۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
خودکشی

حوزہ/ دور حاضر میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر بانی و سرپرست حسن اسلامک ریسرچ سینٹر حجۃ الاسلام مولانا ابن حسن املوی واعظ نے ایک تحریر لکھی ہے جسے ناظرین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

تحریر: حجۃ الاسلام مولانا ابن حسن املوی واعظ
حوزہ نیوز ایجنسی| خود کشی کی اسلام میں شدید مذمت اور ممانعت کی گئی ہے۔ تمام علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ خود کشی صریحاً فعل حرام ہے۔خود کشی دنیا میں بھی موجب مؤاخذہ ہے اور آخرت میں بھی ۔قرآن و احادیث میں خود کشی کا عمل سخت ترین سزا کا موجب قرار دیا گیا ہے۔خودکشی تو درکنار رحمت خداوندی سے مایوسی و ناامیدی کو کفر اور گمراہی قرار دیا گیا ہے۔خود کشی سے زندگی جو اللہ کی عظیم نعمت ہے اس سے کفران لازم آتا ہے،خود کشی قضا و قدر الٰہی سے انحراف و سرکشی کا گویا ظاہری ثبوت و نتیجہ ہوتی ہے،خود کشی اصل میں ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے کیوںکہ جب بندہ ٔ مومن نے اللہ کو رحمان و رحیم اور خالق و مالک مان لیا،جب رسول اللہ کو رحمۃ للعالمین تسلیم کرلیا اور مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کو مشکل کشا اور چہاردہ معصومین علیہم السلام بشمول حضرت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے تمسک و توسل اختیار کر لیا تو پھر بندہ مومن دنیاوی مشکلات و مسائل سے تنگ آکر صبر و تحمل کا دامن نہیں ہرگز چھوڑتا۔

دور حاضر میں خود کشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لئے ہر ممکن سطح پر کوششیں کرنا نہایت ضروری ہے، اسی ضرورت کے پیش نظر ذیل میں چند سطریں حاضر خدمت ہیں ۔قرآن مجید میں صاف صاف طور سے ارشاد خداوندی موجود ہے:۔

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(53)ترجمہ: ’’تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہو بےشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے بےشک وہی بخشنے والا مہربان ہے

خودکشی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ فعل حرام ہے۔ اِس کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے۔

ارشاد ربانی ہے :

وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْکُمْ اِلَی التَّهْلُکَةِج وَاَحْسِنُوْاج اِنَّ اﷲَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَoالبقرة، 2 : 195

’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبان احسان بنو، بے شک اﷲ احسان والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘

ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

وَلَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْط اِنَّ اﷲَ کَانَ بِکُمْ رَحِيْمًاo وَمَنْ يَفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيْهِ نَارًاط وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اﷲِ يَسِيْرًاoالنساء، 4 : 29، 30

’’اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اﷲ تم پر مہربان ہےo اور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ اﷲ پر بالکل آسان ہے۔‘‘

واقعہ: ’’۔حضرت علی ؑنے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک فوجی دستہ روانہ کیا اور اُس کا امیر انصار کے ایک آدمی کو مقرر فرمایا اور لشکر کو یہ حکم دیا کہ وہ امیر کے احکام سنیں اور اس کی اطاعت کریں۔ (اتفاق سے) وہ امیر اُن پر کسی چیز سے ناراض ہوگیا اور اس نے کہا : میرے لیے لکڑیاں جمع کرو۔ لشکر نے لکڑیاں جمع کیں تو اس نے کہا : ان میں آگ جلاؤ۔ انہوں نے آگ جلائی تو امیر نے کہا : کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ لوگوں کو میری اطاعت کرنے کا حکم نہیں فرمایا تھا؟ انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! امیر نے حکم دیا : تو پھر اس آگ کے اندر کود جاؤ۔ راوی بیان کرتے ہیں : اِس پر وہ کھڑے ہو کر ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ اُن میں سے بعض نے کہا : آگ ہی سے بچنے کے لئے تو ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کی ہے (پھر کیوں اس میں داخل ہوں)؟ ابھی وہ اسی کشمکش میں تھے کہ امیر کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور آگ بجھا دی گئی۔ پس جب وہ لوٹے تو اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس واقعے کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر وہ اس کے اندر داخل ہو جاتے تو کبھی اس سے باہر نہ نکلتے کیونکہ اطاعت تو صرف نیک باتوں میں لازم ہے۔‘‘(مسلم، الصحيح، کتاب الإمارة، باب وجوب طاعة الأمراء، 3 : 1469، رقم : 1840 )

حضرت علی ؑسے مروی مذکورہ بالا متفق علیہ حدیث مبارکہ کی روشنی میں اُن خود کش بمباروں کو اپنے فعل پر غور کرنا چاہیے جو اپنے نام نہاد کمانڈروں اور امیروں کی اِطاعت کے نشے میں ڈوب کر مذہب کے نام پر سول آبادیوں پر خود کش حملے کرتے ہیں۔ اور یوں نہ صرف دیگر لوگوں کے قتل کا باعث بنتے ہیں بلکہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق خود کو جہنم کا ایندھن بھی بناتے ہیں۔ خودکشی کا ارتکاب کرنے والوں اور اس پر اُکسانے والوں کے لیے یہ احادیثِ صحیحہ نہایت غور طلب ہیں‘‘۔

’’حدیث میں خودکشی کی مختلف صورتوں کا ذکر فرماکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیش رہے گا۔ اور اسی عذاب میں مبتلا رہے گا، جس عمل کے ذریعہ اس نے خودکشی کی ہے۔(مشکوٰة: ج۲، ص۲۹۹)

قرآن مجید میں مسلمانوں کو موت و حیات کا فلفسفہ اس اندازمیں سمجھادیا گیا ہے:۔

قل ان صلاتی ونسکی و محیای ومماتی للہ رب العلمین .(سورہ انعام آیت ۱۶۲) آپ(اے رسول ؐ) کہہ دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میراجینا اور میرا مرنا سب اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔

پرودگار عالم ہماری گناہوں کی مغفرت فرمائے اور ہمیں موت آئے تو محبت اہل بیت ؑ پر اور خیر وصراط مستقیم پر قائم رہیں۔الٰہی آمین

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .