حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے انسانی حقوق فرانچسکا آلبانیزے نے کہا ہے کہ غزہ میں جس نام نہاد “امن” کی بات کی جا رہی ہے، دراصل وہ فلسطینیوں پر جاری ظلم کو چھپانے اور امتیازی سلوک برتنے کی ایک چال ہے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ایکس" پر اپنے بیان میں کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تجویز کردہ جنگ بندی کے منصوبے کو “امن” کہنا گمراہ کن ہے، کیونکہ فلسطینیوں کے لیے یہ نسل پرستی کی بدترین صورت بن سکتا ہے۔
البانیزے نے کہا کہ دنیا کو فلسطین کے مسئلے سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے نلسن منڈیلا کے مشہور قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ جب تک تمام لوگ آزاد نہیں ہوتے، کوئی بھی حقیقی طور پر آزاد نہیں ہے۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ایک سوشل میڈیا پیغام میں غزہ میں جنگ بندی کے بعد کی صورتِ حال پر تبصرہ کیا گیا تھا۔ پیغام میں کہا گیا تھا: “جب اسرائیلی اپنے قیدیوں کی رہائی کا جشن منا رہے ہیں، فلسطینی خاندان خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر وہ اپنے پیاروں کی آزادی پر خوشی ظاہر کریں تو ان پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ یہ امن نہیں، بلکہ بدترین نسل پرستی ہے۔”
دوسری جانب برطانوی اخبار گارڈین نے بھی اپنی رپورٹ میں غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کو “غیر واضح اور مبہم” قرار دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس منصوبے میں نہ کوئی واضح ٹائم ٹیبل ہے، نہ ثالثی کا نظام، اور نہ ہی معاہدے کی خلاف ورزی پر کوئی سزا طے کی گئی ہے۔
گارڈین نے لکھا کہ اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق بھی چلا تو غزہ کے عوام کی زندگی جہنم سے نکل کر ایک نہ ختم ہونے والے ڈراؤنے خواب میں بدل جائے گی۔ فلسطینی ایک بار پھر اپنی ہی سرزمین پر بےگھر ہو جائیں گے، اور شاید کچھ حلقے اسی کو “بڑی کامیابی” قرار دیں۔









آپ کا تبصرہ