حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، غاصب اور قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی پر واقع بیت حانون کے علاقے میں فلسطینی مزاحمتی محاذوں کی جانب سے کیے گئے مہلک اور مربوط کمین حملے سے متعلق اپنی ابتدائی تحقیقات کے نتائج جاری کر دیئے ہیں۔
غاصب اسرائیلی فوج کے ریڈیو کے مطابق، یہ حملہ اس وقت ہوا جب دو صیہونی فوجی یونٹ علاقے میں سرچ آپریشن کے لیے پیش قدمی کر رہے تھے؛ اتنے میں اچانک ان کے راستے میں نصب ریموٹ کنٹرول بم دھماکے سے پھٹ گئے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ جب زخمیوں کو نکالنے کے لیے امدادی کارروائیاں شروع ہوئیں تو مزاحمت کاروں نے اسرائیلی فوجیوں پر گولیاں برسائیں، جس کے نتیجے میں امدادی ٹیم کے اہلکار بھی زخمی ہو گئے اور ہلاک و زخمی فوجیوں کی منتقلی متاثر ہوئی۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ زخمیوں کے انخلاء کے لیے اضافی امدادی ٹیمیں روانہ کی گئیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق، اس حملے میں 5 فوجی ہلاک اور 14 زخمی ہوئے، جن میں سے 2 کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔
واضح رہے فوجی ماہرین اور مبصرین نے اس کارروائی کو غزہ میں غاصب اسرائیلی فوج کے خلاف اب تک کی سب سے بڑی کمین کارروائی قرار دیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ حقیقی جانی نقصان اسرائیلی بیان سے کہیں زیادہ ہوسکتا ہے۔
ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ حماس نے بم دھماکے کے بعد ایک مخصوص اور آزمودہ عسکری حکمت عملی اپنائی جو اس سے قبل بھی کئی مواقع پر استعمال کی جاچکی ہے۔
غاصب صیہونی میڈیا کے مطابق، اس کمین میں ٹوٹل چار بم وقفے وقفے سے پھٹے۔
رکن کنیسٹ میراف بن آری سمیت اسرائیلی حزب اختلاف کے رہنماؤں اور صیہونی ذرائع ابلاغ نے اس واقعے پر شدید تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ واقعہ ایسے علاقے میں ہوا جو جنگ کے دوران کئی مرتبہ اسرائیلی فوج کے کنٹرول میں رہا ہے۔
عبرانی ذرائع کے مطابق، یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینی مزاحمتی محاذ میدان جنگ میں نہ صرف سرگرم ہے، بلکہ حربی مہارت اور تجربے کے ساتھ اسرائیلی افواج کو بھاری نقصان بھی پہنچا رہا ہے۔









آپ کا تبصرہ