ایران پر اسرائیلی حملہ: بین الاقوامی قانون، جغرافیائی سیاست، اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داریاں

حوزہ/ اسرائیل کا حالیہ حملہ صرف عسکری کارروائی نہیں، بلکہ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق، اور اخلاقیات پر حملہ ہے۔ اگر دنیا خاموش رہی، تو ظلم کا دائرہ وسیع تر ہو جائے گا۔

تحریر: حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر کرم علی حیدری الکربلائی

حوزہ نیوز ایجنسی| 10 مئی 2025 کو اسرائیل کی جانب سے ایران کے مختلف سائنسی، عسکری اور شہری مقامات پر میزائل حملے نے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کو چونکا دیا۔ اس حملے میں ایرانی سائنس دانوں، فوجی کمانڈرز، خواتین اور بچوں کی شہادت نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا۔ یہ حملہ ایک خودمختار ریاست پر جارحیت کی کھلی مثال ہے، جس نے عالمی قانون، انسانی حقوق اور علاقائی امن کے تمام اصول پامال کیے۔

یہاں پہ تین بنیادی سوالات پر غور کیا گیا ہے:

1. کیا یہ حملہ بین الاقوامی قانون کے مطابق تھا؟

2. اس حملے کے خطے اور عالمی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

3. امتِ مسلمہ کو اس صورتحال میں کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟

بین الاقوامی قانون کی روشنی میں اسرائیلی حملے کا جائزہ

اقوامِ متحدہ کا چارٹر اور جارحیت کی ممانعت

اقوامِ متحدہ کا چارٹر، آرٹیکل 2(4)، واضح طور پر کہتا ہے: “تمام رکن ممالک کو دوسرے ممالک کی علاقائی سالمیت یا سیاسی خودمختاری کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔”

اسرائیلی حملہ نہ تو ایران کی طرف سے کسی براہ راست خطرے کے جواب میں ہوا، نہ ہی اقوامِ متحدہ کی اجازت سے۔ اس طرح یہ حملہ “Preemptive Strike” یا “Self-Defense” کے جواز سے بھی خالی ہے۔

شہریوں کو نشانہ بنانا: بین الاقوامی جرم ہے

جنیوا کنونشن کے تحت غیر عسکری شہریوں، خاص طور پر خواتین اور بچوں، کو کسی بھی فوجی کارروائی میں نشانہ بنانا جنگی جرم شمار ہوتا ہے۔ ایران کی طرف سے اس بات کے شواہد سامنے آئے ہیں کہ کئی غیر عسکری مقامات اور تعلیمی ادارے بھی متاثر ہوئے، جس سے اسرائیل کی جارحانہ پالیسی کا اندازہ ہوتا ہے۔

اسرائیل–ایران کشیدگی کا تاریخی پس منظر

نیوکلیئر تنازع اور موساد کی مداخلت

اسرائیل 2000 کی دہائی سے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو خطرہ تصور کرتا ہے۔ موساد (اسرائیلی خفیہ ایجنسی) ماضی میں بھی ایرانی سائنسدانوں کو قتل کرنے، سائبر حملوں (جیسے اسٹاکس نیٹ) اور تخریب کاری میں ملوث رہی ہے۔

ایران کی مزاحمتی پالیسی

ایران فلسطینی مزاحمتی تحریکوں (حماس، اسلامی جہاد) اور حزب اللہ کی کھلی حمایت کرتا ہے۔ اسرائیل اسے اپنے “قومی تحفظ” کے خلاف سمجھتا ہے، اور اسے جواز بنا کر ایران پر حملے کرتا رہا ہے۔

امریکی حمایت اور عالمی خاموشی

اسرائیل کو ہمیشہ امریکہ کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ چاہے وہ مالی امداد ہو یا بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر سیاسی تحفظ، اسرائیل کو کبھی جوابدہ نہیں بنایا گیا۔ اس عالمی خاموشی نے اسرائیل کو مزید جری بنا دیا ہے۔

حالیہ حملے کے اثرات

خطے میں عدم استحکام

یہ حملہ مشرقِ وسطیٰ کو ایک نئی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ ایران کی جوابی کارروائیوں سے اسرائیل، خلیجی ریاستیں، اور امریکی اڈے بھی زد میں آسکتے ہیں۔

ایران کا ردّعمل

ایران نے اقوامِ متحدہ میں احتجاج کیا، اور واضح کیا کہ وہ دفاع کا حق رکھتا ہے۔ اگرچہ ایران نے فوری طور پر فوجی ردعمل نہیں دیا، لیکن ممکنہ طور پر “غیر روایتی جنگ” (Proxy Warfare) کی شدت میں اضافہ ہوگا۔

عالمی میڈیا اور دہرا معیار

مغربی میڈیا نے حملے کو “Defensive Action” کے طور پر پیش کیا، جبکہ فلسطین یا ایران کے کسی اقدام کو “دہشتگردی” کہہ کر رد کر دیتا ہے۔ یہ دہرا معیار دنیا میں ناانصافی اور نفرت کی فضا کو بڑھاتا ہے۔

اسلامی نقطۂ نظر اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داریاں

قرآن و سنت کی روشنی میں

قرآن مجید فرماتا ہے: “ولا ترکَنوا إلى الذين ظلموا فتمسكم النار”

“ظالموں کی طرف ہرگز جھکاؤ نہ کرو، ورنہ تمہیں آگ چھو لے گی۔” (ھود: 113)

حضرت امام حسین (ع) کا پیغام بھی یہی ہے کہ: ظلم کے خلاف قیام کرو، چاہے تم تنہا ہو۔ ایران پر حملہ صرف ایک ملک پر نہیں، بلکہ مظلوم کی حمایت کرنے والے ہر مؤقف پر حملہ ہے۔

امت مسلمہ کی غفلت

مسلم ممالک میں سے اکثر نے خاموشی اختیار کی، حتیٰ کہ او آئی سی (OIC) نے بھی کوئی قابلِ ذکر قدم نہیں اٹھایا۔ یہ افسوسناک رویہ امت کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔

علما اور عوام کی ذمہ داری

• علما کرام کو چاہیے کہ وہ ممبر و محراب سے ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں۔

• نوجوان نسل کو چاہیے کہ سوشل میڈیا پر شعور بیدار کرے۔

• مسلم دنیا کو اسرائیل کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

نتیجہ

اسرائیل کا حالیہ حملہ صرف عسکری کارروائی نہیں، بلکہ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق، اور اخلاقیات پر حملہ ہے۔ اگر دنیا خاموش رہی، تو ظلم کا دائرہ وسیع تر ہو جائے گا۔

ایران کی مزاحمت، چاہے اس سے کسی کو سیاسی اختلاف ہو، امت مسلمہ کے وقار کا مظہر ہے۔ اس وقت ہر باشعور مسلمان، ہر باضمیر انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ظلم کو ظلم کہے، مظلوم کا ساتھ دے، اور عدل و امن کی حمایت کرے۔

سفارشات (Recommendations)

1. او آئی سی کو متحرک کرنے کے لیے عوامی سطح پر دباؤ ڈالا جائے۔

2. مسلم ممالک کو مشترکہ دفاعی حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے۔

3. سوشل میڈیا، تعلیمی اداروں اور میڈیا کے ذریعے اسرائیلی جارحیت کو بے نقاب کیا جائے۔

4. فلسطین، یمن، لبنان اور ایران جیسے مظلوم خطوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کو مضبوط کیا جائے۔

“ہمارے وقت کا کربلا صرف نینوا میں نہیں، ہر اس جگہ ہے جہاں ظالم طاقتور ہے اور مظلوم تنہا۔”

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha