تحریر: سیدہ بشری بتول نقوی، حوزہ علمیہ قم المقدسہ
حوزہ نیوز ایجنسی | دنیا کے مختلف ذرائع ابلاغ اور سیاسی و عسکری ادارے ایران، اسرائیل اور امریکہ کے درمیان حالیہ بارہ روزہ جنگ کو صرف ایک عسکری جھڑپ یا علاقائی کشمکش کے طور پر دیکھ رہے ہیں، لیکن درحقیقت یہ جنگ ایک فکری اور ایمانی تصادم کا مظہر تھی۔ میرا مقصد ان سطور میں اس جنگ کے اس پہلو کو اجاگر کرنا ہے جو اسرائیل اور امریکہ جیسے طاقتور ممالک کے لیے ایک گہری سوچ اور پیغام رکھتا ہے۔
عزائم جن کے پختہ ہوں، نظر جن کی خدا پر ہو...
ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ دنیا کی ترقی یافتہ اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس، طاقتور ترین ممالک ہیں۔ پوری دنیا ان سے خوفزدہ ہے۔ لیکن ایران، ان دو عالمی طاقتوں کے سامنے نہ جھکا ہے نہ ڈرا ہے — کیوں؟
کیونکہ ایران محمد و آل محمدؐ کا پیروکار ہے، وہ مکتب جس نے ہمیں سکھایا:
"وَلَا تَهِنُواْ وَلَا تَحۡزَنُواْ وَأَنتُمُ ٱلۡأَعۡلَوۡنَ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ" (آل عمران- ۱۳۹)
یہ آیت مومن کی عزت، طاقت اور بلندی کو واضح کرتی ہے۔ مومن ہمیشہ ہر میدان میں "اعلون" ہوتا ہے — یعنی غالب، سربلند اور باوقار۔
ایمان کی طاقت بمقابلہ مادی طاقت
مومن وہ ہوتا ہے جو دل میں اطمینان اور روح میں سکون رکھتا ہے۔ وہ خوف کے سائے میں نہیں جیتا۔ یہی کیفیت رہبرِ انقلاب، امام خامنہ ای دامت برکاتہ کی شخصیت میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔
ایرانی قوم نے اس جنگ میں یہ ثابت کیا کہ: یہ وہ قوم ہے جو شہادت کو سعادت سمجھتی ہے۔ یہ وہ امت ہے جو مادی ہتھیاروں، ڈالروں، سازشوں، جاسوسی اور دھوکے کے بجائے ایمان، توکل علی اللہ اور جذبۂ شہادت سے لیس ہو کر میدانِ جنگ میں اترتی ہے۔
اے بنی اسرائیل! ذرا رکو اور سوچو...
تم اُس نبی (ع) کی امت ہو جس نے فرعون جیسے سرکش کو دریا کے بیچ شکست دی۔ لیکن افسوس! تم نے اپنے ہی نبی کے دین پر بھی وفاداری نہ نبھائی، اور اب چلے ہو محمدؐ کی امت سے ٹکر لینے؟
جان لو! یہ وہ امت ہے جو ایمان کی بنیاد پر تربیت پاتی ہے۔ ہم اپنی نسل کو مادی آسائشوں کا نہیں، معنوی اقدار، حب الوطنی اور جذبۂ شہادت کا عادی بناتے ہیں۔
اس جنگ نے دنیا کو دکھایا کہ: ایک طرف وہ قوم ہے جو مادیات، لذت، آرام، بے روح ترقی اور آرام طلبی میں غرق ہے۔ اور دوسری طرف ہم اہلِ ایمان، جنہوں نے جنگ میں قربانی، استقامت، اور ایثار کو شعار بنایا۔
ایک فکری دعوت
اے بنی اسرائیل! تمہیں اب بارہا یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا تم واقعی ایسی قوم ہو جو محمد و آل محمدؐ کی امت کا سامنا کر سکتی ہے؟
میری نصیحت ہے: پہلے سوچو، پھر میدان میں آؤ کیونکہ: عزائم جن کے پختہ ہوں، نظر جن کی خدا پر ہو تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے۔









آپ کا تبصرہ