قتل ہونا شکست نہیں، سر جھکانا شکست ہے/ ایران کا حوصلہ، اُمت کا آئینہ

حوزہ/حالیہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک متکبرانہ بیان دیتے ہوئے ایرانی قیادت کو نہ صرف ''ختم'' کرنے کی دھمکی دی، بلکہ دنیا کو ایک بار پھر بتا دیا کہ کس طرح استعماری سوچ آج بھی خود کو دنیا کی حاکم سمجھتی ہے۔

تحریر: حافظ مولانا سید ذہین علی نجفی

حوزہ نیوز ایجنسی| حالیہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک متکبرانہ بیان دیتے ہوئے ایرانی قیادت کو نہ صرف ''ختم'' کرنے کی دھمکی دی، بلکہ دنیا کو ایک بار پھر بتا دیا کہ کس طرح استعماری سوچ آج بھی خود کو دنیا کی حاکم سمجھتی ہے۔

جواباً ایران کے اقوامِ متحدہ میں مشن اور رہبرِ معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے جو ردعمل دیا، وہ نہ صرف ایران کے نظریاتی اور قومی وقار کی گواہی ہے، بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے بھی ایک سبق اور پیغام ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ بیان — جس میں اس نے ایران کے سپریم لیڈر کو ''ختم کرنے'' کی بات کی — دراصل امریکی خارجہ پالیسی کی اندرونی بوکھلاہٹ کا مظہر ہے۔ ایک ایسا صدر جو خود کئی عدالتی کیسز، سیاسی تنہائی اور داخلی انتشار میں گھرا ہوا ہو، اس کی جانب سے اس نوعیت کی دھمکیاں دینا، داخلی حمایت حاصل کرنے اور طاقت کا بھرم رکھنے کی ناکام کوشش کے سوا کچھ نہیں۔لیکن یہ پہلی بار نہیں۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ دہائیوں سے اسلامی مزاحمتی ریاستوں کے خلاف ''Regime Change'' کی پالیسی پر گامزن ہے، کبھی عراق، کبھی شام، کبھی لیبیا، اور اب پھر ایران۔ تاہم ایران وہ ملک ہے جس نے ان تمام سازشوں کے باوجود اپنی نظریاتی خودمختاری برقرار رکھی ہے۔

ایران کے اقوام متحدہ میں مشن نے غیر معمولی جرأت مندی اور فکری استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹرمپ کے بیان کو نہ صرف جھوٹا اور بزدلانہ قرار دیا بلکہ واضح طور پر کہا ''ایران نہ دباؤ میں مذاکرات کرتا ہے، نہ دباؤ میں امن قبول کرتا ہے، اور خاص طور پر ایسے جنگ پسند ناکام شخص کے ساتھ نہیں جو اپنی اہمیت بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہو۔''یہ وہ پیغام ہے جس کی زبان صرف وہی قوم بول سکتی ہے جو کربلا کے وارثوں میں سے ہو، اور جس کے حکمران محض ''حکومت'' کے لیے نہیں بلکہ عقیدے اور نظریے کے لیے زندہ ہوں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر ردعمل میں رہبرِ معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا کہنا تھا ''قتل ہونا شکست نہیں ہوتی، سر جھکانا شکست ہوتی ہے۔''یہ جملہ بظاہر مختصر، مگر اپنی معنویت میں پوری ملتِ اسلامیہ کا منشور ہے۔ جب امام حسینؑ نے یزید کے سامنے جھکنے کے بجائے شہادت کو ترجیح دی، تب بھی یہی اصول کارفرما تھا۔ آج بھی یہی پیغام ایرانی قیادت کی زبان سے دنیا کو سنائی دے رہا ہے: ظالم کے خلاف کھڑا ہونا عزت ہے، اور ظلم کے سامنے جھکنا ذلت۔۔۔

جب ایک ریاست، جس پر دہائیوں سے عالمی پابندیاں، اقتصادی جنگ، اور نفسیاتی حملے مسلط ہیں، اس کے باوجود استقامت کا یہ مظاہرہ کرے — تو سوال یہ ہے کہ عرب دنیا، ترکی، اور دیگر مسلم ریاستیں کب اس کردار کو اپنائیں گی؟ کیا وہ محض مفادات کے تابع رہ کر تماشائی بنے رہیں گی، یا اس موقف کو اپنائیں گی جو غیرت، خودی اور دینی حمیت کی بنیاد پر استوار ہے؟ایران کا یہ بیان، اور رہبرِ معظم کی بات، صرف دفاعی یا سفارتی ردعمل نہیں — بلکہ امت مسلمہ کے اجتماعی ضمیر کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ ایک صدی سے دبے ہوئے مسلمان معاشروں کے لیے للکار ہے کہ اگر عزت چاہتے ہو تو غیرت کے ساتھ جیو،اگر آزادی چاہتے ہو تو قربانی کے لیے تیار رہو،اگر قیادت چاہتے ہو تو غلامی کا طوق اتار پھینکو۔

یہ حقیقت اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ایران کی خارجہ پالیسی ہو یا دفاعی حکمت عملی، ہر فیصلہ عزت، مزاحمت اور اصول پسندی پر مبنی ہوتا ہے۔ ایران کا یہ مؤقف آج غزہ، یمن، عراق، لبنان، شام، اور کشمیر کے مسلمانوں کے لیے امید کی کرن ہے۔اُمت مسلمہ اگر واقعی قیادت چاہتی ہے تو اسے خاموش بیانات، رسمی مذمتوں اور بند کمروں کی قراردادوں سے نکل کر عملی استقامت کا راستہ اپنانا ہوگا — جس کی روشن مثال آج ایران کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔شاباش ایران! تم نے سامراج کے منہ پر ایک نظریاتی طمانچہ مارا ہے، اور یہ طمانچہ صرف تمہارا نہیں، امت مسلمہ کا بھی ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha