حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکہ کی جانب سے ایران پر تازہ فضائی حملے کے بعد سیاسی تجزیہ نگار رضا ایروانی نے اس اقدام کو دشمن کو روکنے والی حکمت عملی کے خاتمے اور ایران کے لیے جوابی کارروائی کے آغاز کا نقطہ قرار دیا ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کی زبان میں "دشمن کو روکنے کی صلاحیت" کا مطلب ہوتا ہے کہ ایک ملک اتنی سیاسی اور عسکری طاقت حاصل کر لے کہ اگر اس پر حملہ ہو تو وہ ایسی زبردست جوابی کارروائی کرے کہ دشمن دوبارہ حملے کی ہمت نہ کرے۔ یہ ایک نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے جو دشمن کے دل میں خوف پیدا کرتی ہے۔
ایروانی کے مطابق امریکہ خاص طور پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ، یہی سمجھتا رہا ہے کہ دنیا اس سے ڈرتی ہے اور وہ عالمی سطح پر دشمن کو روکنے کی صلاحیت کا مالک ہے۔ چنانچہ حملے کے فوراً بعد امریکی پرچم کی تصویر شیئر کر کے یہ پیغام دینا چاہا کہ امریکا پر اعتماد رکھو، وہ ہر ردعمل کے لیے تیار ہے۔ لیکن ایران کے لیے یہ ایک نفسیاتی چال تھی تاکہ اسے کسی ردعمل سے روکا جا سکے۔
تاہم ایروانی کہتے ہیں کہ اس بار امریکہ کی یہ چال کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ ٹرمپ نے ایران کے نظامِ فیصلہ سازی کو غلط سمجھا، جو اب وہی محتاط رویہ اختیار نہیں کرتا جو ماضی میں کرتا تھا۔ امریکی تصور اب بھی جنگ سے پہلے کے حالات پر مبنی ہے، جبکہ ایران کی پالیسی اب مکمل طور پر بدل چکی ہے۔
یہ بھی واضح ہوا کہ امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران پر حملہ کیا، مگر ایران نے چالاکی سے امریکہ کو مذاکرات کے جال میں پھنسا کر اپنے لیے مزید اہداف حاصل کر لیے۔ اب ایران کے پاس امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کاروائی کے کئی قانونی و اخلاقی جواز موجود ہیں۔
ایروانی مزید لکھتے ہیں کہ ٹرمپ کا "دیوانہ پن" اصل میں خوف کا اظہار ہے، نہ کہ شجاعت کا۔ اس رویے کے مقابلے میں اگر ایران سخت اور براہِ راست ردعمل دے تو امریکہ، خاص طور پر ٹرمپ، جوابی اقدام سے قاصر رہ جائے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ایران پر براہ راست حملہ، درحقیقت ایک علاقائی طاقت کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اگر ایران اس کا بھرپور جواب نہ دے تو یہ پیغام جائے گا کہ ایران اپنی علاقائی حیثیت سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ یہ صرف فوجی شکست نہیں بلکہ ایک بڑا سیاسی خودکشی ہوگا۔
ایروانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹرمپ نوبل امن انعام حاصل کرنا چاہتا ہے، اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ حملہ شاید اسے دنیا میں برتری دے گا، لیکن اس نے درحقیقت امریکہ کو ایک جنگ کی شروعات کرنے والا ملک ثابت کر دیا ہے۔ اس اقدام سے امریکہ اب ایک "ناظر" یا "ثالث" نہیں رہا بلکہ ایک "براہ راست جنگجو" ملک بن چکا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ایران اپنے اسٹریٹیجک نعروں کو عملی جامہ پہنائے۔ امریکہ کو یہ پیغام دینا ضروری ہے کہ اب وہ بازدارندگی کی حالت میں نہیں بلکہ خود ایران کا نشانہ بن چکا ہے۔
ایروانی کا ماننا ہے کہ ایران کو اب کسی اندیشے یا داخلی دو رائے کا شکار ہوئے بغیر، سخت اور واضح جواب دینا ہوگا، کیونکہ اس وقت نرمی یا مصلحت پسندی، عقلمندی نہیں بلکہ قومی مفادات کے لیے زہر قاتل ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ اب جوابی کارروائی صرف ایک انتخاب نہیں بلکہ ایک قومی سلامتی کی ضرورت ہے۔ اور یہ کارروائی صرف نفسیاتی یا پروپیگنڈا کی سطح پر نہیں بلکہ عملی میدان میں ہونی چاہیے۔
آخر میں وہ کہتے ہیں کہ اب وقت سوگ منانے یا مرثیے پڑھنے کا نہیں بلکہ اقدام کا ہے۔ جیسا کہ ایک بزرگ نے کہا تھا: "اگر روضہ حماسی لہجے میں پڑھا جائے تو زیادہ سوزناک ہوتا ہے۔"
اور اب اصل سوال یہ ہے کہ ایران کا جوابی وار کیا ہونا چاہیے؟
ایروانی کے بقول، اس کا جواب ایک ہی ہے: جوابی وار ایسا ہونا چاہیے جو نہ صرف اسرائیل کو مکمل طور پر مفلوج کر دے بلکہ مشرق وسطیٰ میں امریکی تسلط کا خاتمہ کر دے۔ ایسا وار جو یہ واضح کر دے کہ: اب امریکہ خلیج فارس میں آزادی سے پرچم لہرا نہیں سکتا۔
مشرق وسطیٰ کے آسمان اس کے لیے محفوظ نہیں رہے اس کے فوجی، افسران اور اڈے اب ہر لمحہ ایرانی انتقام کی زد پر ہیں۔
ایران کو سمجھنا ہوگا کہ اب دشمن نے خود جنگ میں قدم رکھ دیا ہے۔ اب صرف نعرے لگانے کا وقت نہیں، بلکہ ان نعروں کو عملی حکمت عملی، فوجی ہدایات، اور فیصلہ کن اقدامات میں تبدیل کرنے کا وقت ہے۔
یہی وقت ہے کہ دنیا کو دکھایا جائے: ایران صرف زخم نہیں سہتا، وہ زخم کھا کر جھپٹتا ہے۔









آپ کا تبصرہ