حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ایران کے وزیر خارجہ، سید عباس عراقچی نے حالیہ امریکی حملے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ "ایران ایک جارحانہ حملے کا نشانہ بنا ہے، اور ہمیں اس کا جواب دینا ہوگا۔"
انہوں نے واضح کیا کہ امریکا اب صرف بالواسطہ نہیں بلکہ براہِ راست جنگ میں شامل ہو چکا ہے۔ اس صورتحال میں یہ کہنا کہ ایران کو مذاکرات کی طرف واپس آنا چاہیے، کوئی معنی نہیں رکھتا، کیونکہ خود ایران پہلے ہی مذاکرات میں شریک تھا۔
مذاکرات کو خود امریکہ نے سبوتاژ کیا
عراقچی نے بتایا کہ ایران اور یورپی ممالک کے درمیان دو روز قبل جنیوا میں مذاکرات جاری تھے۔ ایران سنجیدگی سے سفارتی عمل میں شامل تھا، لیکن یہ اسرائیل ہی تھا جس نے مذاکرات کو سبوتاژ کیا۔ ان کا کہنا تھا: "ہم بات چیت کر رہے تھے، لیکن اسی دوران اسرائیل نے حملہ کر دیا۔ اور امریکہ نے عملاً اس اقدام کی حمایت کی۔"
انہوں نے کہا کہ جب سفارتی کوششیں جاری ہوں اور اسی دوران مذاکرات کے فریقین میں سے ایک، دوسرے فریق کے خلاف عسکری حملہ کرے، تو یہ نہ صرف سفارتی بددیانتی ہے بلکہ عالمی اصولوں کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔
امریکہ اور اسرائیل: سفارتکاری کے دعویدار یا جنگ کے محرک؟
عراقچی نے الزام عائد کیا کہ امریکہ نے اسرائیل کو ایران پر حملے کی اجازت دی، حتیٰ کہ ایران کی پرامن ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا: "یہ لوگ اہلِ دیپلماسی نہیں، یہ صرف طاقت، دھمکی اور زور کی زبان سمجھتے ہیں، اور یہ بہت افسوسناک ہے۔"
ایران: بغیر جوہری ہتھیار کے، لیکن حملے کا نشانہ
جرمنی کے حکام کی اسرائیلی حملوں پر خاموشی کے بارے میں سوال پر عراقچی نے شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا: "ایران ایک ایسا ملک ہے جو خود ایٹمی ہتھیار نہیں رکھتا، لیکن اسے ایک ایٹمی طاقت اور ایک ایٹمی اسلحہ رکھنے والے رژیم (اسرائیل) نے نشانہ بنایا ہے۔ یہ حملہ نہ صرف قابلِ مذمت ہے، بلکہ یہ عالمی معاہدات، خصوصاً 'معاہدہ عدم اشاعۂ اسلحۂ ایٹمی' (NPT) کی صریح خلاف ورزی ہے۔"
عراقچی نے زور دے کر کہا کہ: "اگر ایران یا کوئی دوسرا ملک، جو پرامن نیوکلیئر پروگرام چلا رہا ہو اور بین الاقوامی معاہدات کا پابند ہو، اسے بھی حملے کا نشانہ بنایا جائے، تو پھر ان معاہدوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔"
ایران خاموش نہیں بیٹھے گا
عراقچی کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ ایران اب مزید صرف سفارتی ذرائع پر انحصار کرنے کے بجائے حملے کا عملی جواب دینے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ ایرانی مؤقف کے مطابق، موجودہ حالات میں خاموش رہنا نہ صرف کمزوری کی علامت ہے، بلکہ مستقبل میں مزید حملوں کی دعوت دینا ہے۔ "جب سفارتکاری کو روند دیا جائے، تو قوموں کے پاس اپنی خودمختاری کے دفاع کے سوا کوئی اور راستہ نہیں بچتا۔"
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خطے میں کشیدگی اپنے عروج پر ہے، اور ایران کے لیے اب فیصلہ کن مؤقف اختیار کرنے کا وقت آ چکا ہے۔









آپ کا تبصرہ