۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
News ID: 390734
23 مئی 2023 - 23:46
خانۂ کعبہ

حوزه/ سفر حج ایک با برکت سفر ہے۔ خدا کی مہمانی کا سفر ہے۔ خانۂ خدا کی زیارت کا سفر اور خانۂ خدا کے گرد پروانے کی صورت طواف کرنے کا سفر ہے۔

تحریر: سید حمید الحسن زیدی، سربراہ الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور

حوزه نیوز ایجنسی | سفر حج ایک با برکت سفر ہے۔ خدا کی مہمانی کا سفر ہے۔ خانۂ خدا کی زیارت کا سفر اور خانۂ خدا کے گرد پروانے کی صورت طواف کرنے کا سفر ہے۔صفا و مروہ کے بیچ سعی کا سفر، میدان عرفات میں گڑگڑا کر اپنے مالک کی رحمت کو جوش دلانے کا سفر، منی مزدلفہ کی عبادت گاہوں میں ایثار وقربانی کی مثال قائم کرنے کا سفر، غرض کہ حج بیت اللہ کا سفر، یہ سفر جو ہر اعتبار سے انتہائی مقدس بابرکت اور پاکیزہ سفر ہے جہاں مسافر کی نگاہوں کے سامنے صرف خدا ہوتا ہے اس کے ذہن ودماغ میں صرف قربت الٰہی کا تصور ہوتا ہے۔ سفر کے خطرات سے پریشان ہونے کے بجائے انسان ان خطرات کو خدا سے قریب ہونے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ اس کے دل میں اس گھر کی زیارت کا جذبہ موجزن ہوتا ہے جس کی طرف رخ کرنا شان بندگی ہے، جس گھر کو خدا نے اپنا کر اس کے مبارک ہونے کا اعلان کیا ہے۔’’ إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکَّۃَ مُبَارَکًا‘ ‘ پہلاگھر جو انسان کے لئے بنایا گیا وہ مکہ میں مبارک گھر ہے جو عالمین کے لئے ہدایت کاسرچشمہ ہے یہ بیت اللہ اگر ایک طرف توحید پروردگار کی علامت ہے تو دوسری طرف جناب ہاجرہ کے ایثار وقربانی کی یادگار بھی ہے۔ خلیل خدا کی شریک حیات اس پاکیزہ بی بی نے اگر اپنے معبود پر بھروسہ کر کے اس پاک مگر بے آب وگیاہ سر زمین کو اپنا مسکن نہ بنایا ہوتا تو شاید اس بیت الٰہی کی اس طرح تعمیر کے اسباب فراہم نہ ہوپاتے لیکن اگر جناب ہاجرہ نے خدا پر توکل کی مثال قائم کرتے ہوئے اس بیت الٰہی کی سر زمین کو اپنا ملجا وماویٰ بنایا تو خدا نے انہیں اپنے اس گھر کی برکتوں سے محروم نہیں رکھا۔ خشک اور بے آب وگیاہ صحرا میں برکتوں کا ایسا چشمہ جاری فرمایاجس سے ہزاروں سال سے فیضیاب ہوا جا رہا ہے لیکن اس میں ذرہ برابر کمی واقع نہیں ہوتی بیت الٰہی کی عظیم برکتوں کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ چاہ زمزم کی پاسبانی کے لئے نسل خلیل سے پورا ایک ایسا سلسلہ قائم کر دیا جس کا فیض بھی چاہ زمزم کی طرح ہمیشہ جاری وساری ہے۔

خدا وند عالم نے اس مبارک گھر کی زیارت کا حکم دے کر اس کی برکتوں سے بہرہ مند ہونے کے لئے ایثار وقربانی کے مرقع اس سلسلۂ عظمت کے چشمۂ فیض سے فیضیاب ہونے کا شرف بھی بخشا ہے چنانچہ فریضۂ حج بجا لانے والے جہاں خانۂ خدا کی برکتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں وہیں ان با برکت مقامات کی زیارت کا شرف بھی حاصل کرتے ہیں جو اس مبارک سلسلہ کے افراد کی فیض رسانی کا مرکز ہیں۔خداوند عالم نے اس بابرکت گھر کی زیارت کا شرف بخشنے کے لئے حکم عام دیا کہ جس کے اندر سکت ہو وہ اس گھر کی زیارت اور اس کی برکتوں سے بہرہ مند ہونے ضرور آئے۔ اس کے علاوہ اس حکم پرعمل پیرا نہ ہونے کے سلسلہ میں روایات میں بڑی شدید دھمکیاں بھی دی گئیں ہیں مثلاً اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود حج نہ کرے تو وہ یہودی یا عیسائی مرتا ہے، مسلمان نہیں مرتا جبکہ اسلام پردنیا سے جانا وہ عظیم شرف ہے جس کے لئے انبیاء الٰہی نے بھی دعا فرمائی ہے۔ گویا اس فریضہ کی بجاآوری استطاعت کی صورت میں لازم ہے اور صاحبان توفیق اس پر عمل بھی کرتے ہیں اور اس مبارک سفر کی برکتوں سے بہرہ مند بھی ہوتے ہیں البتہ انہیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ فریضۂ حج ایک خالص عبادت ہے اور عبادت کے لئے خلوص نیت کی ضرورت ہوتی ہے، دکھاوے کاجذبہ عبادت کے اجرو ثواب کوضائع کر دیتا ہے لہٰذا سفر کی تمہید، درمیان سفر اور سفر کے بعد ہر اس عمل سے پرہیز ضروری ہے جس میں دکھاوے کی بو آتی ہو۔ انسان کو چاہیئے کہ خدا کے لئے حاجی ہو بندوں کے لئے نہیں ورنہ جب نماز پڑھنے کے بعد اپنے نام کے ساتھ نمازی کا لقب جوڑنا مناسب نہیں تو فریضۂ حج کے بعد خود اپنے کو الحاج کے لقب سے مزین فرما لیناکس طرح مناسب ہو سکتا ہے؟ جس سے عمل کے برباد ہو جانے کا خطرہ ہے اور خطرا ت کی طرف متوجہ رہنا اور متوجہ کرنا سب کا فریضہ ہے لہٰذا اگر عمل کی بربادی کے خطرات سے بچ کر اس فریضہ کواس کی شان وشوکت کے ساتھ انجام دیا جا سکا تو یقینا بارگاہ الٰہی میں قابل قبول ہوگا اور جو چیز خدا کی بارگاہ میں قبول ہو جائے اس کی برکتوں کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔

امام سجاد ؑ فرماتے ہیں: ’’ تقویٰ کے ساتھ کوئی عمل کم نہیں ہوتا اور وہ کیسے کم ہو سکتا ہے جو خدا کی بارگاہ میں قبول ہو جائے۔‘‘گویا اس عبادت کے لئے بھی دوسری عبادتوں کی طرح تقویٰ بنیادی شرط ہے جس کے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی’’ خدا صرف متقین کے عمل کو قبول کرتا ہے۔‘‘اگر انسان تقویٰ الٰہی کے ساتھ اس نیت سے کہ جو گناہ اب تک کئے ہیں انہیں ہمیشہ کے لئے ترک کر دے گا اور آئندہ بھی گناہوں کا ارتکاب نہیں کرے گا اس عظیم فریضہ الٰہی کو بجا لائے تو اس با برکت سفر کی برکتوں سے فیضیابی یقینی ہے اس مبارک سفر سے جو برکتیں حاصل ہوتی ہیں ان کا اندازہ وہ حضرات بخوبی لگا سکتے ہیں جن کو یہ سعادت نصیب ہو چکی ہے۔ خداوند عالم سب کو اس عظیم فریضہ کی بجاآوری اور اس کی برکتوں سے بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .