اتوار 22 جون 2025 - 18:49
ہمیں حکم کا پابند رہنا چاہیے

حوزہ/ یہ بات سب جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی اور اس نظام کے رہبر کبھی بھی خطے یا دنیا میں مہم جوئی، فساد یا کشیدگی کے خواہاں نہیں رہے۔ ملک کی اعلیٰ قیادت ہمیشہ بات چیت، مذاکرات، امن و امان اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی حامی رہی ہے۔ البتہ درمیان میں کچھ شدت پسند عناصر ضرور تھے جن کی ناپختہ سوچ اور غیر متوازن رویے نے نظام کو نقصان پہنچایا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان افراد کا نہ انقلاب سے تعلق ہے، نہ امام سے، نہ رہبری سے اور نہ نظام سے۔

حوزہ نیوز ایجنسی I

تحریر: عبدالرحیم اباذری

یہ بات سب جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی اور اس نظام کے رہبر کبھی بھی خطے یا دنیا میں مہم جوئی، فساد یا کشیدگی کے خواہاں نہیں رہے۔ ملک کی اعلیٰ قیادت ہمیشہ بات چیت، مذاکرات، امن و امان اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی حامی رہی ہے۔ البتہ درمیان میں کچھ شدت پسند عناصر ضرور تھے جن کی ناپختہ سوچ اور غیر متوازن رویے نے نظام کو نقصان پہنچایا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان افراد کا نہ انقلاب سے تعلق ہے، نہ امام سے، نہ رہبری سے اور نہ نظام سے۔

حتیٰ کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کی تمام فوجی سرگرمیاں بھی خطے میں انتہا پسند گروہوں کے خاتمے اور پائیدار امن کے قیام کے لیے تھیں۔ وہ ان عناصر کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوئے جو علاقے میں فساد اور خونریزی پھیلا رہے تھے۔ لیکن جب عالمی استعمار کو یہ محسوس ہوا کہ اگر اس خطے میں امن قائم ہو گیا تو ان کے اسلحہ ساز ادارے بند ہو جائیں گے، تو اسی منحوس اور بدطینت ٹرمپ کے حکم پر اس مردِ دانا، متوازن اور عوام دوست شخصیت کو بزدلانہ انداز میں شہید کر دیا گیا۔

ایران کی حسنِ نیت کا ثبوت یہ ہے کہ مختلف ادوار کی حکومتوں نے، خاص طور پر نویں سے لے کر چودہویں حکومت تک، مذاکرات اور بات چیت کو ہمیشہ سنجیدگی سے لیا۔ لیکن ہر بار مغرب کی طرف سے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ مثال کے طور پر، جب ایران اور عالمی طاقتیں ایٹمی معاہدے کے ذریعے ایک مثبت سمت میں جا رہی تھیں، تب بھی امریکہ نے یک طرفہ طور پر اس معاہدے سے دستبرداری اختیار کر لی۔

تیرہویں حکومت کے دور میں، مرحوم وزیر خارجہ شہید امیر عبداللہیان نے دنیا بھر میں سفارتی سرگرمیوں کے ذریعے امن کے قیام کی بھرپور کوشش کی، مگر اس مشکوک ہیلی کاپٹر حادثے نے ایک اور باب غم رقم کیا۔

اور اب چودہویں حکومت کے دوران بھی جب ایران مذاکرات میں مصروف تھا، دشمن نے غداری کی، پیٹھ پیچھے وار کیا اور ہمارے ان عظیم کمانڈروں اور سائنسدانوں کو بزدلانہ حملوں میں شہید کر دیا، جو عقل، تدبیر، علم، قیادت، شجاعت اور شرافت کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔

ان تلخ تجربات کے نتیجے میں ہمیں ایک بڑی معنوی دولت حاصل ہوئی۔ ان تمام مذاکرات کا ایک مثبت پہلو یہ تھا کہ:

1. ایران کی صداقت، امن پسندی اور سچائی دنیا کے سامنے مزید واضح ہوئی۔

2. مغرب، خاص طور پر امریکہ اور صہیونی طاقتوں کی جعلی انسانی حقوق پسندی بے نقاب ہوئی اور ان کا ظالمانہ چہرہ سب پر عیاں ہو گیا۔

3. دنیا بھر کے عوام اور حکومتیں اس نتیجے پر پہنچیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہرگز جنگ پسند یا فساد طلب ملک نہیں، لیکن اگر کوئی اس کے وقار پر حملہ کرے تو یہ بھرپور طاقت سے اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اب جب کہ خدا کے فضل سے ہماری مسلح افواج، یعنی سپاہ پاسداران اور فوج، ظالم شکن میزائلوں کے ذریعے عسکری میدان میں برتری حاصل کیے ہوئے ہیں اور یہ برتری عوام کی مکمل حمایت سے قائم ہے، تو ہمیں اسے ضرورت کے مطابق دشمن کی جارحیت روکنے کے لیے برقرار رکھنا چاہیے۔

لیکن اس حساس اور فیصلہ کن وقت میں، ہمیں ملک کے اندر دو قسم کے گروہوں سے ہوشیار رہنا چاہیے:

1 – تفریطی (نرم مزاج اور مایوس گروہ) یہ وہ لوگ ہیں جو ذرا سا دھماکہ سن کر گھبرا جاتے ہیں، مایوسی پھیلانے لگتے ہیں، صرف کمزوریوں پر بات کرتے ہیں اور جنگ کے برے نتائج کا راگ الاپتے ہیں۔ یہ لوگ حکومت اور نظام کو جنگ طلبی کا الزام دیتے ہیں اور عوام کو مایوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ خود بخوبی جانتے ہیں کہ یہ جنگ ہم پر تھوپی گئی ہے اور اس کا واحد جواب مزاحمت اور دفاع ہے۔

2 – افراطی (شدت پسند اور جذباتی گروہ) یہ وہ عناصر ہیں جو اس کے برعکس مسلسل جنگ کی باتیں کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر حکومتی شخصیات اور کمانڈروں کو سازشی اور مغرب زدہ کہہ کر بدنام کرتے ہیں۔ جیسے چند دن پہلے شہید سردار باقری کی ایک سادہ سی رائے پر انہیں نشانہ بنایا گیا اور ان کی توہین کی گئی۔

آج بھی یہی افراد جناب عراقچی جیسے سفارتکار کے بارے میں بے بنیاد باتیں کر رہے ہیں، اور جنگ یا مذاکرات کے درمیان مصنوعی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ دونوں گروہ چاہے دانستہ یا نادانستہ دشمن یعنی امریکہ اور صہیونیوں کی خدمت کر رہے ہیں، جیسے قینچی کی دو دھاریں جو بظاہر مختلف مگر انجام میں یکساں نقصان دہ ہیں۔ امید ہے کہ یہ لوگ ہوش کے ناخن لیں گے اور ملتِ ایران کے عظیم عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ اور آج جب امریکہ نے خود جنگ میں قدم رکھ دیا ہے، اب وقت ہے کہ ہم اندرونی اختلافات بھلا کر، فضول بحثوں سے گریز کرتے ہوئے، خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں۔

ہمیں قومی اتحاد، سیاسی ہم آہنگی اور اعتماد کے ساتھ فوجی و سیاسی قیادت کا ساتھ دینا چاہیے جو رہبر معظم کی نگرانی میں پوری سنجیدگی کے ساتھ ملک، انقلاب اور عوام کے دفاع میں مصروف ہیں۔

ہم سب کو چاہیے کہ ان کی ہدایات پر لبیک کہیں، بے جا تبصروں، غیر ذمہ دارانہ بیانات اور جذباتی و ناپختہ باتوں سے پرہیز کریں، اور پوری طرح متحد ہو کر میدانِ عمل میں رہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha