حوزہ نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی سروس کی رپورٹ کے مطابق، ورلڈ کونسل آف چرچز (WCC) کے جنرل سیکرٹری یوآن سیوکا نے ایرانی مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا: ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات کی تاریخ بہت طولانی ہے۔ ہم نے باضابطہ طور پر 1995 سے باہمی روابط کا آغاز کیا اور تقریباً ہر 18 ماہ بعد ہم تہران یا جنیوا میں ایک کانفرنس منعقد کرتے ہیں اور یہ نشستیں اور ملاقاتیں ایران کے شہر قم، تہران اور دیگر شہروں میں بھی منعقد ہوئی ہیں۔
ورلڈ کونسل آف چرچز کے سیکرٹری جنرل نے مزید کہا: ہماری کوشش اور مقصد یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان روابط کے لئے ایک پل کا کردار ادا کریں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ دوسرے مذاہب کی طرح عیسائیت میں بھی مختلف فرقے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مشترکہ اقدار کو معیار قرار دیتے ہوئے آپسی روابط کو مزید مستحکم کریں جیسا کہ پوپ نے اشارہ کیا ہے کہ "یہ روابط پرامن بقائے باہمی کی ایک کرن ہیں"۔ لہذا ہم سب کا مقصد اور ہدف خدا کی مقرر کردہ سمت میں آگے بڑھنا ہے۔
مجمع جہانی اہلبیت علیہم السلام کے سیکرٹری جنرل حجت الاسلام و المسلمین رمضانی نے کہا: میں آپ کی بات سے متفق ہوں چونکہ ہمیں کہیں بھی دو ایسے افراد نہیں ملیں گے جو ہر طرح سے مساوی اور برابر ہوں۔ پوری تاریخ میں بہت سے عقائد قلبی اور باطنی موجود رہے ہیں اور ہر ایک نے اپنی فکری اور روحانی صلاحیتوں کے مطابق ان پر اعتقاد رکھا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے ہر ایک کے دلائل قابلِ احترام ہیں اور جو چیزاہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ ان عقائد سے ہٹ کر انسانی معاشرے پر بھی توجہ دی جائے۔
مجمع جہانی اہلبیت کے سیکرٹری جنرل نے مزید کہا: ہمیں پرامن زندگی کی تلاش کرنی چاہیے۔ ہمیں انسانوں کو نسل پرستی کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ ہمیں سب سے پہلے اس مسئلے کو آپس میں حل کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر مغرب میں بعض لوگ عربوں کو غیر عربوں پر برتر سمجھتے ہیں اور بعض غیر عربوں کو عربوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے اور اسلام اور ادیانِ الہی کی حقیقت نسل پرستی کے مخالف ہے۔ خداوند متعال قرآن کی سورۂ حجرات کی آیت نمبر 13 میں فرماتا ہے: "يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَ أُنْثي وَ جَعَلْناکُمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاکُمْ" یعنی "اے لوگو، ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوم قوم اور قبیلوں کی صورت میں بنایا تاکہ تم ایک دوسرے سے پہچانے جاؤ۔ درحقیقت خدا کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے"۔ اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور کوئی گندمی رنگ کسی کالے پر فضیلت نہیں رکھتا اور نہ ہی کوئی کالا کسی گندمی رنگ پر، سوائے تقویٰ کے"۔ لہٰذا دین اسلام میں رنگ و نسل اور زبان سے بالاتر ہو کر انسانی ذات کی عظمت اور اس کی تقویٰ کو اہمیت حاصل ہے اور اس لیے انسانی احترام ہر ایک کے لیے ضروری ہے۔ ہم سب کو مل کر اور اپنے اپنے مشترکات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کام کرنا چاہئے۔
انہوں نے مزید کہا: اس درمیان میں دو اصول بہت اہم ہیں: انسانی روابط کی بنیاد پر انسانی ترقی اور فضیلت پر توجہ کرنا: 1)خدا کے ساتھ انسان کا تعلق اور معنویت کی طرف توجہ۔ 2) انسان کا اپنے آپ سے تعلق 3) فطرت کے ساتھ انسان کا تعلق (پانی، سمندر، جنگلات وغیرہ کے ساتھ)۔ ان تعلقات کے اپنے راہِ حل ہوتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ کسی بھی مذہب میں عبادت کی اپنی ایک خاص تعریف ہوتی ہے جس کا احترام کیا جاتا ہے اور اسے مستحکم کیا جانا چاہیے، کہا: انسان کو اپنے آپ سے رابطہ کے بارے میں مادی پرست اور دنیا پرست نہیں ہونا چاہیے۔
مجمع جہانی اہلبیت (ع) کے سیکرٹری جنرل نے اپنی بیانات کے اختتام پر چند دعاؤں کا ذکر کیا اور کہا: اسلام بیماروں کے بارے میں کہتا ہے: (اللَّهُمَّ اشْفِ کُلَّ مَرِیضٍ) "خدایا ہر بیمار کو شفا عطا کر"؛ یعنی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مریض مسلمان ہے یا عیسائی یا مثال کے طور پر بھوکے کے بارے میں کہتا ہے: (اَللّهُمَّ اَشْبِعْ کُلَّ جایِعٍ) "اے خدا، تمام بھوکوں کو سیر کر دے"۔ اسی طرح حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا ایک دلچسپ اور عمیق فرمان بھی ہے کہ "ألناس إمّا أخٌ لَکَ فی الدِّینِ، أو نَظیرٌ لَکَ فی الخَلقِ" یعنی "لوگ یا تو دین میں آپ کے بھائی ہیں یا مخلوق ہونے میں آپ جیسے ہیں"۔اس فرمان میں جملہ "اخ لک فی الدین" سے مراد مذہبی بھائی چارہ ہے جس میں تمام مذاہب کے افراد شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین اسلام کے تمام پیروکار چاہے وہ بعض عقائد اور نظریات میں اختلافات ہی کیوں نہ رکھتے ہوں، ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں اور اس سلسلے میں انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کی طرح اور امن سے پیش آنا چاہیے۔ اور دوسرا جملہ یعنی "نظیر لک فی الخلق" میں تمام بشریت کے باہمی انسانی اشتراک اور خلقت کی طرف اشارہ ہے۔ اس لحاظ سے کہ تمام انسانوں کے وجود اور انسانی وقار کا جوہر مشترک ہے اور یہی ان کے ایک دوسرے کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کی بنیاد ہے۔ لہذا یہ وہ مشترکات ہیں کہ جن پر مذہبی رہنما حضرات فرقہ وارانہ تقسیم کے باوجود بھی ان کے معتقد ہو سکتے ہیں۔
ورلڈ کونسل آف چرچز کے سیکرٹری جنرل یوان ساوکا نے کہا: یہ جو نکات بیان کئے گئے ہیں وہ بالکل وہی ہیں جو ہماری سنت اور مذہب میں موجود ہیں۔ ہم نے بھی نسل پرستی سے مقابلہ کے لیے ایک انجمن بنائی ہے۔ آپ نے قرآن کی بنیاد پر اور میں نے عیسائیت کی بنیاد پر بات کی لیکن ہم دونوں کی نظر ایک ہے۔ ہم سب انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور اس چیز میں ہم اپنے درمیان فرق نہیں کر سکتے کیونکہ ہم سب ایک ہی پس منظر سے آئے ہیں اور ہم سب ایک ہی پھول سے پیدا ہوئے ہیں اور ہماری بنیاد اور اصل بھی ایک ہی ہے۔
ورلڈ کونسل آف چرچز کے سیکرٹری جنرل نے مزید کہا: ہماری کوشش ہے کہ جب بھی دنیا میں کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو ہم اس پر اپنا پیغام بھیجیں اور میڈیا کے ساتھ رابطہ کریں۔ میرا ماننا ہے کہ سماجی زندگی میں لوگوں کو کسی بھی قسم کی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا چاہیے اور ہمارے اندر انسانی حقوق اور انسانی وقار و اقدار کے لیے رد عمل ظاہر کرنے کی ہمت و جرأت موجود ہے۔ میں نے ایران کے عزیز عوام اور ان پر سے پابندیوں کے خاتمے کے بارے میں بیانات دیئے ہیں اور میں نے اپنے ملک کے صدور سے اس بارے میں بات کی ہے کیونکہ ایرانی قوم اس سلسلہ میں محروم اور مظلوم واقع ہوئی ہے۔
آخر میں مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام کے سیکرٹری جنرل حجت الاسلام والمسلمین رمضانی نے مذہبی رہنماؤں کے درمیان گفتگو کے نئے مرحلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا: یہ ایک بہت خوش آئند اور امید افزا مسئلہ ہے اور انشاء اللہ ہم سب ملک کر اس سلسلہ میں میں کام کریں گے۔