از قلم: عادل فراز
گیدڑوں سے ڈرے ہیں شیر کبھی
تم فضا میں لگارہے ہو گھات
آو میداں میں تول کر شمشیر
دیکھیں دیتا ہے کون کس کو مات
تم شھادت کے ذائقے سے بری
روز جیتے ہو اور مرتے ہو
خوف اتناہے شیر یزداں کا
اسکی تصویر سے بھی ڈرتے ہو
قتل کرکے گماں یہ کرتے ہیں
ختم کردیں گے سلسلے سارے
گر مقدر میں ختم ہونا تھا
کربلا میں ہی ہوگئے ہوتے
مرحب عصر سے کوئی کہہ دے
حیدری ہیں ،خراج لیتے ہیں
گر مقابل ہو عنتر دوراں
بیچ کلّے سے چیر دیتے ہیں
کوئی غرّاکے یوں نکل جائے
اتفاق ایسا اب نہیں ہوتا
شیر پر بھونکتے ہیں تب كتے
شیر جنگل میں جب نہیں ہوتا
...................