تحریر: محمد جواد حبیب کرگلی
حوزہ نیوز ایجنسی | ورلڈویو(World View) ایک جدید اصطلاح ہے جو آج عالمی سطح پر پیش کیا جارہا ہے۔ورلڈویو، دولفظوں ورلڈworld یعنی دنیا اور ویو view(نگاہ) سے مل کر بنی ہے۔ جسکو فارسی زبان میں ’’جہان بینی‘‘ اور عربی ’’ نظرة عالمية ‘‘کہاجاتا ہے۔ ورلڈویو انسان کے ان بنیادی سوالوں کا جواب فراہم کرتی ہے کہ جس سے دنیا کا ہر انسان روبرو ہے ۔ جسمیں ہستی شناسی(Ontology) ، جہان شناسی(Cosmology) ، انسان شناسی(Humanology) اور راہ شناسی (Recognition way)شامل ہے ۔جسمیں’’ وجودیت ‘‘(Ontology) کی واقعیت اور حقیقت پر بحث کیا جاتا ہے اور دنیا میں وجودیت کے بارے میں فلاسفرزکے نزدیک دو نظریے پاے جاتےہیں ایک کو ریالیسم (Realism)اور دوسرے کو آئڈیالیسم (Idealism)کہاجاتا ہے اسی طرح کاسمولوجی(Cosmology) میں دو مشہور مکاتب فکر ہیں پہلا الہی کاسمولوجی (Divine cosmology)اور دوسرا مادی کاسمولوجی (Material cosmology)ہے اس بنیاد پر انسان شناسی اور راہ شناسی میں انسان بھی دونظریے وجود میں آتی ہیں ایک مادہ پرستی(Materialism) اوردوسرا خدا پرستی (Monotheism)ہے اسی بناپر ایک راہ الحاد(Atheist) کو اور دوسرا راہ دین(religion) کو انتخاب کرتا ہے ان سب کے مجموعہ کو ورلڈویو سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
ایک اصطلاح، آئیڈیالوجی(Ideology) ہے۔ورلڈویو اور آئیڈیالوجی ایک دوسرے سے مشابہت اور مماُثلت رکھتی ہے اس بناپر کبھی کبھی ان دو اصطلاحات کوایک دوسرے کی جگہ استعمال کیا جاتاہے ۔لیکن ورلڈویود کا دائرہ آئیڈیالوجی سے کہی زیادہ وسیع ہے اس لئے کہ ورلڈویو میں مادی اور الہی نظریات کے ساتھ ساتھ باقی نظریات منجملہ فلسفی ، عرفانی اور دینی ورلڈویو بھی پائے جاتے ہیں لیکن آئیڈیالوجی میں صرف ایک خاص مکتب فکر کے عقایدوافکار سے بحث کی جاتی ہے۔
اس لئے ان اصطلاحات کے معنی و مفہوم کو جاننا بہت ضروری ہے ۔ ہے ورلڈویو، دولفظوں ورلڈ یعنی دنیا اور ویو (نگاہ) سے مل کر بنی ہے جس سے مراد کائنات، انسان اوروجود کے بارے میں کوئی رائے و نظرقائم کرناہے اور اس میں زیادہ اہمیت دیکھنے والے انسان کی ہے۔ مطلب یہ کہ انسان اس دنیا کو دیکھ کر کیا رائے قائم کرتا ہے اور اس سے کس طرح کا رشتہ قائم کرتا ہےیہی ورلڈ ویوکی اساس ہے۔ لیکن آئیڈیالوجی (Ideology)بھی دو کلمہ سے ملکر بنا ہے’’ آئیڈیا‘‘ جسکا مطلب فکرو نظر، تصور، عقیدہ اور آگاہی ہے ’’لوجی‘‘ جسکا مطلب دانش اور علم ہے جیسے سوشیولوجی( عمرانیات )،کاسمولوجی (جہان شناسی) ،آئیڈیالوجی (عقیدہ شناسی )وغیرہ ۔ اس بناپر آئیڈیالوجی کسی بھی مکتب فکر کے عقاید کے مجموعہ کو کہا جاتا ہے جس کے مطابق اس مکتب فکر کے ماننے والے زندگی بسر کرتے ہیں ۔
الہی اور مادی ورلڈویو (Divine and Material Worldview):
انسانوں کے درمیان بہت سے ورلڈویو پائے جاتے ہیں لیکن ہم ان میں سے دو ورلڈویو پر بات کرینگےجن میں ایک کو الہی ورلڈویو اور دوسرے کو مادی ورلڈ ویود کہاجاتا ہے الہی ورلڈ ویو کے مطابق کائنات کے وجود حقیقت اور واقعیت پر مبنی ہےاورخداوند کائنات کا خالق ہےجس کی پوری کائنات پر حاکمیت ہے خداوند نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اسےعقل و اختیار دے دیا تاکہ وہ اپنے لئے صحیح راستے کو انتخاب کرسکےاس ورلڈویو کے مطابق کائنات کے تمام جھوٹے بڑے موجودات کا ہدف و مقصد ہے۔
مادی ورلڈویو ، الہی ورلڈ ویو کے مد مقابل وجود میں آئی ہے جسکو ماضی میں "طبیعی" ، "دهری" ، "زندیق" و "ملحد" کہاجاتا تھا اور ہمارے زمانہ میں اسے "مادی" اور"ماٹریالیسٹ" کہاجاتا ہے ۔اس مادی مکاتب فکر میں ڈیالکٹیک ماٹریالیسم اور مارکسیسم(Dialectic Materialism and Marxism) مشہور ہے ۔
مادی ورلڈ ویو کے خدوخال :
1. مادی ورلڈویو کائنات کے آغاز اور انجام کے بارےمیں کوئی واضح تصویر پیش نہیں کرتی ہے بلکہ ان کے مطابق دنیا خودبخود ایک اتفاق سے وجود میں آئی ہے جسکو یہ بک بینگ تھیوری (Big Bang Theory)سے یاد کیاکرتے ہیں اس کے مطابق کائنات کا کوئی عالم، حکیم اور قادر خالق نہیں ہے بلکہ یہ کائنات اتفاق سے وجود میں آئی ہے ۔ بعض مٖغربی مفکرین خدا کا انکار کرتے ہیں اورنطشے نے توGod is dead کہ دیا تھا۔
2. اس ورلڈویو کے مطابق وجود ،مادہ کے برابرہے یعنی ہرموجود مادہ ہے اور جو چیز مادہ نہیں انکی نظرمیں وجود نہیں رکھتی ہیں ۔ بگ بینگ یانیچرل ارتقاء پر مبنی یہ تاریخ بتاتی ہے کہ نہ اس کائنات کا کوئی مقصدہے اورنہ انسان کی تخلیق کا کوئی مقصدہے۔ یہ کائنا ت ومافیہاسب نیچرکے اندھے قوانین کے تحت وجودمیں آئی اوران ہی قوانین کے تحت اپنے آپ بے مقصدختم بھی ہوجائے گی۔ ایسے میں خداکا وجود، حشرنشرآخرت وغیرہ کے تصورات سب غیرسائنسٹفک تصورات قرارپاتے ہیں۔
3. مادی ورلڈویو کے مطابق انسان کا کوئی خاص پوزیش نہیں ہے انسان کی پیدایش مادہ سے ہوئی ہے اسےکسی خاص ہدف کے لئے خلق نہیں کیا گیاہے بلکہ انسان بھی دوسرے مخلوقات کے مانند اتفاق سے وجودمیں آیا ہے ۔اس لئے برتراند راسل مادی فلاسفرلکھتا ہے : ’’انسان ایک ایسا مولودہے جسکی پیدا ئش میں کسی خاص تدبیر کا استعمال نہیں ہوا ہے اسکا کوئی مقصد مشخص نہیں ہوا ہے انسان سالوسال کے ارتقاء کا نتیجہ ہےیہاں تک کہ انسان کے جذبات بھی جیسے آرزو، امید ، عشق ومحبت، عقیدہ و سلیقہ سب ارتقائی اور تصادفی عمل کا نتیجہ ہے‘‘ ۔
4. آج ارسطوکا وہ ورلڈ ویوجوسترہ صدیوں تک دنیاپر چھایارہا مسترد ہوچکا ہے۔ اْس ورلڈویومیں زمین کائنات کامرکز تھی۔ وہ ساکن تھی،سورج اس کے گردچکرلگاتا تھا(پرانی ادبیات میں اسی لیے آسمان کو گردوں کہتے تھے)کائنات ارضی کا مرکزتوجہ،مخدوم اورامین انسان تھا بعض لوگ اس کوخلافت ارضی سے بھی تعبیرکرتے ہیں۔
لیکن آج جوورلڈ ویودنیاکورول کررہاہے وہ گلیلیو(Galileo)،ڈیکارتے(De Carte) ،نیوٹن(Newton)، ہبل (Hubble)اورآئن اسٹائن(Einstein)وغیرہ کے نظریات اورتحقیقات پر مبنی ہے۔ اس ورلڈ ویوکے مطابق زمین سورج کے گردگھومتی ہے،سورج اوردوسرے ستارے وسیارے اپنے اپنے محورپر گردش میں ہیں۔ انسان کوکوئی خاص پوزیشن اس زمین پر حاصل نہیں ہے بلکہ وہ بھی دوسرے مخلوقات کے مانند ہے ۔
5. اس ورلڈویو کے مطابق دنیوی زندگی ہی واقعی زندگی ہے اس کے بعد کوئی اور زندگی کا تصور نہیں ہے اس لئے یہ لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں۔اس بناپر یہ شعار لگاتے ہیں کہ کھاو،پیواور عیش کرو ۔دنیا ہی سب کچھ ہے ۔ اس لئے مولائے کائنات فرماتے ہیں:’’ جس شخص کا مقصد پیٹ اور پیٹ میں جانے والی چیزیں ہو اسکی قدر و قیمت بھی اتنی ہی ہوتی ہے‘‘۔
6. فرانسس بیکن، ربن ڈیکارٹ3،تھا مس ہو بس، وغیرہ مفکرین کے افکار کے مطابق یہ دنیا اور کائنات عقل، تجربہ اور مشاہدہ کے ذریعہ قابل دریافت (Deterministic) ہے اور اس کے تمام حقائق تک سائنسی طریقوں سے رسائی ممکن ہے۔ اس لیے حقائق کی دریافت کے لیے کسی اور سرچشمہ کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ اس کا وجود ہے۔ صرف وہی حقائق قابلِ اعتبار ہیں جو عقل، تجربہ اور مشاہدہ کی مذکورہ کسوٹیوں پر کھرے ثابت ہوں۔ ان فلسفیوں نے مابعد الطبیعیاتی حقائق (Metaphysics) اور مذہبی دعوئوں کو اس وجہ سے قابل رد قرار دیا کہ وہ کسوٹیوں پر نہیں اترتے۔ ڈیکارٹ نے "I think therefore I am” (میں سوچتا ہوں، اس لئے میں ہوں ) کا مشہور اعلان کیا جو جدید مغربی فلسفہ کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خودی کا شعوری عمل (Conscious Act of Ego) سچائی تک پہنچنے کا واحد راستہ ہے۔
پاسکل، مانٹسکیو، ڈیڈاراٹ، وسلی، ہوم، والٹیر جیسے مفکرین نے بھی عقل کی لامحدود بالادستی اور واحد سرچشمۂ علم ہونے کے اس تصور کو عام کیا۔ یہ افکار عقلیت (Rationalism) کہلاتے ہیں اور آج کی جدید ورلڈویو کی بنیاد ہیں۔
اس تحریک نے مذہبی محاذ پر الحاد اور تشکیک کو جنم دیا۔ والٹیر اور ڈیدراٹ جیسے الحاد کے علمبرداروں نے مذہب کا کلیتاً انکار کردیا۔ جبکہ ہیگل جیسے متشکک (Antagonist) مذہب کو تسلیم تو کرتے ہیں، لیکن اسے عقل کے تابع بناتے ہیں۔ اور مذہبی حقائق کو بھی دیگر عقلی مفروضات کی طرح قابل تغیر قرار دیتے ہیں۔
7. سیاسی محاذ پر اس تحریک نے انسانی حریت کا تصور پیش کیا۔ آزادیٔ فکر، آزادیٔ اظہار، اور حقوق انسانی کے تصورات عام کیے۔ تھومس ہابس نے حتمی اقتدار اعلیٰ (Absolute Sovereign) کے تصور کو سیاسی فلسفہ کی بنیاد قرار دیا۔ جان لاک نے اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے عوام کو اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ قرار دیا۔ والٹیر نے انسانی حریت کا تصور پیش کیا۔ مانٹسکیسواور روسو نے ایسی ریاست کے تصورات پیش کیے جس میں انسانوں کی آزادی اور ان کے حقوق کا احترام کیاجاتا ہے ا ور حکمرانوں کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔
8. اخلاقی محاذ پر اس تحریک نے افادیت (Utilitarianism) کا تصور عام کیا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اخلاقی قدروں کا تعلق افادیت سے ہے۔ جو رویے سماج کے لیے فائدہ مند ہیں، وہ جائز رویے اور جو سماج کے لیے نقصان دہ ہیں، وہ ناجائز رویے ہیں۔ اور یہ کہ افادیت اخلاق کی واحد کسوٹی ہے۔ افادیت کے تصورنے قدیم جنسی اخلاقیات اور خاندان کے روایتی ادارہ کی افادیت کو چیلنج کیا، جس کے نتیجہ میں جدید اباحیت (Permissiveness) کا آغاز ہوا۔
الہی ورلڈ ویو کے خدوخال :
ہمارے اس کر ہ ارض میں سات ارب سے زیادہ انسان بستے ہیں۔ یہ سارے نوع انسان مختلف نظریات اور تہذیبیں رکھتے ہیں۔ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر زمین میں موجود دوسری جاندار چیزوں پر فوقیت دی اور انسان میں عقل اور شعور کے مدارج رکھے۔ اسی عقل وشعور کی وجہ سے انسان نے تخلیق کے بعد ایک درندہ بنے کی بجائے کچھ نظریات پرعمل کیا جن میں کچھ نظریات الہامی تھے جو اللہ تعالی نے وقت کی ضرورت کے ساتھ اپنے بندوں کی رہنمائی کے لئے اپنے خاص بندوں کو عطا کیا۔ یہ خاص بندے اللہ کے پیغمبر اور نبی تھے اور حضرت محمد کو خاتم نبیین بنا کر بھیجا اور قیامت تک ختم نبوت کی مھر لگادی۔
دین اسلام کی بنیاد وحی الٰہی پر قائم ہے اور اس کے سرمدی اصول غیر متبدل اور ناقابل تغیر ہیں۔ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ وحی الٰہی کی بنیاد پر ترتیب پانے والا معاشرہ نہ تو غیر مہذب ہوتا ہے اور نہ پسماندہ۔ مفکرین یورپ کو اس بات کی پریشانی رہتی ہے کہ وہ کونسی چیز ہو جس کی بنیاد پر مسلم معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا جائےچنانچہ وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے نئی سے نئی تھیوری و فلسفہ پیش کرتے ہیں گذشتہ صدی ’’جدیدورلڈویو‘‘ کی صدی تھی اور یہ اصل میں ان نظریاتی، تہذیبی، سیاسی اور سماجی تحریکوں کا نام ہے جو گزشتہ دو صدیوں کے یورپ میں ’’روایت پسند Traditionalism اور کلیسائی استبداد کے رد عمل میں پیدا ہوئیں اس کا سب سے نمایاں اثر یہ ہے کہ افکار، نظریات، آفاقی صداقت، مقصدیت اور آئیڈیالوجی سے لوگوں کی دلچسپی کو کم کر دیا جائے۔ اسلام کی نظر میں یہ خطرناک موڑ ہے کہ انسان اصول و مقاصد پر عدم یقینی کی کیفیت میں مبتلاء ہو جائے ۔
مغربی ورلڈ ویو نے پوری دنیا پر اپنے اثرات مرتب کئے۔ محیر العقول سائنسی ایجادات نے آداب و تقالید، رسوم و رواج،تہذیب و ثقافت،غرض زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔ جدیدیت کی اس یلغار کے نتیجے میں مسلمانوں کے دو بڑے گروہ کھل کر سامنے آگئے۔ایک وہ گروہ جو جدیدیت کے ریلے میں بہتے ہوئے مغرب سے آنے والی ہر بات کو ترقی کی علامت اور شعور ادراک کی بلندی کا مظہر سمجھ کر قبول کرنے لگا، اور حد المقدور اسلام کو اس منہ زور تحریک کے ساتھ ساز گار بنانے کر پیش کرنے کی کوشش کرنے لگا اور جہاں ظاہری مطابقت پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوا وہاں معذرت خواہانہ توجیہیں پیش کی جانے لگیں۔
دوسری طرف ایک گروہ نے انتہائی شدد کو اختیار کیا اور مغربی جدیدیت کی مخالفت میں ہر نئی چیز کو دین سے متصادم اور مذہب کے لئے خطرہ قرار دے کراس کی مخالفت شروع کر دی۔ حقیقتا اس گروہ نے مسلمانوں میں ۰۵۶۱سے قبل کے پادریوں کا کردار ادا کیا، بَہ قولِ علامہ اقبال:
تمدّن، تصوّف، شریعت، کلام
بُتانِ عَجم کے پُجاری تمام!
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمّت روایات میں کھو گئی
اس لئے ایسے افراد کے بے جا سختیوں اور غیر معقول رویوں کی وجہ سے جدید دور کا مسلم جوان وقت کے تقاضوں اور دینی اقدار میں ہم آہنگی پیدا کرنے سے قاصر ہو کر الحاد کے دامن میں پناہ ڈھونڈنے لگاہے جو ہر صاحب شعور مذہبی و اجتماعی عہدار کو پریشان کررکھا ہے۔
لیکن حقیقی راستہ ، ان دو انتہا پسندوں کے درمیان ایک قلیل تعداد ان لوگوں کی تھی جنہوں نے مغربی ورلڈ ویو کواچھا سمجھا۔اس کی خوبیوں اور خامیوں کا زبردست تجزیہ کیا اور پھر اس سے مقابلے کا معتدل راستہ اختیارکیا۔اس گروہ میں علامہ محمد اقبال اور ڈاکٹر علی شریعتی جیسے مغرب شناس لوگ تھے،جنہوں نے مغرب کے ان دل فریب نعروں کی حقیقت اور ان کے عواقب سے مسلمانوں کو آگاہ کرنے کی مسلسل کوششیں کیں۔اقبال نے خود اہل مغرب کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا:
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ کل زرکم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب خود اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہوگا
الہی ورلڈویو کی خصوصیات :
1. خداوندعالم نے اس کائنات کو کسی خاص ہدف و مقصد کےلئے وجود میں لایا ہے اس میں دقیق نظم و ضبط حاکم ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کائنات کا خالق علیم ، حکیم اور قادر ہے جو اس کائنات کا حقیقی مالک بھی ہے اور پالنے والا بھی ہے وہ حکیم ہے اس لئے کوئی کام بیہودہ انجام نہیں دیتاہے اس لئے خلقت کائنات میں بھی اس کا خاص ہدف و مقصدہے۔
2. الہی ورلڈوید کے مطابق انسان اس کائنات میں خلیفہ اللہ ہے ۔ انسان سب سے پہلے اپنے آپ کو خدا کا مخلوق سمجھتا ہے اس لئے بعد یہ بھی جانتا ہے کہ اس خالق عظیم نے اسے اشرف المخلوقات بنایا ہے جسکی ذمہ داری یہ ہے کہ زمین پر خلافت الہی کو برپاکرے اور وہ خود خداوند کا جانشین بن جائے ۔
3. الہی ورلڈ ویو کے مطابق ،انسان اس دنیا کو ہدف نہیں بلکہ وسیلہ قراردیتا ہے اس بناپر وہ دنیوی زندگی کو اپنا کا ہدف قرار نہیں دیتا ہے بلکہ وہ اپنا مقصد قرب الہی کو قرار دیتا ہے جسکے لئے وہ تقوا اور عمل صالح انجام دیتا ہے ۔
4. الہی ورلڈ ویو کے مطابق علم کا سرچشمہ حس، عقل اور وحی ہے یعنی انسان ان سارے راہوں سے علم و ہدایت حاصل کرسکتا ہے اسلام عقل کو حجت باطنی سے یاد کرتا ہے اور ابنیاء علیہم السلام کو حجت ظاہری قرار دیتا ہے لہذا یہ امکان ہے کہ انسان عقل اور وحی دونوں راہوں سے علم و معرفت حاصل کرے درحالیکہ مغربی ورلڈویو کے مطابق عقل و حس فقدسرچشمہ علم ہے اس کے علاوہ کسی بھی چیز کو تسلیم نہیں کرتے ہیں ۔
5. الہی ورلڈویو کے مطابق انسان عقاید احکام اور اخلاق کا سرچشمہ خداوند کی ذات ہے ابنیاءعلیہم السلام اور ائمہ طہارین علیہم السلام اور علماء صرف خدا وند کے احکام کو ناٖ فذ کرتے ہیں اور تمام مسلمان اس نافذ شدہ قانون پر عمل کرتے ہیں قانون بنانے کا حق صرف خداوند کے سواء کسی کو نہیں ہے ۔انسانوں کی ذمہ داری اطاعت و بندگی کی ہے ۔
صدیوں سے انسان قانون سازی کے میدان میں کوشش کررہا ہے ،اگرچہ اس میں الٰہی قوانین سے بڑی حد تک استفادہ کیاگیاہے ،لیکن اس کے باوجود ابھی تک کوئی ایسا مکمل قانون وضع نہ کیا جاسکا، جسے ناقابلِ ترمیم قرار دیا جائے اور انسانی جذبات وافعال کا مکمل آئینہ دار اسے کہا جاسکے۔ یہ صرف اسلامی قانون ہے جو اپنے آپ کو کامل ومکمل بھی کہتا ہے اور ناقابل تنسیخ بھی قرار دیتا ہے۔ترجمہ: ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمتیں تمام کردیں اور بحیثیت دین ،اسلام کو پسند کیا‘‘۔(سورۃ المائدہ)ترجمہ: ’’اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جس میں ہر چیز کا واضح بیان اور مسلمانوں کے لئے ہدایت ورحمت وبشارت موجود ہے‘‘۔ (سورۃ الاعراف)
قرآن ایسے اصول وکلّیات سے بحث کرتا ہے جن پر ہرزمانے اور ہر خطّے میں پیش آنے والی جزئیات کو منطبق کیا جاسکتا ہے اور ہر دور کے حالات وواقعات میں قرآنی نظائر وامثال سے روشنی حاصل کی جاسکتی ہے، قرآن کا یہ دعویٰ واقعات وتجربات کی روشنی میں بالکل درست ہے۔ ترجمہ: ’’اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہر طرح کی مثالیں بیان کردی ہیں‘‘۔(سورۃ الزّمر) اس حقیقت کا اعتراف مغربی ماہرین نے بھی کیاہے کہ شریعتِ اسلامی میں زندگی کے تمام مسائل ومشکلات کے حل کی پوری صلاحیت موجود ہے۔