تحریر: مولانا احسان دانش (سکردو)
تمہید
خون پھر خون ہے، گرتا ہے تو جم جاتا ہے
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
ظلم فطرتاً ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ ہر انسان اپنی فطرت کے مطابق اسے برا سمجھتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بارہا ظلم سے دور رہنے اور مظلوم کی حمایت کرنے کا حکم دیا ہے اور ظلم کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔ سابقہ اقوام کے قصے سناتے ہوئے بھی قرآن نے ظلم کے نتیجے میں آنے والی ہلاکت خیزی اور تباہ کن انجام سے خبردار کیا ہے۔
اس مختصر تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ ظالم اور مظلوم کے ساتھ برتاؤ اور ظالم کا ساتھ دینے کے نتائج کو قرآن و سیرت نبوی و احادیث کی روشنی میں واضح کیا جائے۔
ظلم، ظالم اور مظلوم
ہمارے عقیدے کے مطابق اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ظلم ہے۔ اسی طرح ہر چیز کو اس کی اصل جگہ سے ہٹانا بھی ظلم ہے۔ جو چیز اپنی جگہ سے ہٹا دی جائے، وہ مظلوم ہے اور اسے ہٹانے والا ظالم کہلاتا ہے۔
ظالم سے نفرت اور مظلوم کی حمایت کی اہمیت
اگر کسی معاشرے میں مظلوم کی مدد کی جائے، ظالم کے خلاف آواز بلند کی جائے اور اس کی حوصلہ شکنی کی جائے تو وہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا۔ ہر شخص کو بلا رکاوٹ اس کا حق ملے گا۔ کوئی غریب بھوکا نہیں سوئے گا، کوئی دوسروں کا محتاج نہیں ہوگا۔ یوں ایک پرامن معاشرہ وجود میں آئے گا اور وہ مقصد پورا ہوگا جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرامؑ کو مبعوث فرمایا۔
اس کے برعکس اگر ظالم کی حمایت کی جائے یا اس کے ظلم پر خاموشی اختیار کی جائے تو وہ معاشرہ تباہی و بربادی سے دوچار ہوگا۔ قرآن نے بار بار ظلم کو معاشروں کی ہلاکت کی بنیاد قرار دیا ہے اور ظالموں کو بدترین انجام سے ڈرایا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں مظلوم کے ساتھ برتاؤ
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پوری امت کا اتفاق ہے کہ ظلم حرام ہے اور یہ کبائر میں شمار ہوتا ہے۔ دنیا میں مظلوم بظاہر کمزور دکھائی دے سکتا ہے لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ ظالم کو جہنم کی آگ میں ڈالے گا اور مظلوم کا غصب شدہ حق اسے لوٹا دیا جائے گا۔
اسلام نے نہ صرف ظلم سے باز رہنے کا حکم دیا ہے بلکہ مظلوم کی حمایت اور اس کے ساتھ حسن سلوک کی بھی تلقین کی ہے۔ مظلوم کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی، اس لیے حدیث میں اس کی بددعا سے بچنے کی سخت تاکید کی گئی ہے۔
قرآن کی روشنی میں مظلوم کی حمایت
قرآن مجید میں فرمایا گیا: "وما لکم لا تقاتلون فی سبیل اللہ والمستضعفین من الرجال والنساء والولدان..."(النساء: 75)
یعنی تم ان مظلوم مردں، عورتوں اور بچوں کی خاطر اللہ کی راہ میں کیوں نہیں لڑتے جو فریاد کرتے ہیں کہ خدایا! ہمیں اس بستی سے نکال لے جس کے باشندے ظالم ہیں، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے ایک سرپرست اور مددگار مقرر فرما۔
اسی طرح فرمایا: "لا تَظلِمون ولا تُظلَمون" (البقرہ: 279) "نہ ظلم کرو اور نہ ظلم برداشت کرو۔"
یہ آیات ہمیں نہ صرف ظل کرنے سے روکتی ہیں بلکہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی بھی ہدایت دیتی ہیں۔
احادیث کی روشنی میں مظلوم کی حمایت
امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں: "کونا للظالم خصماً وللمظلوم عوناً""ہمیشہ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہو۔"
اسی طرح نہج البلاغہ کے خہ 224 میں آپؑ فرماتے ہیں کہ اگر مجھے رات بھر کانٹوں پر جاگنا پڑے اور زنجیروں میں جکڑ کر گھسیٹا جائے، یہ مجھے زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس کے کہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے اس حال میں ملوں کہ میں نے کسی پر ظلم کیا ہو۔
عقل اور مظلوم کی حمایت
عقل بھی یہی تقاضا کرتی ہے کہ انسان ظلم نہ کرے بلکہ عدل و انصاف سے پیش آئے۔ اگر ظالم کو سزا نہ دی جائے تو معاشرہ بدامنی اور پسماندگی کا شکار ہوجاتا ہے۔
بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں
اسلامی قوانین کی طرح بین الاقوامی قوانین بھی ظلم کو روکنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ مگر افسوس کہ آج فلسطین کے مظلوم عوام ان قوانین کے باوجود امریکہ و اسرائیل کی بربریت کا شکار ہیں، اور دنیا کی نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں صرف تماشائی بنی ہوئی ہیں۔
مظلوم کی حمایت نہ کرنے کا انجام
قرآن کہتا ہے:"واتقوا فتنۃً لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃ واعلموا ان اللہ شدید العقاب"(الانفال: 25) ترجمہ: اس آزمائش سے ڈرو جو صرف ظالموں ہی کو نہیں پہنچے گی بلکہ ظلم پر خاموش رہنے والے بھی اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔
رسول خدا ﷺ نے بھی فرمایا کہ جب لوگ برائی کو دیکھیں اور انکار پر قادر ہونے کے باوجود سکوت اختیار کریں تو خدا سب کو عذاب میں گرفتار کرتا ہے۔
خلاصہ
اسلامی تعلیمات، قرآن، حدیث اور عقل کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ:
ظلم سب سے بڑا گناہ ہے۔
ظالم کی حمایت حرام اور مظلوم کی مدد واجب ہے۔
ظلم پر خاموش رہنے والا بھی ظالم کے جرم میں شریک ہے۔
لہٰذا ہمیں بحیثیت مسلمان ہمیشہ ظالم کے خلاف اور مظلوم کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے، تاکہ عدل و انصاف قائم ہو اور ہم اللہ کی نصرت کے مستحق بن سکیں۔









آپ کا تبصرہ