اتوار 12 اکتوبر 2025 - 08:00
مزاحمتی ہتھیار؛ ناقابلِ مذاکرات ہے: تحریکِ حماس

حوزہ/ تحریکِ حماس کے ساتھ غاصب اسرائیل کے ہونے والے حالیہ معاہدے کے مسودے میں ٹرمپ کے منصوبے میں شامل کچھ نکات کا کوئی ذکر نہیں، جن میں حماس کو غیر مسلح کرنا اور غزہ پر حکمرانی کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی ہی سربراہی میں ایک عبوری بین الاقوامی انتظامیہ کا قیام شامل تھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے ایک سینئر رکن نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں جنگ ختم کرنے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے میں شامل، اسلحہ سے دستبرداری کی درخواست، مذاکرات میں زیر بحث نہیں آئی ہے۔

انہوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے خبر رساں ادارے ”اے ایف پی“ کو بتایا ہے کہ ہتھیاروں کی حوالگی کے معاملے پر بات چیت ناقابلِ قبول ہے۔

واضح رہے کہ یہ بیانات غاصب اسرائیل اور اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے درمیان ہونے والی جنگ بندی کے دوسرے دن سامنے آئے ہیں۔

یاد رہے کہ غاصب اسرائیل اور حماس نے گزشتہ جمعرات کو مصر کے شرم الشیخ میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے؛ جس نے غزہ کی پٹی پر جاری دو سالہ جنگ ختم کرنے کی راہ ہموار کی۔

اس معاہدے میں جنگ بندی اور اسرائیلی قیدیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہے؛ تاہم معاہدے کے مسودے میں ٹرمپ کے منصوبے میں شامل کچھ نکات کا کوئی ذکر نہیں، جن میں حماس کو غیر مسلح کرنا اور غزہ پر حکمرانی کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی ہی سربراہی میں ایک عبوری بین الاقوامی انتظامیہ کا قیام شامل تھا۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ امریکی صدر نے پہلے ہی کہا تھا کہ امن منصوبے کے دوسرے مرحلے میں، حماس کے ہتھیاروں کی حوالگی کے معاملے پر غور کیا جائے گا، لیکن حماس نے سرکاری طور پر اعلان کیا ہے کہ مزاحمت کے ہتھیاروں کا معاملہ قابلِ مذاکرات نہیں ہے اور جب تک اسرائیل کا قبضہ باقی ہے وہ اپنے ہتھیار زمین پر نہیں رکھیں گے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha