۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
تنش آمریکا و سعودی

حوزہ/ اوپیک پلس ممالک کی طرف سے تیل کی پیداوار میں دو فیصد کمی کے حالیہ فیصلے کی وجہ سے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اوپیک پلس ممالک کے حالیہ فیصلے کے بعد جو بائیڈن کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب کے حوالے سے اپنے اختیارات کا جائزہ لے گی۔ "اوپیک پلس" بلاک کے رکن ممالک نے 5 اکتوبر کو تیل کی پیداوار دو فیصد کم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

اس معاہدے کے مطابق یومیہ 20 لاکھ بیرل کم تیل مارکیٹ میں برآمد کیا جائے گا۔ یہ ایسی سیاست ہے کہ پہلی نظر میں بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھے گی اور امریکہ کی مرضی کے خلاف روس کو فائدہ پہنچے گا۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے پیرو کے اپنے ہم منصب کے ساتھ مشترکہ ملاقات میں کہا ہے کہ سعودی عرب اور اوپیک پلس میں اس کے شراکت داروں نے تیل کی زیادہ خریداری کے امریکی مطالبے کے باوجود تیل کی پیداوار کم کرنے پر اتفاق کیا ہے ، ہم سعودی عرب کو جواب دینے کے لیے مختلف اختیارات اور آپشنز کا جائزہ لیں گے اور اس پر ہم کانگریس کے ساتھ وسیع پیمانے پر مشورہ کر رہے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ نے اس بارے میں کوئی اشارہ نہیں دیا کہ اوپیک پلس کے حالیہ فیصلے کے بعد واشنگٹن کیا کرے گا، تاہم کچھ امریکی سیاست دانوں نے تجویز پیش کی ہے کہ امریکہ سعودی عرب کو ہتھیاروں کی امداد بند کرے۔

گزشتہ رات ایک پریس کانفرنس میں بارہا پوچھا گیا کہ کیا امریکہ سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کر دے گا تو اس کا جواب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کے معاون نے ٹال دیا۔ تاہم اوپیک پلس معاہدے کے فوراً بعد تیل کی فی بیرل قیمت میں تین ڈالر کا اضافہ اس طرح ہوا کہ تیل کی فی بیرل قیمت 93 ڈالر تک پہنچ گئی۔

واضح رہے کہ تیل برآمد کرنے والے اوپیک کے 13 رکن ممالک کے علاوہ دنیا میں تیل برآمد کرنے والے دیگر 11 ممالک ہیں جن میں روس سرفہرست ہے اور یہ ممالک سال 2016 کے آخر سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔سعودی عرب اوپک کا سب سے بڑا تیل برآمد کنندہ ہے اور سعودی عرب نے اوپک پلس کے حالیہ فیصلے میں اہم کردار ادا کیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .