تحریر: علامہ ڈاکٹر کرم علی حیدری
خلاصہ (Abstract):
یہ تحقیقی تحریر اسرائیل کی طرف سے ایران پر کی گئی عسکری کارروائیوں کو بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں جانچتی ہے۔ تحقیق میں اقوام متحدہ کے چارٹر، خودمختاری کی حرمت، حملے کے جواز، اور دفاع کے حق جیسے بنیادی اصولوں کو بنیاد بنایا گیا ہے، اور یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا اسرائیل کی کارروائیاں قانونی جواز رکھتی ہیں یا عالمی قانون کی صریح خلاف ورزی ہیں۔
کلیدی الفاظ (Keywords):
ایران، اسرائیل، بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ، جارحیت، خودمختاری، Article 2(4)، Article 51، اقوام متحدہ کا چارٹر
گزشتہ برسوں میں اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر ایران کی ایٹمی تنصیبات یا عسکری شخصیات پر اسرائیلی حملے، سائبر وار (جیسے “Stuxnet” حملہ)، اور شام یا عراق میں ایرانی مفادات پر اسرائیلی بمباری کے واقعات نے عالمی امن کے لیے خطرات پیدا کیے ہیں۔ یہ سوال اب شدت اختیار کر چکا ہے: کیا اسرائیل کو ایران پر حملے کا قانونی حق حاصل ہے؟
1. اقوام متحدہ کا چارٹر اور ریاستی خودمختاری:
Article 2(4) of the UN Charter:
“تمام رکن ممالک، بین الاقوامی تعلقات میں کسی بھی ریاست کی علاقائی سالمیت یا سیاسی خودمختاری کے خلاف طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز کریں گے۔”
یہ دفعہ بین الاقوامی قانون کا بنیادی اصول ہے جو کسی بھی ملک کو دوسرے ملک پر حملے سے باز رکھتا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے ایران کی سرزمین یا مفادات پر کسی بھی نوعیت کی عسکری کارروائی، بین الاقوامی سطح پر جارحیت کے زمرے میں آتی ہے۔
2. دفاع کا حق (Right of Self-Defense):
Article 51 of the UN Charter:
“اگر کسی رکن ملک پر مسلح حملہ ہو تو اسے انفرادی یا اجتماعی دفاع کا فطری حق حاصل ہے…”
اس دفعہ کا اطلاق صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب کسی ریاست پر حقیقی مسلح حملہ ہو چکا ہو۔
پیشگی حملہ (Pre-emptive Strike) یا دھمکی کی بنیاد پر حملہ (Preventive War) کو عالمی سطح پر قانونی جواز حاصل نہیں ہے، جب تک کہ حملے کا خطرہ فوری، ناقابلِ ٹال، اور حقیقی نہ ہو۔
اسرائیل کا یہ دعویٰ کہ “ایران ممکنہ طور پر مستقبل میں ایٹمی ہتھیار بنا سکتا ہے” اس شرط پر پورا نہیں اترتا، لہٰذا اسرائیل کی جارحیت کو دفاع کا حق قرار نہیں دیا جا سکتا۔
3. جارحیت کی تعریف (Definition of Aggression):
اقوام متحدہ کی 1974ء کی جنرل اسمبلی قرارداد (3314) کے مطابق:
“اگر کوئی ریاست کسی دوسری ریاست کی سرزمین، فضائی حدود یا بحری حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلح حملہ کرے، تو یہ جارحیت کہلائے گی۔”
اس تعریف کے مطابق:
• ایران کی تنصیبات پر اسرائیلی حملے
• ایران کی فوجی موجودگی (مثلاً شام یا عراق) پر اسرائیلی بمباری
• یا ایرانی سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ
سب بین الاقوامی جارحیت کے زمرے میں آتے ہیں۔
4. نیشل سیکیورٹی اور خود ساختہ خطرہ (National Security & Threat Doctrine):
اسرائیل اکثر ایران کو “وجودی خطرہ (Existential Threat)” قرار دیتا ہے۔ لیکن بین الاقوامی قانون کے مطابق:
“خطرے کا محض خدشہ یا نظریاتی دشمنی، کسی ریاست کو حملے کا اختیار نہیں دیتا۔”
عدالتِ انصاف (ICJ) اور دیگر عالمی ادارے “متوازن اور فوری خطرہ” کو شرط قرار دیتے ہیں۔
5. جوہری پھیلاؤ کا مسئلہ (Nuclear Proliferation):
ایران NPT (Non-Proliferation Treaty) کا رکن ہے، اور IAEA کی نگرانی میں کام کرتا ہے، جب کہ اسرائیل خود NPT کا رکن نہیں ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کا خفیہ مالک ہے۔
یہ بین الاقوامی برادری کے لیے ایک اخلاقی اور قانونی سوال بناتا ہے کہ ایک غیر دستخط شدہ ریاست، ایک دستخط شدہ ریاست پر حملہ کیسے کر سکتی ہے؟
6. اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی ذمہ داری:
• اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، اسرائیل کے حملوں پر زیادہ تر خاموش یا ویٹو زدہ رہی ہے۔
• اس رویے نے بین الاقوامی قانون کی حرمت کو کمزور کیا ہے، اور اسرائیل کو غیر قانونی عسکری اقدامات کی کھلی چھوٹ دی ہے۔
نتیجہ:
بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں:
• اسرائیل کی جانب سے ایران پر یکطرفہ حملے اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہیں۔
• “دفاع کے حق” کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں ہے، کیونکہ ایران نے اسرائیل پر براہ راست کوئی حملہ نہیں کیا۔
• ایران کا NPT کے دائرے میں رہتے ہوئے پرامن ایٹمی پروگرام بین الاقوامی معاہدات کے مطابق ہے۔
• اسرائیل کا پیشگی حملہ کرنا، سائبر وار، اور ٹارگٹ کلنگ جیسے اقدامات نہ صرف جارحیت ہیں بلکہ بین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرناک مثالیں قائم کر رہے ہیں۔
تجاویز:
1. اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں پر تحقیقی کمیشن تشکیل دے۔
2. بین الاقوامی عدالتِ انصاف (ICJ) میں ریاستی خودمختاری کی خلاف ورزی کے مقدمات دائر کیے جائیں۔
3. اسلامی ممالک کو اقوام متحدہ میں مشترکہ قرارداد کے ذریعے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرنی چاہیے۔
4. عالمی میڈیا اور تھنک ٹینکس کو چاہیے کہ وہ جارح اور مدافع میں فرق واضح کریں، تاکہ عالمی رائے عامہ متاثر نہ ہو۔









آپ کا تبصرہ