تو وہاں تک پہنچنے کے لیے خودکشی نہیں کرسکتا کیونکہ خودکشی محبوب کی مرضی کے خلاف ہے اور اس راستے سے محبوب کے ملاقات نہیں ہوسکتی یہی حال آخرت پر ایمان کا ہے کہ موت وہاں تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ ہے جو آخرت کی نعمتوں کا یقین رکھتا ہے وہ موت کے لئے بے قرار رہتا ہے ،درحقیقت ان آیات کے ذریعے ان مومنین کا بھی امتحان ہوتا رہتا ہے جو یہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ ہماری جنت یقینی ہے اور پھر موت سے گھبراتے ہیں۔

60. جبرائیلؑ نے کوہ طور کو بلند کیا تھا اور وہی قرآن مجید بھی لے آئے تو یہودی ان کے دشمن ہوگئے ،قرآن مجید نے اس سلسلے میں ایک مستقل معیار بیان کردیا ہے کہ جو شخص بھی دوسرے کا پیغام پہنچاتا ہے اس کا دشمن اصل میں صاحب پیغام کا دشمن ہوتا ہے، کاش مبلغینِ اسلام کی مخالفت کرنے والے بھی اپنے اختلاف کی حقیقت کو سمجھتے اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے۔

61. جناب سلیمان کے بعد شیاطین نے کچھ جادو کے کاغذات بناکر ان کے تخت کے نیچے دفن کر دیے اور بعد میں مجمع عام میں نکال کر لوگوں کو دکھلایا کہ سلیمان اسی جادو کے زور پر مخلوقات پر حکومت کیا کرتے تھے اور قوم کے احمق افراد ان کے چکر میں آگئے ،یہی صورتحال بعینہ بعد رسول روایات وضع کرنے والوں کی تھی کہ اپنی خود ساختہ روایات کو رسول کی طرف منسوب کرکے عوام کو دھوکا دینے لگے اور نبی1 کے خلاف نبی1 کے نام پر محاذ قائم کرنے لگے۔

62. مسلمان جب آیات کو فی الفور نہیں سمجھ پاتے تھے تو گذارش کرتے تھے کہ سرکار ہماری رعایت کریں اور اس کے لیے "راعنا" کا لفظ استعمال کرتے تھے جس کے معنی "ہمارے چرواہے "کے بھی ہوتے ہیں یہودیوں نے اس طریقے کو غنیمت سمجھا اور پیغمبر اسلام1 کو اسی لفظ سے مخاطب کرنے لگے پروردگار عالم نے مسلمانوں کا لہجہ بدلا دیا کہ یہودی فائدہ نہ اٹھانے پائیں اس اندازسے اسلام کی سیاسی حکمت عملی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دشمن جس طریقہ کار سے فائدہ اٹھانے لگے اسے مصلحت اسلام کے مطابق تبدیل کردیا جائے اور انہیں استحصال کا موقع نہ دیا جائے۔

63. مساجد کی آبادی سے روکنے کے مختلف طریقے آج بھی رائج ہیں نماز کا استخفاف کرنا نمازیوں کا مذاق اڑانا سماج میں نمازیوں کو پست درجہ دینا ،متولی مسجد بن کر مالکانہ تصرفات شروع کر دینا، مسجدوں میں بلا سبب قفل ڈال دینا، امکانات کے باوجود صحیح انتظامات نہ کرنا ،مسجدوں کو ایسی بدترین حالت میں رکھنا کے باعزت آدمی داخل ہوتے ہوئے گھبرائے وغیرہ مسلمانوں کو ان تمام کافرانہ طریقوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔

64. مسلمانوں کے اطمینان کا نسخہ ہے کہ اگر مسجدوں پر قبضہ بھی ہو جائے تو پریشان نہ ہوں مشرق و مغرب سب خدا کے لئے ہے جہاں چاہیں عبادت کریں خدا دیکھ رہا ہے اسلام کی عبادت جگہ کی پابند نہیں ہے اسکا خدا لامکان ہے۔

65. یہودی ذہنیت یہ ہے کہ عظمت کردار سے نہیں ہے بلکہ رشتہ داری سے ہے لہذا اپنے درمیان خدا کا بیٹا بھی پیدا کرنا چاہتے ہیں اور اسلام اس تصور کو مٹانا چاہتا ہے کہ خدا قادر ہے وہ لاکھ بیٹے پیدا کر سکتا ہے لیکن وہ ان باتوں سے بے نیاز ہے اور وہ ان رابطوں کو قربت کا معیار نہیں بننے دینا چاہتا۔

66. یہودیوں کی طرح مشرکین بھی خدا سے اپنے مطالبات منوانا چاہتے ہیں ان احمقوں کے پاس بھی اتنی عقل نہیں ہے کہ خدا حاکم کا نام ہے محکوم کا نام نہیں ہے لہذا انہیں اس کے احکامات پر عمل کرنا ہوگا وہ ان کے مطالبات پر عمل نہیں کرے گا۔

67. دنیا میں ہر کام کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے عقائد سے بہتر کسی کے عقائد کو نہیں سمجھتی اور سب کو اپنا ہی ہمخیال دیکھنا چاہتی ہے رب العالمین نے اس طرز فکر کا ایک ہی جواب دیا ہے کہ ہدایت خدا کی طرف سے ہے جس عقیدے کا خدائی ہونا ثابت ہوجائے وہ صحیح ہے ورنہ سب محمد ہے پھر خواہشات کے تباہ سے روکنے کے لیے بھی رسول کو مخاطب بنایا تاکہ مسئلے کی سنگینی کا اندازہ ہو سکے ورنہ رسول کے یہاں ان باتوں کا کوئی امکان نہیں ہے لیکن جب ان سے گفتگو کی جارہی ہے تو غیروں کا کیا ذکر ہے۔

68. یاد رہے کہ جب ابراہیم کی اولاد کے بے عمل اور ظالم امام اور قائد نہیں ہو سکتے تو دوسرے خاندانوں اور ساتھیوں کا کیا ذکر ہے قیادتِ امت کے لیے کردار شرط اول ہے۔

69. یہ تعلیم ہے کہ انسان کو اپنے بہترین عمل پر بھی ناز نہ کرنا چاہیے بلکہ پروردگار سے قبول کرلینے کی التماس کرنی چاہیے کہ اصل کام عمل نہیں ہے اصل قبولیتِ عمل ہے۔

70. و تُب علینا۔ خاصان خدا کو بہترین عمل کے بعد بھی یہ فکر رہتی ہے کہ پروردگار کے شایان شان عمل ہوا یا نہیں اور وہ اس کوتاہی کی معذرت کرتے رہتے ہیں ورنہ تعمیر کعبہ کوئی گناہ نہیں ہے کہ اس کی توبہ کی جائے اور یہیں سے معصومین ؑکے توبہ و استغفار کا فلسفہ بھی سامنے آتا ہے۔

71. جناب ابراہیمBکو اپنی اولاد کے اسلام و ایمان اور ان کے درمیان ہادی و رہنما کی فکر ہے کہ ہر صاحب ایمان کو اپنی اولاد کے بارے میں اس طرح کی فکر ہونی چاہیے اور فقط فکر نہیں بلکہ اس کی وصیت بھی کرنا چاہئے جو اسلام کی عظیم ترین تعلیم ہے۔

72. بے دینوں کا خیال ہوتا ہے کہ وہ کوئی عقلمندی کا کام کررہے ہیں اور اسی لیے دانش کو دین کے مقابلے میں استعمال کرتے ہیں اور قرآن واضح کر رہا ہے کہ دین کو چھوڑنے کے بعد سفاہت و حماقت ہی ہاتھ آتی ہے عقل و دانش نہیں۔

73.جناب ابراہیمؑ کا اسلام کلمہ پڑھنے کا اسلام نہیں ہے یہ سپردگی اور تسلیم کا اسلام ہے اور اسی کی فکر انہیں اپنی اولاد کے بارے میں بھی ہے اور اسی لئے ایک امت مسلمہ کی دعا کی ہے ورنہ ہر انسان اپنی ساری اولاد کو کلمہ گو دیکھنا چاہتا ہے ۔

74. انسان کو وقت آخر تک اپنی اولاد کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ان کا دین کیا ہے اور مستقبل میں ان کے عزائم کیا ہیں کاش امت قرآن کے ان نکات اور تعلیمات کی طرف متوجہ ہوتی اور انہیں کو نمونہ عمل قرار دیتی ۔

75. ایک باایمان انسان کا فرض ہے کہ تمام انبیائے خدا پر ایمان لے آئے اور ان میں تفریقا نہ کرے کہ یہ اسلام کی طرف سے بہترین دعوت حق ہے کہ جس طرح ہم تمہارے انبیاء کو تسلیم کرتے ہیں تم بھی ہمارے نبی پر ایمان لے آؤ یہ سب خدا کے نمائندے ہیں اور ان میں کوئی خاص نہیں ہے۔

76. صبغۃ اللہ۔مختلف اقوام میں دین و مذہب رنگ سے پہچانا جاتا تھا اس لیے اسلام نے واضح کردیاکہ لال پیلے ہر ےمیں کچھ نہیں رکھا ہے اسلام وایمان خود ایک رنگ ہے جس میں ہر مسلمان کو ڈوب جانا چاہیے اور اس کا رنگ اظہار عبادت الہی سے ہوتا ہے جس کے بغیر اسلام کا دعوی بے رنگ ہے۔

77. اسلاف کے کارناموں پر فخر کرنا اور ان کے کردار کی بلندی کی بیساکھیوں پر خود کو بلند کرنے کی کوشش کرنا بیکار ہے کیونکہ جو جیسا کرے گا اسے ویسا ہی نتیجہ بھی ہاتھ آئے گا۔

دوسرے پارے کےچیدہ نکات

(سورهٔ البقرہ)

1. آیت ۱۴۲۔یہودیوں کی سازشوں کو بے پردہ کرنے کے لئے قبلے کی تبدیلی۔۔۔۔۔ کائنات کی ہر چیز خدا کے لئے ہے اور کعبہ اور بیت المقدس بذات خود کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں بلکہ یہ خدا کی ذات ہے کہ جس نے اہمیت عطا کی ہے[1] ۔

2. آیت۱۴۳۔ امت وسط۔بعض بزرگ مفسرین کا کہنا ہے کہ اس آیت میں امت وسط سے مراد امت اسلامی کا ایک خاص گروہ ہے یعنی ائمہ اطہار علیہم السلام ،اس آیت کے ذیل میں امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے۔ لوگوں کے گواہ سوائے پیغمبر اور ائمہ کے کوئی اور نہیں ہے اور یہ بات کسی طور معقول نہیں ہے کہ اس سے مراد تمام امت اسلامی ہو، اور خدا ان سے گواہی طلب کرے، کیونکہ امت میں تو کچھ ایسے بھی ہیں کہ جن کی گواہی سبزی کی ایک گٹھری ، یا مکھی کے پر کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتی[2]۔

3. آیت۱۴۶۔ گذشتہ آسمانی کتابوں میں پیغمبر اسلام کی خصوصیات کا ذکر کہ جسے یہودی چھپاتے تھے[3]۔

4. آیت ۱۵۰۔ اتمام نعمت کا تحقق خلافت بلافصل علی علیہ السلام میں۔ بعض مفسرین نے اس آیت کے ضمن میں بیان کیا ہے کہ پروردگار نے اس آیت میں مسلمانوں کو اس بات کا وعدہ دیا ہے کہ اپنی نعمت کو ان پر تمام کرے گا اور اس کا عملی نمونہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر تین میں پیش فرمایا ہے جیسا کہ اکثر علماء نے بیان کیا ہے سورہ مائدہ کی آیت نمبر 3 غدیر خم میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہٖ کے ہاتھوں حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی پر فائز ہونے کے بعد نازل ہوئی [4]۔

5. آیت ۱۵۲۔یاد خدا اور اسکے شکر کی فضیلت و حقیقت۔یاد خدا سے مراد فقط اس کا زبانی ذکر نہیں ہے بلکہ ذکر خدا دل و جان کی عبادت ہے اور اگر زبانی ذکر دل سے نہ ہو تو کوئی اہمیت نہیں رکھتا ،جاننا چاہیے کہ خدا کی حقیقی یاد انسان کے عمل سے نمایاں ہوتی ہے جیسا کہ ایک روایت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہٖ سے منقول ہے۔ جس نے خدا کی اطاعت کی گویا اس نے خدا کو یاد کیا چاہے اس کا نماز ، روزہ اورتلاوت قرآن کم ہی کیوں نہ ہو لیکن جس نے خدا کی نافرمانی کی اس نے خدا کو فراموش کردیا ہے چاہے اس کا نماز روزہ اور تلاوت قرآن زیادہ ہی کیوں نہ ہو[5]۔

6. آیت۱۵۵۔ صبر کرنے والے سربلند ہیں۔اس آیت کے مطابق پروردگار ہمیشہ ہی انسان کو مختلف طریقوں سے آزماتا رہتا ہے اور اس امتحان میں قبول ہونے والے افراد فقط اور فقط صبر کرنے والے ہیں جو مصائب و مشکلات میں بس یہی کلمہ دہراتےرہتے ہیں کہ ہم تو خدا ہی کے لیے ہیں اور خدا ہی کے جانب پلٹ کر جائیں گے واضح رہے کہ کہ اس سے مراد صرف زبانی کہنا نہیں ہے بلکہ اس جملے پر دل سے اعتقاد رکھنا ضروری ہے اس سلسلے میں کے صبر اور انا للہ وانا الیہ راجعون کا آپس میں کیا ربط موجود ہے بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ انسان کا وجود اور اس کی تمام ملکیت؛ مال ودولت بچے استقلال نہیں رکھتے ہیں اور خدا کے ارادے کی وجہ سے اور اس کی خواہش کے مطابق موجود ہوئے ہیں اور خدا ہی انسان کا حقیقی مالک اور اس کی ملکیت کا مالک ہے اگرچہ خدا نے ظاہراً انسان کو ان چیزوں کا مالک بنادیا ہے لیکن یہ مالکیت نسبی ہے اور یہی مالکیتِ ظاہری اور نسبی دوبارہ انسان سے لے لی جائے گی اور انسان بغیر اس کے کہ کسی چیز کا مالک رہے گا خدا کی طرف خالی ہاتھوں واپس پلٹ جائے گا ،امیرالمومنینؑ سےروایت ہے کہ آپ نے فرمایا ۔ جو ہم کہتے ہیں ’’ان للہ ‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا ہی حقیقی فرمانروا ہے اور ہم اس کے مملوک ہیں اور یہ جملہ کہ جو ہم کہتے ہیں ’’انا الیہ راجعون‘‘ یہ اس بات کا اقرار ہے کہ ہم ایک دن مرنے والے ہیں [6]۔

7. آیت۱۶۰۔پروردگار کا انسان کی توبہ کو قبول کرنا۔سوائے اس آیت کے قرآن مجید میں کہیں پر بھی پروردگار نے توبہ کے لئے اپنی زبان سے اسے اپنی جانب نسبت دیتے ہوئے کوئی گفتگو نہیں کی اور کہیں بھی ’’انا التوّاب الرحیم‘‘ نہیں کہا اور یہ چیز خدا کے لطف و کرم کو توبہ کرنے والے کے لئے بیان کرتا ہے کہ جس نے اپنے ماضی کی اصلاح کر لی ہے اور مستقبل میں اپنی اصلاح پر باقی رہنے کا عزم مصمم کرلیا ہے اسکے لیے خدا تواب و رحیم ہے، اس آیت میں خدا نے اپنے آپ کو دو صفات سے یاد کیا ہے ایک تواب اور دوسرے رحیم جو اس خصوصیت کو اپنے کمال تک پہنچاتی ہے ایک روایت میں امام باقر علیہ السلام سے مروی ہے۔ پروردگار کی خوشی آپ نے توبہ کرنے والے بندے کے لئے اس خوشی سے بڑھ کے ہوتی ہے کہ جب رات کے اندھیرے میں کوئی اپنا سامان سفر گم کر دے اور اچانک سے پھر وہاں سے پالے[7]۔

8. آیت۲۴۷۔ شرائط رہبری۔ علم و قدرت ہے حسب و نسب، مال و ثروت نہیں۔


[1] المیزان ج۱ص۳۱۳ اور ۳۲۶

[2] اطیب البیان ج۲ ص ۲۲۸ اور المیزان ج۱ ص۳۱۴

[3] اطیب البیان ج۲ ص ۲۴۰

[4] المیزان ج۱ص۳۲۴

[5] المیزان ج۱ص۳۲۴

[6] المیزان ج۱ص۳۴۹

[7] سفینۃ البحار ج۱ ص۴۷۶

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .