حوزه نیوز ایجنسی کے نامہ نگار سے گفتگو میں ایران کے شہر نائین کے امام جمعہ حجت الاسلام محمد مطہر خو نے کہا: شرم الشیخ، مصر کانفرنس درحقیقت اس معاملے میں مغرب پرستوں کی بدنامی تھی، بدقسمتی سے مغرب پرست عناصر نے ایک سلسلہ وار کارروائی میں ایرانی صدر اور وزیر خارجہ سے بھی اس اجلاس میں شرکت کا مطالبہ کیا اور دعویٰ کیا کہ یہ ایران کے لیے ایک موقع ہے اور ایران کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات اور تعاون کے دروازے کھولنے کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: ٹرمپ اور نیتن یاہو کی فضول بکواس سے چند گھنٹے پہلے اور بعد میں، جنہوں نے ایرانی قوم اور سردار سلیمانی کے خلاف شرمناک بیانات دیے، اور ساتھ ہی کانفرنس میں شرکت کرنے والے ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا، ان لوگوں پر ثابت ہو گیا کہ ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کا اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ بہترین تھا۔
حجت الاسلام مطہر خو نے کہا: ہمیں حکومت کے اس فیصلے، ڈاکٹر پزشکیان اور حکومت اور وزیر خارجہ کے اقدام کی تعریف اور شکریہ ادا کرنا چاہیے جنہوں نے مغرب پرستوں کے دباؤ میں ایسا کام نہیں کیا اور ایران کی عزت کو محفوظ رکھا۔
نائین کے امام جمعہ نے کہا: 12 روزہ جنگ کے بعد مغرب پرست کئی سطحوں پر مذاکرات کا معاملہ کر رہے ہیں؛ جن میں سے ایک حکومت پر توجہ مرکوز کرنا اور صدر پر دباؤ ڈالنا ہے۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ امریکی اپنی پالیسیوں میں ناکامی محسوس کرتے ہی مذاکرات اور معاہدے کی طرف آجاتے ہیں، کہا: غزہ میں کیے گئے فسادات میں وہ آخرکار اس میدان میں شکست کھا چکے ہیں کیونکہ وہ حماس کو ہتھیار ڈالنے اور غیر مسلح کرنے میں ناکام رہے اور یہ اسرائیل کو اس مشکل سے نکالنے کا ایک امریکی منصوبہ تھا جس میں وہ پھنسا ہوا تھا۔
حجت الاسلام مطہر خو نے ٹرمپ کے شروع کردہ پروپیگنڈے اور مکروہ کھیل کے پس پردہ محرکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ٹرمپ ایک نیا مشرق وسطیٰ بنانے کی کوشش کر رہا ہے جیسا کہ امریکہ کے سابق صدور بھی یہ کام کرتے تھے لیکن وہ اس فیصلے کو زیادہ بے احتیاطی اور زیادہ جنگ انگیزی کے ساتھ آگے بڑھا رہا ہے، اسی لیے اس نے مشرق وسطیٰ میں غزہ کے خلاف بھی اور جمہوریہ اسلامی ایران کے خلاف بھی جنگ چھیڑ دی تاکہ اس بات کو ثابت کرسکے کہ اس نے ایران کو نشانہ بنا کر فلسطین کا مسئلہ حل کر دیا ہے اور عوامی رائے میں یہ بات ڈال دے کہ اس نے اس خطے کو پرامن کر دیا ہے۔









آپ کا تبصرہ