نیتن یاہو اور اس کے سرپرستوں نے ایران میں رجیم چینج کا جو خواب دیکھا تھا، اس کی تعبیر کا امکان پیدا ہوا یا نہیں؟

حوزہ/پاکستانی معروف کالم نگار اور ٹی وی تجزیہ نگار ڈاکٹر فاروق عادل نے غاصب اسرائیل کی جنگ کے تناظر میں کی جانے والی سازشوں پر ایک خوبصورت تجزیہ کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

تجزیہ نگار: ڈاکٹر فاروق عادل

حوزہ نیوز ایجنسی|

نیتن یاہو اور اس کے سرپرستوں نے رجیم چینج کا جو خواب دیکھا تھا، اس کی تعبیر کا امکان پیدا ہوا ہے یا نہیں؟ جنگ کے چوتھے روز اس سوال کا جواب نسبتاً آسان ہو گیا ہے۔

نیتن یاہو نے اپنے منصوبے کو اخفا میں رکھنے کی ضرورت شروع سے ہی محسوس نہیں کی تھی۔ پہلے دن ہی کہہ دیا تھا کہ یہ حملہ عوام کے خلاف نہیں ہے، بلکہ آیت اللہ اور ان کی حکومت کے خلاف ہے۔ اس لیے یہ بہترین وقت ہے کہ عوام حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔

بات یہاں تک رکی نہیں!

عالمی ذرائع ابلاغ پر اس موضوع پر رپورٹیں بھی شائع ہونے لگیں؛ ان میں بی بی سی فارسی کی ایک رپورٹ توجہ طلب ہے جس میں کچھ خواتین کے انٹرویو شامل تھے جن میں بتایا گیا تھا کہ عوام بہت بے چین ہیں اور یہ کہ حکمرانوں کو عوام کی کوئی فکر نہیں۔

بی بی سی کی ایک روایت بہت شاندار ہے، غیر جانب داری یا تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنا۔ کیا یہ اتفاق ہے کہ اس رپورٹ میں تصویر کا صرف ایک ہی رخ پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں ان بڑے بڑے مظاہروں کا کوئی ذکر نہیں ملتا جو حکومت کے حق میں ہوئے ہیں۔

پہلی بار عوام اس وقت سڑکوں پر نکلے جب پہلے غیر ملکی حملے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی اور تزویراتی نقصان ہوا۔

عوام نے حکومت سے مطالبہ کیا وہ دشمن کو بھرپور جواب دے۔ تل ابیب اور دیگر مقامات پر بھرپور میزائل حملے کے بعد عوام تشکر کے جلوس نکالے۔ عوام کے دونوں قسم کے مظاہرے حکومت کے حق میں تھے۔

اس رپورٹ میں ان مظاہروں کا ذکر بھی ہو سکتا تھا اور حکومت سے ناراض لوگوں سے متوازی رائے رکھنے والوں کے انٹرویو بھی کیے جا سکتے تھے، لیکن یہ رپورٹ روایت سے بالکل ہٹ کر ہے۔ ایسا کیوں کیا گیا؟

یہ سوال اہم ہے!

اس کی مدد سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آیت اللہ کی حکومت کے بارے میں عزائم کیا تھے۔

سوال یہ ہے کہ ان عزائم کی تکمیل کی جانب کتنی پیش رفت ہوئی ہے؟ حملہ آور کی توقع یقیناً یہی رہی ہوگی کہ جیسے جیسے جنگ پھیلتی جائے گی، حکومت کمزور ہوتی جائے گی اور عوام حکومت کا گھیراؤ کر کے اسے بے بس کر دیں گے۔

اس مقصد کے لیے نہ نیتن یاہو کی اپیلیں کام آئیں اور نہ سابق شاہ رضا شاہ پہلوی کے بیٹے رضا پہلوی کی اچھل کود۔ وہ احمق تو تل ابیب جا کر نیتن یاہو کے چرنوں میں ہی بیٹھ گیا۔

ان واقعات کے بعد رجیم چینج کے ضمن میں عوام کے ذہنوں میں اگر کوئی شک بھی ہوگا تو وہ دور ہو گیا اور ان کی سمجھ میں آ گیا کہ یہ تو ان کے ملک کو صیہونیوں کی گرفت میں دینے کے منصوبے ہیں۔

نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کی سب سے بڑی مخالف جماعت بائیں بازو کی تودہ پارٹی نے بھی رجیم چینج منصوبے کی کھل کر مخالفت کر دی۔

اس صورتحال کا اصل پہلو میدان جنگ سے ہے۔ عمومی تاثر یہی تھا کہ جارحیت کے نتیجے میں آیت اللہ کی حکومت بے دست و پا ہو جائے گی۔

اس حملے کا جواب میزائل حملوں سے دیا گیا۔

دنیا نے یہ حملے ٹیلیویژن کی اسکرینوں پر براہ راست دیکھے۔ لوگوں نے ان میزائلوں کو فضا میں ناکارہ ہوتے بھی دیکھا اور تل ابیب پر گرتے ہوئے بھی۔

ابتدائی اندازہ یہی تھا کہ یہ نقصان بہت معمولی ہے جب کہ فارس کو پہنچنے والا نقصان اس کے مقابلے میں بہت زیادہ تھا۔ اس لیے عمومی خیال یہی تھا کہ حملہ آور کی کام یابی سامنے کی بات ہے، لیکن جیسے جیسے میزائل کے حملے بڑھتے گئے، صورت حال بدلتی گئی اور عالمی نشریاتی اداروں کو لائیو کوریج سے روک دیا گیا۔

یہ اس بات کا پہلا طاقتور اشارہ تھا کہ میزائل حملے کارگر ہو رہے ہیں۔

اس کے بعد عالمی طاقتوں نے اپنی تمام تر منافقت کے باوجود جنگ بندی کے اشارے دینے شروع کر دئیے۔

برطانیہ اگرچہ اپنا تباہ کن بحری بیڑا ڈسٹرائر مشرق وسطیٰ روانہ کر چکا تھا، لیکن اس کے باوجود اس نے کہا کہ اب تحمل اور سفارت کاری کو موقع دیا جائے۔

یہی مرحلہ تھا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ اسی قسم کی ڈیل کروانا چاہ رہے ہیں جیسی ڈیل انھوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کروائی تھی۔

ان اشاروں سے واضح ہوا:

1- عالمی طاقتیں جنگ بندی پر آمادہ ہو چکی ہیں۔

2- اس کا دوسرا واضح مطلب یہی تھا کہ رجیم چینج کی سازش دم توڑ چکی ہے۔

ڈیل کے بارے میں بیان دینے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر یہ کہا ہے کہ وہ نیتن یاہو کا ساتھ دے سکتے ہیں۔

اس امر میں کیا شبہ ہے کہ امریکا اس کا حلیف ہے، لیکن میدان جنگ میں ایران کی طرف سے غیر متوقع کارکردگی سامنے آنے کے بعد اب یہ لوگ اپنے حلیف کے تحفظ کی فکر میں ہیں۔ یہ تحفظ جنگ بندی اور ڈیل کی صورت میں ہی ممکن ہے۔

ٹرمپ نے ڈیل کے اعلان کے بعد اگرچہ ایک بار پھر اپنے حلیف کے ساتھ جانے کی بات کی ہے۔ یہ بیان امریکہ حکومت کا سرکاری بیان نہیں ہے، آف دی ریکارڈ قسم کی بات ہے۔

اندازہ ہے کہ ٹرمپ نے یہ بات دھمکی دینے کے لیے کہی ہے، تاکہ کوئی فریق جنگ بندی میں رکاوٹ نہ بنے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رجیم چینج کا منصوبہ خاک میں مل چکا اور دوسرا یہ کہ جنگ بندی اب دور نہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha