حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ عباس کعبی، نائب سرپرست جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم نے نوبل امن انعام کے اصل مقصد سے بھٹکنے اور امتِ مقاومت کے اس انحراف کے جواب اور طوفان الاقصیٰ میں اللہ کے وعدے کی تکمیل کے سلسلے میں عالمی سطح پر شہید نصر اللہ ایوارڈ قائم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مظلوم غزہ کی قوم اور اسلامی فلسطینی مزاحمت کی صہیونی ریاست پر فتح اور دو سال کے جنگی جرائم، نسل کشی اور وحشت کے بعد جارحیت کے بند ہونے پر مجبور ہونے کے موقع پر ایک بڑی حقیقت واضح ہوئی کہ:
انقلاب اسلامی کے عظیم رہنما کے تاریخی تجزیے کی تصدیق ہو گئی۔ صہیونی ریاست طوفان الاقصیٰ کی بھاری اطلاعاتی، سیاسی، عسکری، سکیورٹی اور شکست کو پورا نہ کر سکی۔ حماس آج سکیورٹی اور عسکری لحاظ سے پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط، زندہ اور مؤثر ہے۔
قابض ریاست بے مثال جرائم کے باوجود یرغمالوں کو رہا نہ کرا سکی اور اسے مجبوراً مقاومتی محور سے مذاکرات کرنا پڑے۔ غزہ عوامی اور جہادی عزم کے ساتھ تعمیر نو کے راستے پر گامزن ہو گا اور صہیونی ریاست اسٹریٹجک، سماجی اور نفسیاتی بحرانوں کا شکار ہے۔ یہ زخمی بھیڑیے کی مانند ہے جو موت سے خوفزدہ ہے اور اپنی بقا کے لیے جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔
نوبل امن انعام، جسے کبھی الفریڈ نوبل نے امن کے لیے کوششوں کی تحسین کے لیے قائم کیا تھا، آج قیام سے اب تک 105 سے زائد انعامات دے چکا ہے اور یہ ظاہر کر چکا ہے کہ یہ انصاف کے راستے سے بھٹک کر عالمی استکباری نظام اور بین الاقوامی صہیونیت کے لیے پروپیگنڈہ کا آلہ کار بن گیا ہے۔
یہ انعام ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے کبھی مظلوموں کے خلاف کھڑے ہو کر جنگ، قبضہ، محاصرے یا جبر میں براہ راست کردار ادا کیا۔ ہنری کسنجر سے لے کر شمعون پیریز تک، باراک اوباما سے لے کر یورپی یونین تک، اور آنگ سان سوچی تک، جو میانمار میں نسلی صفائی میں ملوث رہی، نوبل امن کی فہرست میں وہ نام شامل ہیں جن میں سے ہر ایک کم از کم ایک جنگ یا قبضے میں ملوث رہا۔
اگرچہ اس سال صہیونی ریاست کے جرائم کا حامی اور شریک ٹرمپ نوبل انعام سے محروم رہا لیکن یہ انعام ان لوگوں کو دیا گیا جو قبضہ اور اقوام کے تختہ الٹنے کو جواز فراہم کرتے ہیں۔ اس سال ماریا کورینا ماچادو، ایک صہیونی حامی وینزویلا کی سیاستدان، جو اپنی قانونی حکومت کی مخالف ہے، جیتی ہیں۔ یہ انتخاب امن کی تحسین نہیں بلکہ تختہ الٹنے کے منصوبے، اقوام کی توہین اور قبضے کو جواز دینے کا اعلان تھا۔
اس واضح انحراف کے جواب میں، عالمی سطح پر شہید نصر اللہ ایوارڈ قائم کرنے کی تجویز پیش کی جاتی ہے۔ یہ ایوارڈ ان افراد کے لیے ہو گا:
وہ مجاہدین جو میدان جنگ میں غاصبوں کو پیچھے دھکیلتے ہیں۔
میڈیا کے وہ کارکنان جو ملبے کے نیچے سے سچائی بیان کرتے ہیں۔
وہ مائیں جو اپنے شہید فرزندوں کو فخر سے رخصت کرتی ہیں۔
وہ نوجوان جو یونیورسٹیوں، سڑکوں اور عالمی نیٹ ورکس پر سید الشہداء (ع) کے پرچم کو بلند رکھتے ہیں۔
وہ دانشور جو قلم کے ذریعے مزاحمت کی داستان کو عالمی بناتے ہیں۔
اور عالمی صمود کے کاروان کے وہ فعال ارکان جو مختلف محاذوں پر تہذیبی اور میڈیا جہاد کو آگے بڑھاتے ہیں۔
عالمی شہید نصر اللہ ایوارڈ صرف ایک انعام نہیں، بلکہ تہذیبی، میڈیا اور ایمانی جہاد کے راستے میں ایک تحریک ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ انعام کسے دیا جائے گا؟
یہ انعام ان لوگوں کو دیا جائے گا جو عالمی طاغوتی محاذ کے مقابلے میں، تہذیبی جہاد کے ذریعے ہر پہلو سے مظلوموں اور محروموں کی انسانی حمایت کرتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے نوبل انعام کے متعلق فرمان کے مطابق:
(میانمار): اس (برمی) حکومت کی سربراہ بھی ایک عورت (آنگ سان سوچی) ہے جس نے (امن) کا نوبل (انعام) لیا ہے۔ انہوں نے اس ایوارڈ کے ساتھ ہی گویا (امن کے) نوبل انعام اور نوبل کی فاتحہ پڑھ دی ہے۔ اتنے بے رحم انسان کو امن کا نوبل انعام دینا! عورت ہو کر اور اتنی بے رحم! انسان واقعی حیران ہوتا ہے اس حالت پر جس میں دنیا کی انسانیت مبتلا ہے۔ 21/06/1396 شمسی
وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِینَ عَلَی الْقَاعِدِینَ أَجْرًا عَظِیمًا (۹۵) دَرَجَاتٍ مِنْهُ وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً وَکَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِیمًا
(النساء: ۹۶)
وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِینَ
(التوبة: ۱۱۲)
عباس کعبی
18 / 7 / 1404 شمسی / 10 اکتوبر 2025ء









آپ کا تبصرہ