۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
جوہری ہتھیار

حوزہ/ ویانا میں اقوام متحدہ کے ادارے میں کویت کے مستقل نمائندے نے ایک بار پھر عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ صیہونی حکومت کو ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں شامل ہونے پر مجبور کرے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، (NPT)جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا مخفف ہے۔ این پی ٹی معاہدہ عالمی ممالک کے لیے یکم جولائی 1968 کو دستخط کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا اور اس تاریخ کو امریکہ، انگلینڈ اور دنیا کے 59 دیگر ممالک نے اس پر دستخط کیے تھے۔

یہ معاہدہ 5 مارچ 1970 کو امریکی پارلیمنٹ میں اس کی توثیق کے بعد عمل میں آیا۔ اس وقت 186 ممالک اس معاہدے کے رکن ہیں۔ صرف کیوبا، صیہونی حکومت، ہندوستان اور پاکستان اس معاہدے کے رکن نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ شمالی کوریا بھی چند سال قبل اس معاہدے سے دستبردار ہو گیا تھا۔ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے مقصد سے اس معاہدے کی توثیق اور عمل درآمد کیا گیا ہے۔

صیہونی حکومت کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور متعدد رپورٹس کے مطابق اس کے پاس 200 سے 400 کے درمیان جوہری وار ہیڈز ہیں لیکن حکومت نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) میں شمولیت سے انکار کیا ہے۔ اب تک مختلف ممالک نے تل ابیب کو این پی ٹی میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن یہ حکومت ان اقدامات سے انکار کرتے ہوئے ایران جیسے ممالک کی مخالفت کر رہی ہے اور بین الاقوامی سطح پر پروپیگنڈہ پھیلا رہی ہے ۔

اب تک مغربی ایشیائی خطے کے کئی ممالک بشمول ایران، کویت اور قطر نے تل ابیب کو این پی ٹی میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن مغربی طاقتیں، خاص طور پر امریکہ، حکومت پر این پی ٹی میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کو بین الاقوامی اداروں بشمول بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی سے چھپانے کی بھی حمایت کرتا ہے۔ درحقیقت یہ حمایت صیہونی حکومت کی این پی ٹی میں شامل نہ ہونے کی ایک اہم وجہ سمجھی جاتی ہے۔

حکومت کویت مغربی ایشیائی خطے کی ان حکومتوں میں سے ایک ہے جس نے NPT میں شامل نہ ہونے پر صیہونی حکومت کو بارہا تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کویت کے خیال میں اسرائیل کی جانب سے این پی ٹی معاہدے میں عدم شرکت اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی نگرانی سے باہر اس کی جوہری سرگرمیوں کو نہ صرف سیکیورٹی خطرہ سمجھا جاتا ہے بلکہ جوہری سلامتی اور انسانی صحت کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسرائیل کی جوہری سرگرمیوں کو مشرق وسطیٰ کے خطے کے لیے سٹریٹجک خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

اب ایک بار پھر کویت کی حکومت اور ویانا میں اقوام متحدہ کے ادارے میں کویت کے مستقل نمائندے طلال الفصام کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ صیہونی حکومت کی ایٹمی سرگرمیوں پر مکمل نظر رکھی جائے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .