تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | مولی الموحدین یعسوب الدین امیر المومنین امام المتقین ولی رب العالمین وصی رحمۃ للعالمین امام علی بن ابی طالب علیہ السلام جب اشقی الاولین و الآخرین عبد الرحمٰن بن ملجم مرادی ملعون کی ضربت سے زخمی ہو گئے تو آپ نے اپنے غم زدہ کنبہ کو جمع کر کے بستر شہادت سے وصیت فرمائی ۔
اگرچہ اس وصیت نامہ کے ابتدائی فقرات میں امام عالی مقام نے سبطین رسول الثقلین امامین حسنین کریمین علیہما السلام کو اپنا مخاطب قرار دیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ جو اللہ کی جانب سے منتخب معصوم امام اور ولی ہوں ، جن کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پہلے ہی فرما دیا ہو کہ یہ دونوں امام ہیں چاہے قیام کریں یا چاہے صلح کریں یا دوسرے مقام پر فرمایا کہ حسن و حسین (علیہما السلام) جنت کے جوانوں کے سردار ہیں ۔ یا حضور ؐ کا یہ فرمان کہ حسنؑ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، حسینؑ مجھ سے ہیں اور میں حسینؑ سے ہوں ۔ جس سے واضح ہے کہ امیرکائنات نے اگرچہ اپنے دو معصوم بیٹوں کو مخاطب قرار دیا لیکن آپ کے مخاطب رہتی دنیا تک تمام انسانیت ہے۔
امیرالمومنین علیہ السلام کے وصیت نامہ کو پڑھنے سے پہلے ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ یہ قرآن ناطق ہیں یعنی ان کا کلام جہاں فصاحت و بلاغت کا منبع و مصدر ہے وہیں حکمتوں کا سرچشمہ بھی ہے جیسا کہ خطبہ شقشقیہ میں خود ارشاد فرمایا: يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ وَ لَا يَرْقَى إِلَيَّ الطَّيْرُ (یعنی میں وہ عظیم اور بلند کوہ ہوں کہ علم و حکمت و فضیلت کاسیلاب ہمارے زیر وجود جاری ہوتے ہیں اور کسی کا طائر فکر ہماری بلندی تک پرواز نہیں کر سکتا ۔ ) لہذا جس طرح قرآن کریم میں کسی حکم یا کلمہ کے تقدم و تاخر میں حکمت ہے اسی طرح امیرکلام امام علی علیہ السلام کے کلام میں بھی حکمتیں موجود ہے۔
مثلا : "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ" (سورہ حجرات آیت ۱۲)
ایمان والو! اکثر گمانوں سے اجتناب کرو کہ بعض گمان گناہ کا درجہ رکھتے ہیں اور خبردار ایک دوسرے کے عیب تلاش نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت بھی نہ کرو کہ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے یقینا تم اسے برا سمجھو گے تو اللہ سے ڈرو کہ بیشک اللہ بہت بڑا توبہ کا قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔
اہل نظر و اہل معرفت کا بیان ہے کہ ان احکام میں تقدم و تاخر میں حکمتیں موجود ہیں کہ سب سے پہلے انسان بدگمانی کا شکار ہوتا ہے اور جب بدگمانی کے جال میں پھنس جاتا ہے تو جاسسوسی کا آغاز کرتا ہے اور یہی تجسس اور جاسوسی غیبت کا پیش خیمہ قرار پاتی ہے۔ لہذا قرآن کریم میں اللہ نے بدگمانی پر پابندی لگائی تا کہ جب انسان بدگمانی سے محفوظ ہو گا تو جاسوسی اور غیبت کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور معاشرہ میں امن و سکون اور بھائی چارہ قائم رہے گا۔
ملاحظہ فرمائیں مولا امیرالمومنین علیہ السلام کے وصیت نامہ کے ابتدائی فقرات ۔
"أُوصِيكُمَا بِتَقْوَى اللَّهِ وَ أَلَّا تَبْغِيَا الدُّنْيَا وَ إِنْ بَغَتْكُمَا وَ لَا تَأْسَفَا عَلَى شَيْءٍ مِنْهَا زُوِيَ عَنْكُمَا وَ قُولَا بِالْحَقِّ وَ اعْمَلَا لِلْأَجْرِ وَ كُونَا لِلظَّالِمِ خَصْماً وَ لِلْمَظْلُومِ عَوْناً"
میں تم دونوں کو وصیت کرتا ہوں تقویٰ الہی کی اور دنیا کی جانب مائل نہ ہونا خواہ وہ تمہاری جانب مائل ہو اور دنیا کی جو چیز تم سے روک لی جائے اس پر افسوس نہ کرنا، حق بولنا اور الہی اجر کے لئے عمل کرنا اور ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا۔
اب اس ابتدائی فقرات میں مولا امیرالمومنین نے بالترتیب سات حکم دئے ہیں۔
1۔ تقویٰ الہی اختیار کرو۔
2۔ دنیا کی جانب راغب نہ ہو چاہے وہ تمہاری جانب راغب ہو ۔
3۔ دنیا سے محرومی پر افسوس نہ کرو۔
یہ تین حکم نہیں بلکہ تین منزلیں اور درجات ہیں کہ جب انسان ان تین منزلوں کو طے کر لے گا تب ہی بعد کی منزلوں میں قدم رکھ سکتا ہے اور جب تک یہ تین منزلیں طے نہیں ہوں گی بعد کی منزلوں میں قدم رکھ پانا ممکن ہی نہیں ہے ۔ یعنی جس انسان میں تقویٰ نہ ہو ، دنیا سے بے رغبتی نہ ہو، دنیا کی محرومی پر افسوس کرے وہ نہ تو حق بول سکتا ہے اور نہ ہی الہی اجر کے لئے کوئی عمل انجام دے سکتا ہے ، نہ ظالم سے دشمنی لے سکتا اور نہ ہی مظلوم کی حمایت کر سکتا ہے۔
جس انسان کے اندر تقویٰ الہی نہیں ہوگا، دنیا سے بے رغبتی نہیں ہو گی اور دنیا سے محرومی پر افسوس ہو گا وہ حق نہیں بول سکتا کیوں کہ دنیا کی محبت اس کی زبان پر لجام لگا دے گی ، کبھی مال کی محبت تو کبھی عہدہ و منصب کی خواہش اس کی زبان پر لجام لگائے گی تو کبھی اسکے جرائم اور گناہ اسے حق بولنے نہیں دیں گے اور جو انسان حق بول نہیں سکتا وہ اجر الہی کے لئے عمل بھی نہیں کر سکتا، اس کا عمل چاہے جتنا نیک کیوں نہ ہو لیکن الہی اجر کے لئے نہیں ہو سکتا بلکہ اس میں ریاکاری کو فوقیت حاصل ہوگی ، جو بھی نیک کام کرتا ہے چاہتا ہے کہ سب جان لیں اور سب اس کی تعریف کریں ۔
ایسا انسان ہر جگہ اپنی شہرت کی تشنگی کی سیرابی کی راہ تلاش کرتا ہے اور جو انسان اتنا کمزور ہو کہ نہ اس کی زبان پر حق جاری ہو سکے اور نہ ہی اس کے اعضاء و جوارح اللہ کے لئے عمل کر سکیں تو وہ نہ تو کبھی ظالم سے ٹکرا سکتا اور نہ ہی مظلوم کی حمایت کر سکتا ہے۔
پوری دنیا میں ظلم جاری ہے لیکن سب خاموش ہیں ، کوئی نہیں جو ظلم کی مخالفت کر سکے بلکہ حد تو یہ ہو گئی کہ ظالموں کی پناہ حاصل کرنے کے لئے مظلوموں کی مخالفت اور خود ظالموں کی حمایت ہونے لگی ۔
ان سب کی وجہ تقویٰ الہی کا فقدان ، دنیا کی لالچ اور دنیا سے محرومی کا خوف ہے اور ایسے کمزور و نحیف انسان سے خیر کی توقع کرنا عبث ہے۔ جس انسان کا باطن پاک ہوتا ہے کہ اس کے اندر تقویٰ ہوتا ہے ، دنیا نہیں ہوتی، دنیا کا خوف نہیں ہوتا تو وہ ہمیشہ حق بولتا ہے ، اس کا ہر عمل اللہ کے لئے ہوتا ہے ، وہ کھل کر ظالموں سے اظہار نفرت کرتا ہے اور علی الاعلان مظلوم کی حمایت کرتا ہے۔
البتہ ان بھہروپیوں کو پہچاننا ضروری ہے جو غیر کی باطل باتوں اور باطل کاموں کی تو کھل کر مخالفت کرتے ہیں اور دن بھر سوشل میڈیا پر سرکس کے شیر کی طرح دہاڑتے ہیں لیکن جیسے ہی گروپ اور خیمہ کی بات آتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کو کچھ پتہ ہی نہ ہو اور یہ اپنی خاموشی میں ہی مصلحت سمجھتے ہیں ۔
ظاہر ہے جس کا باطن پاک نہ ہو تو اس کا ظاہر بھی پاک نہیں ہو سکتا ، کیوں کہ شیر کی کھال پہن کر کوئی شیر نہیں ہو سکتا ۔ حالات کا پانی پڑتے ہی ریاکاری کا میک اپ اتر ہی جاتا ہے۔
خدایا۔ ہمیں اپنی ، اپنے رسولؐ اور اولیاء معصومین علیہم السلام کی معرفت عطا فرما اور ان کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔