تحریر: شجاع حیدر شگری
حوزہ نیوز ایجنسی| جب دنیا بھر میں اسلام، سیاست اور قیادت کے باہمی تعلق پر سوالات اٹھ رہے ہیں، تو ایسے میں ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای ایک منفرد اور مؤثر سیاسی و مذہبی شخصیت کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ان کی قیادت نے ایران ہی نہیں، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں مزاحمتی فکر کو ایک مستقل نظریے میں ڈھال دیا ہے۔
یہ تحریر ان کی جدوجہد، وژن اور عصرِ حاضر میں اُن کے کردار کا تجزیاتی جائزہ پیش کرتی ہے۔
مذہبی بنیاد اور فکری ارتقاء
آیت اللہ العظمٰی خامنہ ای نے ایران کے ممتاز دینی مدارس سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور امام خمینیؒ کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوئے۔ وہ محض ایک فقیہ یا عالم دین نہیں، بلکہ اُنہوں نے مذہب کو عصرِ حاضر کے مسائل کے ساتھ جوڑنے کی مسلسل کوشش کی ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دین اسلام نہ صرف فرد کی اصلاح کرتا ہے، بلکہ ایک مکمل سیاسی و اجتماعی نظام بھی فراہم کرتا ہے۔
انقلاب کے بعد قیادت کا سفر:
امام خمینیؒ کی وفات کے بعد 1989ء میں آیت اللہ خامنہ ای کو ایران کا رہبر مقرر کیا گیا۔ ابتدائی طور پر کئی حلقوں نے ان کی قیادت کو عارضی یا علامتی تصور کیا، مگر وقت نے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف مضبوط اعصابی قائد ہیں، بلکہ ایران کی نظریاتی سمت کے اصل معمار بھی ہیں۔
انہوں نے امریکہ اور اسرائیل کی بالادستی کے خلاف "مزاحمتی بلاک" کی سرپرستی کی، جس میں حزب اللہ، حماس، انصار اللہ (یمن) اور شامی مزاحمتی قوتیں شامل ہیں۔ ان کی خارجہ پالیسی میں خودمختاری، استعمار دشمنی اور علاقائی اتحاد بنیادی نکات ہیں۔
ایران-اسرائیل کشیدگی خامنہ ای کی حکمت عملی :
ایران اور اسرائیل کے تعلقات کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ خامنہ ای کے مطابق، اسرائیل ایک "سرطانی غدہ" ہے جو امت مسلمہ کی وحدت اور آزادی کے لیے خطرہ ہے۔ ان کی حکمت عملی دو سطحوں پر واضح نظر آتی ہے:
1. عسکری و تکنیکی مزاحمت: ایران نے گزشتہ دہائیوں میں حزب اللہ (لبنان)، حماس (غزہ) اور انصار اللہ (یمن) جیسے گروہوں کی حمایت کی، تاکہ اسرائیل پر دباؤ برقرار رکھا جا سکے۔ ایران کا میزائل پروگرام اور ڈرون ٹیکنالوجی اسرائیلی دفاعی نظام کے لیے ایک مستقل چیلنج بن چکے ہیں۔
2.بیانیہ سازی اور نفسیاتی جنگ:
خامنہ ای ہمیشہ امتِ مسلمہ کو اسرائیل کے خلاف یکجا کرنے کی بات کرتے ہیں۔ ان کے بیانات میں بار بار یہ پیغام ملتا ہے کہ فلسطین محض عرب مسئلہ نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ ان کا بیانیہ اسرائیل کو محض فوجی ہدف نہیں بلکہ نظریاتی محاذ پر بھی چیلنج کرتا ہے۔
موجودہ صورتحال اور "جوابی بازگشت"
2025 کی ایران-اسرائیل کشیدگی کے حالیہ مرحلے میں ایران نے پہلی بار براہِ راست اسرائیل پر ڈرون اور میزائل حملے کیے، جسے "جوابی بازگشت" (Deterrence Doctrine) کہا جا رہا ہے۔ خامنہ ای نے اس کارروائی کو اسلامی غیرت، خودمختاری اور دفاع کا مظہر قرار دیا۔ یہ حملے صرف فوجی نہیں بلکہ عالمی پیغام بھی تھے کہ ایران اب دفاعی نہیں، جارحانہ مزاحمتی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
عصری سیاست میں حکمتِ عملی
آج دنیا جس "نیو ورلڈ آرڈر" کی طرف بڑھ رہی ہے، وہاں ایران کی پوزیشن قدرے منفرد ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے مغرب کے دباؤ کے باوجود چین، روس اور خطے کے دیگر ممالک سے قریبی تعلقات قائم کیے، جس کا مقصد ایران کو معاشی و سیاسی تنہائی سے نکالنا ہے۔ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر مغرب کی پابندیاں اور مذاکرات بھی ان کی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ایران کسی بھی قیمت پر اپنی خودمختاری اور عزتِ نفس کا سودا نہیں کرے گا۔
نوجوان نسل سے خطاب
آیت اللہ خامنہ ای نوجوانوں کو مستقبل کا معمار سمجھتے ہیں۔ اُن کا بارہا یہ پیغام رہا ہے کہ نوجوان علم، تحقیق، سائنس اور ایمان کو ملا کر ایک ایسی اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جو مغرب کے مقابلے میں انسانی اقدار پر مبنی ہو۔ ان کی تقاریر میں جہاں مذہبی استدلال ہوتا ہے، وہیں سائنسی و سیاسی دلیل بھی شامل ہوتی ہے۔
عالمی سطح پر اثر:
ایران کی موجودہ سیاست، فلسطین کی حمایت، شام اور لبنان میں ایران کا کردار، اور اسرائیل مخالف بیانیہ یہ سب اس قیادت کی ترجیحات کا اظہار ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے ایک ایسے عالمی وژن کی بنیاد رکھی ہے جو امت مسلمہ کی وحدت، استقامت اور خودانحصاری پر قائم ہے۔
نتیجہ
آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کی شخصیت آج کی مسلم دنیا میں ایک فکری روشنی اور عملی حکمت کا استعارہ ہے۔ اُنہوں نے یہ ثابت کیا کہ مذہبی قیادت محض عبادات یا فقہی امور تک محدود نہیں، بلکہ عالمی سیاسی افق پر ایک سرگرم اور بااثر کردار بھی ادا کر سکتی ہے۔ ان کی مزاحمتی حکمت عملی، فکری استقامت اور قیادت کا تسلسل آج کے سیاسی و دینی بحران زدہ مسلم معاشروں کے لیے ایک قابل تقلید ماڈل ہے۔









آپ کا تبصرہ