ہفتہ 21 جون 2025 - 00:19
ایران ظلم کے خلاف کربلائی قیام کی علامت ہے، جابر کی بیعت ممکن نہیں

حوزہ/ ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے سیکرٹری امور خارجہ علامہ ڈاکٹر شفقت شیرازی نے ایران پر غاصب اسرائیل کی جارحیت پر حوزہ نیوز ایجنسی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران ایک بار پھر کربلا کو تو زندہ کر سکتا ہے، لیکن کسی جابر و ظالم طاقت کی بیعت نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کے سامنے تسلیم ہو سکتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے سیکرٹری امور خارجہ اور مؤسسہ الباقر(ع) کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین سید شفقت شیرازی سے حوزہ نیوز ایجنسی کے خبر نگار نے خصوصی گفتگو کی ہے، جسے ہم قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

حوزہ: غاصب اسرائیل کی حقیقت کیا اور اس کی حالیہ غیر قانونی اور غیر انسانی جارحیت کے بارے میں کیا کہیں گے؟

درحقیقت اسرائیل ایک غیر قانونی اور غاصب صیہونی ریاست ہے۔ یہ عالمی استکباری قوتوں جیسے امریکہ و یورپ کی ایک فوجی چھاؤنی ہے، جسے مسلم ممالک کے دل؛ ارض مقدس فلسطین پر نصب کیا گیا ہے۔ اسرائیل تنہا نہیں ہمیشہ امریکہ و یورپ کی طاقت ونفوذ سے خطے پر جنگیں مسلط کرتا آ رہا ہے اور گزشتہ ایک صدی سے پے در پے خونی اور مسلحانہ کارروائیوں اور جنگوں سے اس خونخوار ریاست نے عالم اسلام کو ظلم وبربریت کا نشانہ بنایا۔ اور یوں امریکہ اور یورپ کے اس مہرے اور مکڑی کے جالے سے بھی کمزور حکومت کی عسکری بالا دستی کا رعب اقوام عالم پر مسلط کیا، لیکن جب حضرت امام خمینی قدس سرہ کی قیادت میں ایران کے غیرت مند اور دین شناس عوام نے اسلامی انقلاب برپا کیا کہ جس کی بنیاد الٰہی اقدار اور اسلامی قوانین پر تھی تو امریکہ و یورپ و کیان غاصب میں لرزہ آیا اور اس انقلاب کے نور کو مٹانے اور پیغام کو خاموش کرنے پر متحد ہو کر میدان میں اترے۔ انقلابِ اسلامی اپنے الٰہی افکار ونظریات سے مستضعفین جہاں کی امید کا مرکز بن گیا اور ایرانی عوام کی مقاومت مظلوم و ستم دیدہ اقوام عالم کے لیے نمونۂ عمل بن گئی۔ انقلابِ اسلامی کو نمونۂ عمل قرار دیتے ہوئے سب سے پہلے اسرائیلی ظلم و تسلط کا براہِ راست نشانہ بننے والے فلسطینی ولبنانی عوام نے مقاومت کا آغاز کیا۔ عرب ومسلم ممالک کے صیہونی ریاست کے سامنے تسلیم ہو جانے اور فلسطین و لبنان و شام میں مقاومت پر کاری ضربیں لگانے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم مجرم نیتن یاہو اس زعم کا شکار ہوا کہ اب وہ مرکز حریت و مقاومت پر بھی غالب آ سکتا ہے اور ایک آپریشن کے ذریعے ایران اسلام کو تسلیم ہونے پر مجبور کر سکتا ہے اور اس کی عسکری و جوہری طاقت اور انقلابی فکر کا خاتمہ کر سکتا ہے، لیکن اسے اس الٰہی نظام اور حکیمانہ، بلند ہمت و شجاع قیادت کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا۔ جب دشمن نے جارحیت کا آغاز کیا تو پہلا حملہ کیا اس کے حساب سے اس نظام کو مفلوج کر دینے والا اور طاقت کو تباہ کر دینے والا تھا، لیکن صف اول کی اہم شخصیات کا پرچم فوراً ان کے جانشینوں نے اٹھایا اور بغیر کسی توقف کے رہبرِ معظم انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی حسینی خامنہ ای کے حکم پر ایسے تابڑ توڑ حملے اس صیہونی ریاست پر کئے کہ اسرائیل ہی نہیں، بلکہ امریکہ و یورپ اور خطے میں ان کے سارے وفادار لرز گئے۔

حوزہ: اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی حکمت عملی کے عالمی سطح پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟

اس جوابی حملے سے دنیائے اسلام میں ایک خوشی کی لہر دوڑی۔ اسرائیل کے ظلم کا نشانہ بننے والوں کے دلوں کو تشفی ملی۔ میدان جنگ کا نقشہ بدلا۔ غاصب اسرائیل و امریکہ کے غرور و تکبر کا بت پاش پاش ہوا اور قدرت و طاقت کا توازن بدلا۔

حوزہ: ایران کی عظیم دفاعی حکمت عملی کے بعد غاصب اسرائیل کی بالادستی کا بھرم باقی ہے یا پھر ٹوٹ گیا ہے؟

اسرائیلی بالا دستی کا وہم چکنا چور ہوا ہے۔ دشمن کے اندازے سب غلط ثابت ہوئے کہ ایران اندرونی اور بیرونی طور پر کمزور و تنہا ہو چکا ہے؛ یہ کامیابی فقط عسکری میدان میں نہیں، بلکہ سفارتی و بین الاقوامی حمایت اور میڈیا کے میدان میں بھی تھی۔ خطے اور دنیا کے مختلف ممالک کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت کے بیانات نے اسرائیل کو مزید رسوا کیا۔ اب دشمن کو ایران کی عسکری وجوہری طاقت کا اچھی طرح اندازہ ہو چکا ہے۔ اسی لیے جنگ بندی کی کوششوں میں مصروف ہے۔ جب امریکہ کی ایران کو تسلیم ہونے کی دھمکی کار آمد ثابت نہ ہوئی تو مجبور ہو کر پہلے خود مذاکرات کی دعوت دی جب وہاں بھی ناکامی ہوئی تو پھر یورپی ممالک سے مدد حاصل کی، تاکہ کسی طریقے سے اسرائیل کو بچایا جا سکے۔

حوزہ: آپ اس جنگ کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ کیا یہ صرف ایران اور غاصب اسرائیل کے مابین ایک کشیدگی ہے؟

یہ جنگ محض ایران و غاصب اسرائیل کی جنگ نہیں، بلکہ یہ جنگ کفر و اسلام کی جنگ ہے؛ یہ جنگ انکارِ عبودیت و تسلیم کی جنگ ہے، یہ جنگ غاصبانہ تسلط سے آزادی کی جنگ ہے، یہ جنگ تکبر و جارحیت کے رویے کے خاتمے کی جنگ ہے۔ یہ ظالم پر مظلوم اور تلوار پر خون کی فتح کے اعلان کی جنگ ہے؛ یہ ظلم و ناانصافی کے خاتمے اور عدالت ومساوات کی ترویج و اقتدار کی جنگ ہے، یہ اس زمانے کا غزوہِ احزاب ہے۔ آج پورے کا پورا کفر، ایمان و اسلام کے خاتمے کا درپے ہے؛ یہ جوابی و دفاعی جنگ کفار کے تسلط کے خاتمے کی جنگ ہے۔ اس جنگ کے بعد کسی کے لیے لوٹ کھسوٹ کی سیاست اور قوموں کی معدنیات وثروت اور قدرتی ذخائر کو لوٹنا دشوار ہو جائے گا اور اس جنگ کے بعد عملی طور پر سپر پاور کا مفہوم بدل جائے گا؛ عالمی سطح پر قدرت و طاقت کے توازن میں ایک حد تک اعتدال آئے گا۔ دنیا کو اسلام کی عظمت و بالا دستی کو تسلیم کرنا پڑے گا۔

حوزہ: اسلامی جمہوریہ ایران کی جرأت مندانہ اور فوری کارروائی کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

ایران نے فوری طور پر جوابی کاروائی کر کے ثابت کیا کہ ایران فقط دعوے نہیں کرتا، بلکہ ان پر عمل کرنے کی طاقت و ارادہ بھی رکھتا ہے۔ ایران ایک بار پھر کربلا کو تو زندہ کر سکتا ہے، لیکن کسی جابر و ظالم طاقت کی بیعت نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کے سامنے تسلیم ہو سکتا ہے۔ ایران نے ثابت کیا کہ حق کبھی باطل کے سامنے نہ جھکا ہے اور نہ جھکے گا۔ ایران کی پرعزم و باعمل اور شجاعانہ قیادت کی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی اور ایرانی عوام بھی وفادار و فداکار و جوانمرد اور غیرت مند ہیں۔ اُنھوں نے پورے خطے میں مقاومت کی تقویت کے لیے جانثاری و فداکاری و وفاداری کی عظیم مثالیں قائم کی ہیں، جنہیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔

حوزہ: اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلٰی افسران غاصب اسرائیل کی جارحیت کے نتیجے میں جام شہادت نوش فرما گئے ہیں؛ کیا ان شہادتوں سے ایران کمزور ہو گیا ہے؟

اعلیٰ فوجی کمانڈروں کی شہادت یقیناً ایک ناقابلِ فراموش نقصان ہے، تاہم ان اعلیٰ فوجی کمانڈروں کی شہادتوں سے ایران کمزور نہیں، بلکہ مزید طاقتور ہوا ہے۔ شہداء کے مقدس خون سے ان کے عزم و ارادے اور حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ شہداء زندہ ہیں اور ان مجاہدین کے مقدس مشن میں ان کے شریک ہیں۔ شہداء نے شہادت سے پہلے زمین ہموار کر دی تھی اور نئی عسکری قیادت نے ان کے مشن کی تکمیل کی ہے۔ ایران کی سرزمین بانجھ نہیں وہ نئے کمانڈر پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے جو سابقہ لیڈرشپ کے تجربات سے سیکھ کر اس میں اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کو شامل کر کے مشن کو مزید آگے بڑھانے کا عمل جاری ہے۔

حوزہ: جیسا کہ غاصب اسرائیل کا طفل کش وزیراعظم نے کہا تھا کہ ہمارے حملوں کے نتیجے میں ایرانی قوم شکست تسلیم کرے گی؛ اس پر آپ کیا فرمائیں گے؟

دشمن نے سب سے بڑی حماقت یہ کی ہے کہ اس نے خود جنگ کا آغاز کیا ہے۔ اس خونی اقدام سے درحقیقت اس نے خودکشی کی ہے اور اپنے لیے موت اور ذلت کا دروازہ خود کھولا ہے۔ جن اعلیٰ افسران کو اس نے شہید کیا ہے وہ تو خود شہادت کے متمنی تھے اور ساری عمر مزاحمتی محاذ پر خدمات انجام دینے کے بعد نہیں چاہتے تھے کہ انہیں بستر مرگ پر طبیعی موت ملے؛ وہ متمنی شہادت تھے، ان کی دعائیں مستجاب ہوئیں، لیکن ان کی شہادت سے صیہونی غاصب حکومت اور اس کی قیادت کے سیاہ چہرے سے مزید نقاب اترا؛ اب وہ کسی کو نہ خود منہ دکھانے کے قابل ہیں نہ کھل کر ان کی اس بزدلانہ جارحیت کا کوئی ان کا خیر خواہ بھی دفاع نہیں کر سکتا۔ غاصب اسرائیل اب یورپ اور امریکہ پر بھی بوجھ بن چکا ہے؛ اب صدائیں بلند کر رہا ہے کہ امریکہ اس جنگ میں وارد ہو کر اسے بچائے، کیونکہ مختصر جعغرافیہ پر قائم غاصبانہ طور پر قائم غیر قانونی حکومت نے شاید یہ سوچا تک ہی نہیں تھا کہ ایران اپنے وسیع جغرافیہ اور شہادت طلب عوام کی وجہ سے باآسانی ایسے بزدلانہ حملے برداشت کر لے گا اور پھر فوراً اتنا منہ توڑ جواب بھی دے گا۔ غاصب اسرائیل نے اس جارحیت سے اقوام متحدہ کے قوانین اور امن و آشتی کی عالمی روایات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔ اب ایران جیسے کھل کر میدان جنگ میں دشمن پر تابڑتوڑ حملے کر رہا ہے، ایسے ہی ایران کی ڈپلومیسی ٹیم بھی کھل کر دنیا کے سامنے اپنے حق دفاع کا برملا اظہار کر رہی ہے اور مذاکرات کی میز پر ہر کوئی ان کے مؤقف کی تائید کئے بغیر کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اس جنگ میں ایران کی فتح یقینی ہے۔ دشمن اعلان کرتا ہے کہ ایرانی عوام تہران چھوڑ دے ہم حملے کرنے والے ہیں ادھر بہادر ایرانی عوام سڑکوں پر نکل کر مردہ باد امریکہ اور مردہ باد اسرائیل کے نعرے لگا رہے ہیں اور اب تک کے ہونے والے کامیاب دفاعی حملوں پر جشن بھی منا رہے ہیں۔ یہ عاشورائی اور کربلائی قوم ہے؛ محرم الحرام آنے والا ہے اس کے جذبہء شہادت میں مزید اضافہ ہو گا۔ اور اسرائیل ذلیل و رسوا اور منطقی انجام تک پہنچے گا۔

حوزہ: کیا آج تک کی دفاعی کاروائیوں سے غاصب ریاست کو جواب مل گیا ہے یا پھر وہ مزید کوئی غلطی کرے گی؟ جیسا کہ طفل کش نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ہمارا اگلا ہدف پاکستان ہے۔

غاصب اسرائیل اگلے ہدف تک تو تب پہنچے گا جب وہ ایران پر تسلط حاصل کرے گا۔ ایران ایک بلند وبالا پہاڑ کی چٹانوں کی طرح دشمن کے سامنے کھڑا ہے۔ جہاں ان کے تمام تر توسیع پسندانہ عزائم پاش پاش ہوں گے۔ امریکہ و اسرائیل کی روش فرعونی روش ہے اور اگر وہ خدا نخواستہ کامیاب ہوتے ہیں تو پوری دنیا کو غلام بنانے اور تسخیر کرنے میں دریغ نہیں کریں گے اور فرعون کی طرح " انا ربکم الاعلیٰ " کے اعلان کا تکرار تو کرتے رہے ہیں۔ ایران پوری امت مسلمہ اور عالم مشرق کی نیابت میں یہ جنگ لڑ رہا ہے۔ اسرائیلی فرعون کہہ چکا ہے کہ اگلا ہدف پاکستان ہے اور پاکستان کے بعد پھر چین اور روس کے ساتھ بھی ڈائرکٹ جنگ ہو سکتی ہے، اس لیے غاصب اسرائیل پوری دنیا کے امن وامان کے لئے خطرہ بن چکا ہے؛ یہ کسی بھی بین الاقوامی قانون کا پابند نہیں اور نہ ہی انسانیت کی اس کی قاموس میں کوئی قیمت ہے اور نہ ہی یہ کسی طبقے کے حقوق کو تسلیم اور قبول کرتا ہے، اس لیے اس سرطانی غدے سے نجات بہت ضروری ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha