۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
ایران اسرائیل سرد جنگ

حوزہ/ خدا ایران کے ساتھ ہے۔‘‘ جب خدا ایران کے ساتھ ہے تو پھر ایران سے پنگا لینے کا مطلب ہے کہ آپ قدرت کے خلاف محاذ آرائی کر رہے ہیں۔ جس میں یقیناً شکست ان کا مقدر ہوگی، جو ’’خدا والوں‘‘ کے مدمقابل ہوں گے۔

حوزہ نیوز ایجنسی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2018ء میں ایران کیساتھ جوہری معاہدہ ختم کرنے کے بعد اب دوبارہ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ ایران کے جوہری معاہدے کے چیف مذاکرات کار نے حالیہ مذاکرات کو ’’مثبت پیشرفت‘‘ قرار دیا ہے۔ 2015ء میں ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان طے پانیوالے جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے ایران اور دیگر ممالک کے درمیان مذاکرات کا آغاز ایک بار پھر ویانا میں جمعرات کو ہوا۔ ٹرمپ نے جس معاہدے کو ختم کر دیا تھا، جو بائیڈن نے اقتدار سنبھالتے ہی اسے بحال کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ حالیہ مذاکرات میں امریکہ نے الزام عائد کیا کہ ایران مذاکرات میں ہونیوالی پیشرفت سے پیچھے ہٹ رہا ہے، جبکہ ایران نے اس حوالے سے کہا تھا کہ وہ مذاکرات کے عمل میں سنجیدہ ہے۔ چیف مذاکرات کار علی باقری نے واضح کہا کہ فریقین ان معاملات پر اتفاق رائے پر پہنچنے والے ہیں، جو ایجنڈے میں ہونے چاہیئں۔ انہوں نے کہا کہ یہ اچھی پیشرفت ہے کہ کیونکہ ابتداء میں تو دونوں میں یہ بات بھی طے نہیں ہو رہی تھی کہ ایجنڈا کیا ہوگا۔

ایران نے مذاکرات میں دو مسودے پیش کیے ہیں، ایک پابندیوں کے حوالے سے اور ایک اس کی جوہری سرگرمیوں کے حوالے سے ہے۔ ادھر پی فور نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ ایران کے پاس وقت ختم ہو رہا ہے، ایران مذاکرات میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ 2015ء میں طے پانے والے معاہدے کا مقصد ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنا تھا۔ ایران روزِ اول سے ایسے فعل کی تردید کرتا آیا ہے، ایران کا موقف واضح ہے کہ اس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں تو وہ اپنے جوہری پروگرام کو اقوام متحدہ کی نگرانی میں لانے کیلئے تیار ہے۔ پی فور اور ایران کے درمیان ہونیوالے اس مذاکراتی عمل کے مثبت اشارے مل رہے ہیں، جس پر اسرائیل کو پریشانی کا سامنا ہے۔ اسرائیل نہیں چاہتا کہ ایران پر اقتصادی پابندیاں ختم ہوں، ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعے یہ معاہدہ ختم کروانے میں بھی اسرائیل کا ہی کردار تھا۔

اب جب دوبارہ معاملات بہتری کی جانب جا رہے ہیں، اسرائیل رنگ میں بھنگ ڈالنے کیلئے تیار ہو گیا ہے۔ اسرائیل نے اب ایران پر حملے کی دھمکی دیدی ہے۔ اس حملے کی تیاری کے سلسلہ میں ہی اسرائیلی وزیراعظم یو اے ای پہنچے ہیں۔ اسرائیل خطے کے ممالک کو اپنا ہم نواء بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے حملے کی دھمکی کے بعد ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی کہا ہے کہ ایران کیخلاف اسرائیل کی طرف سے کوئی فوجی کارروائی ہوئی تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ ترجمان نے کہا کہ ایران پر حملے کی دھمکیاں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ کسی بھی حملے کی صورت میں ایران فیصلہ کن جواب دینے کی پوزیشن میں ہے۔ ترجمان سعید خلیل زاد نے ٹویٹر کے ذریعے مزید کہا کہ اسرائیلی رویہ مغربی حمایت کا نتیجہ ہے۔

اب اسرائیل ایران کو نفسیاتی طور پر خوفزدہ کرنے کیلئے اپنے پالتو صحافیوں کی خدمات بھی لے رہا ہے۔ کچھ صحافی اسرائیلی دفاعی نظام کو جیمز بانڈ کے کنٹرول روم سے تشبیہہ دے کر یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسرائیل ناقابل تسخیر ہے۔ لیکن وہ شائد بھول گئے ہیں کہ جنگیں ٹیکنالوجی سے نہیں جذبے سے لڑی جاتی ہیں اور ایران کے پاس شہادت کا جذبہ تمام اقوام سے زیادہ ہے۔ اسرائیل اور اس کے گماشتے شائد یہ بھول گئے ہیں کہ جب امریکہ نے اپنے سفارتکاروں کو چھڑوانے کیلئے ’’آپریشن ایگل کلا‘‘ کیا تھا تو اس کا انجام کیا ہوا تھا۔ اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے اپنے سفارتکاروں کو رہا کروانے کیلئے جدید ہیلی کاپٹرز کا انتخاب کیا تھا۔ کرنل چارلی بیک ود کو اس مہم کا سربراہ بنایا گیا تھا۔ آٹھ ہیلی کاپٹرز بھی روانہ کئے گئے، ان ہیلی کاپٹرز کیساتھ کیا ہوا، وہ امریکیوں نے اپنی کتابوں میں ذکر کر رکھا ہے کہ کس طرح ریت کے طوفانوں نے ان کی مہم کو ناکام بنا کر رکھ دیا تھا۔

امریکی یہ بھی مانتے ہیں اور کئی بار اس کا اعتراف و اعلان بھی کرچکے ہیں کہ ’’خدا ایران کے ساتھ ہے۔‘‘ جب خدا ایران کے ساتھ ہے تو پھر ایران سے پنگا لینے کا مطلب ہے کہ آپ قدرت کے خلاف محاذ آرائی کر رہے ہیں۔ جس میں یقیناً شکست ان کا مقدر ہوگی، جو ’’خدا والوں‘‘ کے مدمقابل ہوں گے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کے پاس انتہائی جدید ٹیکنالوجی ہے، اگر اسرائیل کے پاس اتنی جدید ٹیکنالوجی ہے تو اس کو استعمال میں لا کر نہتے یمنیوں سے اپنے دوست سعودی عرب کو ہی بچا لیتا؟ سعودی عرب کی قیادت میں جو چالیس ملکوں کا اتحاد یمن کے مٹھی بھر حوثیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکا، وہ جدید میزائل ٹیکنالوجی کے حامل ایران کا کیا بگاڑ لیں گے۔ ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد نے ایک بار کہا تھا کہ اگر اسرائیل نے ایران پر حملے کی حماقت کی تو ساڑھے تین منٹ میں اسرائیل کا وجود صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔ اسرائیل کو یہ بات اچھی طرح یاد ہے۔
اسرائیل کبھی بھی ایران پر حملے کی حماقت نہیں کرے گا۔ ایران تو جنرل قاسم سلیمانی اور ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ کا بدلہ لینے کیلئے بہت زیادہ بے تاب ہے۔ یہ بے تابی ایرانی فوج میں بدرجہ اتم پائی جا رہی ہے۔ اسرائیل کا ایران پر حملہ خود اسرائیل کی نابودی کی بنیاد بنے گا۔ رہ گئی خطے کے ممالک کی بات تو یو اے ای میں اتنا دم نہیں کہ ایران کیساتھ چھیڑ خوانی کرے، سعودی عرب نے یمن میں ہزیمت اٹھا کر ایران کی قوت کا صرف ٹریلر دیکھا ہے، ابھی پوری فلم تو باقی ہے۔ عراق، شام اور لبنان کی حمایت ایران کیساتھ ہی ہوگی۔ یمن بھی پہلے سے ہی ایران کیساتھ ہے۔ فلسطین سے حماس بھی ایران کا بازو ہے۔ ایسے میں اسرائیل جو ایران کو گھیرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، خود پہلے ہی ایران کے سخت گھیرے میں آیا ہوا ہے۔ اسرائیل نے اپنی بقاء کیلئے ہمیشہ جھوٹ کا سہارا لیا ہے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے سابق سربراہ یوسی کوہن نے جون میں ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ ایرانی کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے میں اسرائیل کا ہاتھ ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم ایران کے جوہری سائنسدانوں کو پیش کش کرتے ہیں کہ وہ یہ شعبہ چھوڑ کر کوئی اور کام کرلیں تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔

حیرت ہے، یوسی کوہن یہ بات اس انداز میں کر رہا ہے کہ جیسے وہ گن لے کر ایرانی سائنسدانوں کے سر پر کھڑا ہے۔ اسرائیلی ایسے جھوٹے اور بے بنیاد بیانات دے کر نفسیاتی طور پر ایران کو خوفزدہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کے چینل 12 کے پروگرام ’’عودہ‘‘ میں انٹرویو دیتے ہوئے بے سرو پا بات کہی کہ بہت سے ایرانی سائنسدان ہمارے کہنے پر ایٹمی پروگرام سے ملازمت چھوڑ چکے ہیں، جبکہ حقیقت میں کوئی ایک بھی سائنسدان ایران کے ایٹمی پروگرام سے الگ نہیں ہوا، بلکہ محسن فخری زادہ کی شہادت کے بعد نوجوانوں میں اور زیادہ رجحان بڑھا ہے کہ وہ سائنس کے اس شعبہ میں کام کریں۔ اس حوالے سے ایرانی یونیورسٹیوں میں طلبہ کے رجحان کا اندازہ ان کے شعبے کے انتخاب سے واضح لگایا جا سکتا ہے۔ اسرائیل تو موت کو زندگی کا خاتمہ سمجھتا ہے، اُس ایران کو موت سے ڈرا رہا ہے، جس کے بچوں کو یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ ’’جب ہم حق پر ہیں تو کیا خوف کہ موت ہم پر آن پڑے یا ہم موت پر جا پڑیں‘‘ اور حق کیلئے موت کو گلے لگانا ہی بقاء ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .