۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
مولانا سید غافر رضوی

حوزہ/لاک ڈاؤن کے حالات میں منظر پر آنے والے افراد پس منظر میں نظر آنے لگے۔ کیا کسی نے یہ سوچا تھا کہ ایک ایسا بھی زمانہ آئے گا کہ علماء حضرات کو دین اسلام کی تبلیغ آنلائن کرنا ہوگی؟ کیا کسی نے یہ سوچا تھا کہ منبروں پر دہاڑنے والے شیر گوشہ نشینی کا شکار ہوسکتے ہیں؟۔

تحریر: مولانا سید غافر رضوی چھولسی (دہلی)

حوزہ نیوز ایجنسی | جس وقت سے دنیا میں کرونا نامی وبا عام ہوئی اور لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوا اسی وقت سے جہاں انجینئر، ڈاکٹر، وکیل، جج، پولیس سب پریشان ہیں وہیں اس وبا سے علمائے اعلام بھی پریشان ہیں۔

کیونکہ یہ وبا نہ تو کسی کا مذہب پوچھتی ہے اور نہ ہی کسی کے منصب کا خیال کرتی ہے۔

لاک ڈاؤن کے حالات میں منظر پر آنے والے افراد پس منظر میں نظر آنے لگے۔ کیا کسی نے یہ سوچا تھا کہ ایک ایسا بھی زمانہ آئے گا کہ علماء حضرات کو دین اسلام کی تبلیغ آنلائن کرنا ہوگی؟ کیا کسی نے یہ سوچا تھا کہ منبروں پر دہاڑنے والے شیر گوشہ نشینی کا شکار ہوسکتے ہیں؟
ہرگز نہیں... یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا لیکن ایسا زمانہ بھی آگیا کہ کرونا نے سب کو گوشہ نشینی پر مجبور کردیا.
کوئی پرہیز کرے یا نہ کرے، کوئی کرونا کا یقین کرے یا نہ کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کرونا نام کی وبا نے پوری کائنات میں اپنے پنجے گاڑ لئے ہیں جس کے سامنے بڑے سے بڑا ڈاکٹر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہے۔

ان سب باتوں سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اگر اس وبا کو کوئی ختم کرسکتا ہے تو وہ صرف ذاتِ اقدسِ الٰہی ہے.
جہاں انسان کے طائر فکر کی پرواز ختم ہوجاتی ہے وہاں سے تدبیرِ الٰہی کا آغاز ہوتا ہے۔

اس تناظر میں علمائے اعلام نے جو بیانات دیئے ہیں ان میں سے کچھ بیانات کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں:

۱- رہبر معظم حضرت آیۃ اللہ سید علی خامنہ ای: کرونا جیسی مہلک وبا سے بچنے کے لئے میں بھی ماسک لگاتا ہوں اور سب کو یہ تاکید کرتا ہوں کہ وہ ماسک لگائیں۔
ہمارے وہ ڈاکٹر اور وہ نرسیں جو ماسک نہ لگانے کی وجہ سے اللہ کو پیارے ہونے کے درپئے ہیں میں ان سے ہرگز راضی نہیں ہوں۔
ہمیں کسی بھی صورت احتیاطی تدابیر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیئے۔

۲- آیۃ اللہ سید علی حسینی سیستانی: ہمیں وبا کے دوران ڈاکٹروں اور حکومتوں کے کارکنان کی باتوں پر عمل کرنا چاہیئے کیونکہ ایسے ماحول میں ان لوگوں کی باتیں قابلِ اعتبار ہیں۔

۳- آیۃ اللہ ناصر مکارم شیرازی: اگر ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم کرونا میں مبتلا ہیں اور جان بوجھ کر کسی بھائی سے ہاتھ ملاتے ہیں اور وہ بھائی اللہ کو پیارا ہوجاتا ہے تو شریعت کی نگاہ میں ہم اس کے قاتل شمار ہوں گے۔

۴- آیۃ اللہ صافی گلپائیگانی: جب آیۃ اللہ صافی سے محرم کے متعلق سوال کیا گیا کہ کرونا میں محرم کے لئے کیا لائحۂ عمل ہے تو آپ نے جواب دیا: امام حسین علیہ السلام کی عزاداری ایک محبوب شئے ہے اور اسے منعقد ہونا چاہیئے لیکن کرونا کے دور میں ڈاکٹروں کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے عزاداری منعقد کریں۔

۵- سید مقاومت سید حسن نصراللہ: کرونا ایک جنگ ہے جس میں ہمیں فتحیاب ہونا ہے. اس جنگ میں کامیابی کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہوں. ہم جتنا زیادہ احتیاطی تدابیر پر عمل کریں گے اتنی ہی جلدی اس جنگ میں کامیابی حاصل ہوگی۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے جتنے اقوال نقل کئے ہیں ان سب سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ کرونا کے دور میں اگر محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو ڈاکٹروں کے مشوروں پر عمل کرنا اور احتیاطی تدابیر کو بروئے کار لانا ضروری ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر انسان کو اپنی جان پیاری ہوتی ہے حتّی کہ جانوروں کو بھی جان سے پیار ہوتا ہے تو ایسی صورت میں عقل کا تقاضہ یہی ہے کہ اگر ہمیں اپنی جان پیاری ہے تو احتیاطی تدابیر کا دامن ہمارے ہاتھوں سے ہرگز نہیں چھوٹنا چاہئے۔
"والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ"

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .