ایران-اسرائیل 12 روزہ جنگ؛ ایک ناقابلِ انکار فتح

حوزہ/اسلامی جمہوریہ ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ بارہ روزہ جنگ مشرقِ وسطیٰ کی نئی تزویراتی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ معرکہ صرف میزائلوں اور فضائی حملوں کا تبادلہ نہیں تھا، بلکہ سیاسی تدبیر، قیادت کی بصیرت اور قومی استقامت کا امتحان بھی تھا، جس میں ایران کامیاب و سربلند نظر آیا۔

یادداشت: ڈاکٹر محمد نذیر اطلسی

حوزہ نیوز ایجنسی| اسلامی جمہوریہ ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ بارہ روزہ جنگ مشرقِ وسطیٰ کی نئی تزویراتی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ معرکہ صرف میزائلوں اور فضائی حملوں کا تبادلہ نہیں تھا، بلکہ سیاسی تدبیر، قیادت کی بصیرت اور قومی استقامت کا امتحان بھی تھا، جس میں ایران کامیاب و سربلند نظر آیا۔

آغازِ جنگ: پسِ پردہ سازش

اسرائیل نے امریکی آشیرباد کے سائے میں ایران پر اُس وقت حملہ کیا جب ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات جاری تھے۔ اس حملے میں اسرائیل نے نہایت مخصوص اور ناپاک مقاصد کو سامنے رکھا۔ ایرانی جوہری سائنسدانوں، حساس اداروں، اور یہاں تک کہ ملک کے آرمی چیف کو شہید کیا گیا۔ یہ ایک کھلی جارحیت تھی، جس کا مقصد ایران کو اندرونی بحران میں مبتلا کرنا، مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنا، اور دنیا کو ایران کی کمزوری دکھانا تھا۔

قیادت کا فوری اور حکیمانہ فیصلہ

ایران کے اندر حالات اس حد تک نازک ہو چکے تھے کہ اگر یہی صورتحال کسی اور ملک پر طاری ہوتی تو اس کا پورا نظام درہم برہم ہو جاتا۔ لیکن ایران کی قیادت، خصوصاً رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای دام ظلہ نے ابتدائی چند گھنٹوں میں ہی اپنے تدبر، بصیرت اور عزم کے ساتھ ملک کے تمام اعلیٰ عسکری اداروں کو منظم کیا۔ نئے جرنیلوں کی فوری تعیناتی، جنگی حکمت عملی کی از سرِ نو تشکیل، اور قومی سطح پر اتحاد نے واضح کر دیا کہ ایران نہ صرف زندہ ہے، بلکہ پوری قوت سے جواب دینے کو تیار بھی ہے۔

عسکری محاذ پر جوابی کاروائی

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی اور ایران کی باقاعدہ فوج نے نہایت منظم اور ہم آہنگ انداز میں جوابی کارروائی کی۔ اسرائیل کی عسکری چالیں ناکام ہوئیں، اور اس کی آوازیں واشنگٹن کی دیواروں سے ٹکرائیں۔ ایران کی میزائل طاقت اور سائبر دفاع نے دشمن کو ایسی زک دی کہ اس کی عسکری قیادت حواس باختہ ہو گئی۔

امریکی صدر کا براہ راست حملہ اور اس کا انجام

صورتحال کی شدت کو دیکھتے ہوئے امریکہ نے بذاتِ خود میدان میں آ کر ایران کے چار اہم ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فخریہ اعلان کیا کہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ ایران نے فوری ردعمل دیتے ہوئے قطر، بحرین، عراق اور شام میں موجود امریکی اڈوں پر میزائل برسائے، جس نے امریکہ کی عسکری حیثیت کو شدید دھچکا پہنچایا۔

اسرائیل کی پسپائی اور عالمی خفت

اس دوران اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایران پر حتمی بمباری کے لیے اپنے بمبار طیارے فضا میں روانہ کیے، لیکن امریکی دباؤ اور اندرونی ناکامیوں کے باعث انہیں واپس بلا لیا گیا۔ نتیجتاً اسرائیل نہ صرف اپنے کسی بھی ہدف میں کامیاب نہ ہو سکا بلکہ اسے عالمی سطح پر شدید خفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

نتیجہ: شکستِ دشمن، فتحِ ایران

ان تمام واقعات کا جائزہ لینے سے واضح ہوتا ہے کہ دشمن جن اہداف کے حصول کے لیے آیا تھا، ان میں سے ایک بھی مقصد حاصل نہ کر سکا۔ نہ ایران کا نظام بکھرا، نہ قیادت کمزور ہوئی، نہ عوام میں انتشار پیدا ہوا، اور نہ ہی ایٹمی صلاحیت کو نقصان پہنچایا جا سکا۔ اس کے برعکس، ایران نے اپنی عسکری طاقت، قیادت کی بصیرت اور عوامی وحدت سے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا۔

لہٰذا، یہ بات پوری قطعیت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس 12 روزہ جنگ کا حقیقی فاتح اسلامی جمہوریہ ایران

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha