تحریر: عبدالرحیم اباذری
حوزہ نیوز ایجنسی I ان دنوں جب ہم غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کی ایران پر جارحیت کا مشاہدہ کر رہے ہیں، تو میرا ذہن بے اختیار آٹھ سالہ جنگ اور صدام حسین کی جارحیت کی طرف چلا گیا۔
جنگ شروع ہونے سے کچھ عرصہ پہلے، 1980ء کے ماہِ ستمبر میں، میں فوجی خدمت کے دوران خرم آباد کے بدر آباد چھاؤنی میں موجود بریگیڈ 184 کے بٹالین 182 میں سپاہی کے طور پر تعینات تھا۔
کیونکہ صدام کی جانب سے حملے کی خبریں وقفے وقفے سے آ رہی تھیں، اس لیے 30 اگست کو ہمارا بٹالین بارڈر کے علاقے "مهران" کی طرف روانہ ہوا۔ ہر یونٹ کو اس کی مخصوص جگہ پر تعینات کیا گیا۔ تین پیادہ کمپنیاں "بهرام آباد" پوسٹ کے قریب جنوب مشرقی مهران کے علاقے میں تعینات ہوئیں، اور ہم، جو 120 ملی میٹر مارٹر یونٹ میں تھے، نے اپنے ہتھیار عراق کے زیر قبضہ "زالو آب" اور "کانی سخت" کی پہاڑیوں کے پیچھے نصب کیے۔
22 ستمبر 1980 کو دشمن نے زمینی و فضائی حملوں کے ساتھ ایک ہمہ گیر جنگ چھیڑ دی۔ عراق کے جنگی طیاروں نے تہران اور دیگر بڑے شہروں کے ہوائی اڈوں پر حملے کیے۔ ان دنوں ایرانی فوج کی حالت نہایت نازک تھی، سپاہ پاسداران ابھی پوری طرح منظم بھی نہیں ہوئی تھی، صدام نے چند دنوں میں کئی سرحدی علاقوں کو روند ڈالا اور خرمشہر و مهران جیسے شہروں پر قبضہ کر لیا۔
ادھر ملک کے اندر بھی حالات نہایت خراب تھے: کردستان میں بغاوت، خوزستان میں عرب قوم پرستوں کی شورش، آذربائجان میں حزب خلق مسلمان کی سرگرمیاں، اور مجاہدین خلق کی مسلح بغاوت، سب اکٹھے ملک کے نوزائیدہ اسلامی نظام کے لیے ایک کٹھن آزمائش بنے ہوئے تھے۔
ان سب چیلنجز کے باوجود، عوام نے خطرے کو محسوس کیا اور ہر طبقے کے لوگ میدان میں اُتر آئے۔
میں نے خود اپنی آنکھوں سے ایلام کے عشائر کا پہلا رضاکار قافلہ دیکھا جو بندوقیں، کارتوسوں کی بیلٹیں اور ایک آنکھ والا دوربین لیے چند منی بسوں میں "گلان" کے علاقے میں ہمارے پاس پہنچا۔ ان کی قیادت مرحوم آیت اللہ حیدری، ایلام کے جید عالم، کر رہے تھے۔
اس نہایت دشوار دور میں، ہماری فوج اور سپاہ نے محدود وسائل اور تقریباً خالی ہاتھوں کے ساتھ عوامی بسیج کی پشت پناہی سے بہت تیزی سے خامیوں کو دور کیا، اور بے مثال استقامت کے ساتھ دشمن سے چھینے گئے علاقوں کو آزاد کرایا۔
یہ تمہید میں نے اس لیے باندھی کہ آج، 45 سال بعد، جب ایک مرتبہ پھر ہمیں اسرائیل جیسے بچوں کے قاتل اور غاصب صہیونی دشمن کی جارحیت کا سامنا ہے، تو الحمد للہ ہمارے دفاعی و فوجی ادارے اس وقت کے مقابلے میں کہیں زیادہ منظم، مضبوط، تجربہ کار، باصلاحیت اور نِت نئے دفاعی ایجادات سے لیس ہیں، جن کی طاقت نے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔
ہم 1980 میں ایک خاردار تار کے بھی محتاج تھے، اور جیسے کہا جاتا ہے، ہم ایک "لوٹا" بھی خود نہیں بنا سکتے تھے۔ لیکن آج، ہم میزائل ٹیکنالوجی میں دنیا کی صف اول کی قوموں میں شمار ہوتے ہیں، اور حالیہ دفاعی کارروائیوں میں تو صرف اس طاقت کا ایک مختصر سا حصہ ہی سامنے آیا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ساری ٹیکنالوجی ہماری اپنی قومی اور مقامی صنعت سے، ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں بنی ہے، اور ہمیں کسی غیر ملکی پر انحصار نہیں۔
جیسے آٹھ سالہ جنگ کے دوران تمام مغربی ممالک، یورپ اور حتیٰ کہ اُس وقت کا سوویت یونین (یعنی آج کی روس) صدام کی کھلی حمایت کر رہے تھے، آج بھی یہی قوتیں علانیہ یا خفیہ طور پر نیتن یاہو اور اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔
مگر جیسا کہ اُس وقت ان کی حمایت ایرانی قوم کی عزم و ارادہ کو توڑ نہ سکی اور انہوں نے خاک چاٹی، آج بھی وہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ ایران کے فرزندان کی داغ دار، ظالم شکن اور جابر ستیز میزائلوں کے سامنے یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بے بس ہیں، اور ان کے محفوظ سمجھے جانے والے ٹھکانوں پر نشانے لگ رہے ہیں۔
ہم اس وقت ایک نازک جنگی مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے مجاہد و شجاع جوانوں کی یہ دفاعی جدوجہد کامیابی اور فتحِ کامل تک پہنچے، تو سب سے پہلا فرض ملی اتحاد اور مختلف طبقات و نظریات کے درمیان ہم آہنگی ہے۔
آج اگر کوئی آواز اختلاف یا تفرقے کی بلند ہوتی ہے، وہ بلا شبہ ہماری اپنی صفوں کو کمزور اور دشمنوں کو تقویت دے گی۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ آج کل مختلف مجازی گروپس (سوشل میڈیا وغیرہ) میں بعض افراد غیر ذمہ دارانہ، جذباتی اور ناسمجھی پر مبنی تبصرے کرتے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بیشتر کی نیت پر شک نہیں، مگر جنگ جیسے حساس حالات میں ضروری ہے کہ ہم تمام فیصلوں کا اختیار ان افراد کو سونپیں جو ذمہ دارانِ نظام ہیں، اور جو رہبر معظم کی براہِ راست سرپرستی میں کام کر رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ صرف ان کے فیصلوں پر توجہ دیں اور اُن کے اعلانات کے منتظر رہیں۔
مجھے یاد ہے کہ فوج میں ایک اصول تھا:"جنگ کے وقت، تمام آنکھیں اور کان صرف کمانڈر پر مرکوز ہونے چاہئیں، اور اُس کے حکم سے تجاوز نہ کیا جائے، چاہے وہ فیصلہ بظاہر غلط ہی کیوں نہ لگے؛ کیونکہ جنگ کے دوران اختلافِ رائے، میدان جنگ کو شکست سے دوچار کر سکتا ہے۔"









آپ کا تبصرہ