تحریر: سید تصور نقوی
حوزہ نیوز ایجنسی| دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ یہ وہی دنیا ہے جو کبھی عالمی طاقتوں کے رحم و کرم پر تھی۔ جہاں بڑی قوتیں اپنی فوجی ہیبت، معاشی جبر اور سفارتی رعونت کے ذریعے کمزور قوموں کو اپنے تابع کر لیتی تھیں۔ طاقتوروں کا حکم قانون ہوتا، اور مظلوموں کی آہ بھی سنی ان سنی کر دی جاتی تھی۔ مگر اب وہ دور بیت چکا ہے۔
آج نہ واشنگٹن کی گرج پہلے جیسا رعب رکھتی ہے، نہ دہلی کی دھمکیاں خوف پیدا کرتی ہیں، اور نہ ہی تل ابیب کے ناقابل تسخیر ہونے کی کہانیاں سچ محسوس ہوتی ہیں۔یہ دنیا اب یک قطبی نہیں رہی اور یہ تبدیلی محض سیاسی نہیں، فکری، عسکری اور نظریاتی انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔
امریکہ، جو دو دہائیوں تک افغانستان کی سنگلاخ وادیوں میں اپنی عسکری طاقت آزماتا رہا، آخرکار طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال کر نکلنے پر مجبور ہوا۔ یہ محض ایک فوجی پسپائی نہ تھی، بلکہ مغربی سامراجی ذہنیت کی تاریخی شکست تھی۔ ایک نظریاتی پسپائی، جس نے دنیا کو یہ دکھا دیا کہ جذبہ ایمان ٹیکنالوجی سے زیادہ کارگر ہو سکتا ہے۔
اور اب اسرائیل جو خود کو ناقابل تسخیر سمجھتا تھا اس کے جدید ترین دفاعی نظام، آئرن ڈوم، میزائل شیلڈز اور انٹیلیجنس کی تمام برتری کے باوجود پے در پے حملوں سے لرز اٹھا۔ ایران نے جو کیا، وہ صرف عسکری کامیابی نہیں، بلکہ نفسیاتی فتح بھی تھی۔ بیلسٹک میزائل، ڈرونز اور ہائیپر سونک کی بارش نے تاریخ کا پانسا پلٹ دیا ہے۔
ان تاریخی واقعات نے ایک اٹل پیغام دیا ہے کہ اب صرف طاقت کی فتح نہیں ہوتی، بلکہ اب جذبہ، مزاحمت، حریت فتح یاب ہوتے ہیں۔ اب مظلوم کی آہ، ظالم کی گرج سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔اب دنیا بیدار ہو رہی ہے۔
عالمی استبداد، جبر، اور دھونس پر قائم کلچر اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ اقوام، جو صدیوں سے غلامی، خوف اور استعمار کے سائے میں جکڑی ہوئی تھیں، اب بیدار ہو رہی ہیں۔ ان میں شعور جاگ رہا ہے، خودمختاری کا جذبہ انگڑائی لے رہا ہے، اور آزادی کی نئی صبح نمودار ہو رہی ہے۔
یہ ایک نیا دور ہے کہ جہاں دلوں کی دھڑکنیں اب طاقت کی ڈر سے نہیں، حق کے لیے تیز ہوتی ہیں۔جہاں قومیں اب خوف سے نہیں، اُمید سے، ایمان کی طاقت سے، جذبے سے، حمیت و غیرت سے جیتی ہیں۔
حالیہ دنوں میں ایرانیوں نے قیمتی خون دے کر تاریخ کا دھارا موڑا ہے۔ “دفاعی دیو” اسرائیل کا بھرم ٹوٹ چکا۔ دفاعی دیو کہلانے والا اسرائیل، جو دہائیوں سے خطے پر اپنی دھونس جمانے کا عادی تھا، آج اپنے ہی بنائے ہوئے مورچوں میں سہما ہوا ہے۔ اُس کا غرور چکناچور ہو چکا ہے۔ پوری صیہونی ریاست ایک ٹانگ پر کھڑی ہے، اور مدد کے لیے اپنے آقاوں کو پکار رہی ہے اور دس گھنٹوں میں تین بار جنگ بندی کی پیشکش کی جا چکی ہے۔
ایرانی میزائلوں کے خوف سے اسرائیل کی ائیر لائن نے اپنے خالی جہاز فرار کروا دئیے، انتہا تو یہ کہ وزیراعظم کا جہاز بھی ملک سے باہر بھجوا دیا گیا ہے۔ آئرن ڈوم جدید اسلحہ دنیا بھر کی سپورٹ کے باوجود اسرائیلیوں کی ٹانگیں تنہا کھڑے ایران سے کانپ رہی ہیں اور ایران نے فرعونی طاقت کا بت پاش پاش کر دیا ہے۔
غزہ، لبنان اور یمن پر بم برسانے والوں کی چیخیں آسمان تک بلند ہو رہی ہیں۔ وہ جو معصوموں پر ظلم ڈھاتے تھے، آج خود وحشت اور دہشت کے تجربے سے گزر رہے ہیں۔ ای رانی میزائل کسی قیامت کی گھنٹی کی مانند آتے ہیں، تاریکی میں گرجتے ہیں، اور صیہونی ریاست کے غرور کو نیست و نابود کر جاتے ہیں۔ تل ابیب، حیفہ سب سلگ رہے ہیں، جل رہے ہیں، اور ہر دھماکے کے بعد ایک پیغام چھوڑ رہے ہیں: "ظلم کا دورانیہ اب ختم ہوا چاہتا ہے۔!!"
غزہ کے اوپر سے گزرنے والا ہر میزائل نیچے بسنے والے مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے ظالم کے سینے میں پیوست ہو رہا ہے۔ ظلم اور ظالم کے خلاف اعلان جنگ صیہونی ریاست کے ان شہریوں کو بھی متنبہ کر رہا ہے جو ستر سال سے غاصبانہ قبضے کو اپنا حق سمجھ بیٹھے تھے۔ اب وہی سرزمین ان کے لیے قبرستان بنتی جا رہی ہے۔ ایران، اپنے شہیدوں کے لہو کا حساب چکا رہا ہے۔ اس نے ظالم کو وہ درد چکھایا ہے جو غزہ، لبنان اور یمن والوں نے سہا۔
یہ وہ لوگ ہیں جو توحید کا اقرار کرتے ہیں اور اپنی زندگی اخلاص کے ساتھ یوں گزارتے ہیں کہ مشن مکمل ہونے کے بعد اللہ کے وعدے کے منتظر رہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ شہادت ان کے لیے کوئی نقصان نہیں بلکہ وہ اجر ہے جو کسی صورت ضائع نہیں ہوتا۔جو لوگ شہادت کا غسل چالیس سال پہلے کر کے بیٹھے ہیں، ایک عام سپاہی سے پہلے ایک کے بعد ایک جنرل قطار میں کھڑا ہے کہ اسے شہادت کب ملے گی. اسرائیل انہیں ڈرا رہا ہے، جو نا ممکن ہے۔ وہ قوم جو چھپنے کے لیے جگہ ڈھونڈ رہی ہے کیا مقابلہ کرے گی اس قوم کا جو میزائلوں کے سائے میں اپنے امام کو کھلے آسمان تلے کھڑے ہوکر لبیک کہہ رہی ہے۔
یہ وہی شخصیت ہے جسکے دیکھتے ہی دیکھتے اسکی فوج کی پہلی صف شہید ہو گئی، مگر پرچم نہ جھکا، حوصلے نہ ٹوٹے۔ اور پھر چوبیس گھنٹے کے اندر اندر صہیو نی دشمن کے آسمان گونج اٹھے۔ وہ گھن گرج دنیا نے سنی اور آئرن ڈوم کے پرخچے اڑ گئے۔
یہ نہ صرف ایران بلکہ مسلمانان جہاں کا رہبر، پورے عالم اسلام کا وقار، استقامت، اور غیرت کا استعارہ۔ وہ دشمن کو للکار رہا ہے، اور باقی مسلمان حکمرانوں کے سوئے ہوئے ضمیروں کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ اُس کی للکار درخواست نہیں، استغاثہ نہیں ایک تازیانہ ہے، امت مسلمہ کے ضمیر پر۔۔! وہ کہہ رہا ہے: "اٹھو۔! جاگو۔! اور دیکھو۔! تمہارے ساتھ کیا ہو رہا ہے، تمہاری باری آنے والی ہے۔! متحد ہو جاؤ، قبل اس کے کہ دیر ہو جائے۔"
آج جب دنیا کا ہر گوشہ خاموش ہے، جب بزدلی کو تدبیر اور مصلحت کا نام دیا جا رہا ہے، تب یہ مردِ مجاہد پوری دنیا کے طاغوتی قوتوں کے سامنے ڈٹا ہوا ہے۔ اس کا چہرہ بےخوف، نظریں پرعزم، دل پُراُمید، اور زبان بےباک ہے۔ ایران اسرائیل جنگ کا جو بھی نتیجہ ہو، لیکن اس شخصیت نے ثابت کیا کہ وہ طاغوتی قوتوں کے سامنے نہ جھکا، نہ بکا، نہ رکا، اور امت کو جگا گیا، اور تاریخ کے اوراق پر اسکا نام ہمیشہ کے لئے سنہرے حروف میں لکھا جا چکا۔ ۔!!









آپ کا تبصرہ