حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تحریک بیداری امت مصطفیٰ، جامعہ عروۃ الوثقیٰ اور مجمع المدارس تعلیم الکتاب والحکمہ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور میں نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں تعلیم کا شعبہ آغاز سے ہی محرومیت کا شکار رہا ہے، پاکستان کی تشکیل سے لے کر آج تک سب سے زیادہ محروم شعبہ تعلیم ہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے موجود نظام میں تعلیمی اداروں کی تاسیس، قواعد وضوابط پر عمل معطل ہے، تعلیمی نصاب کی طرف ضروری توجہ بھی نہیں دی جاتی، نہ ہی پڑھانے والوں کیلئے کوئی معیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ تعلیمی سسٹم کے حوالے سے بہت سے شکوک و شہبات پائے جاتے ہیں، اس میں کس کا قصور ہے، اس پر بحث نہیں، لیکن مستقبل کیلئے مثبت انداز میں پالیسیی سازی کے خواہاں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے پہلی بار ایک جامع حکمت عملی کی جانب اہم اقدام اٹھائے ہیں، حکومت نے تین بڑے اقدام کئے ہیں، جن پر ہمیں تحسین اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، سب سے پہلا قدم ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات ہیں جو ہماری فورسز نے کئے ہیں اور کافی حد تک ملک کو پُرامن بنا دیا ہے، اُمید ہے دہشتگردی کی باقی ماندہ جڑیں بھی ختم کر دی جائیں گی، دوسرا بڑا اقدام محرم کے ایام میں ملک میں فرقہ واریت کیلئے بنایا گیا ماحول پر بروقت احساس ذمہ داری کرتے ہوئے اس فتنہ کو روکا گیا۔ تیسرا بڑا قدم یہی ہے جس کی آگاہی کیلئے آج ہم حاضر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کے تعلیم نظام کے حوالے سے جو ایک بحران کی شکل اختیار کر رہا تھا، مدارس اپنے اندرونی نظام میں مسائل اور بیرونی دباو کا بھی شکار تھے، مدارس کو ہراساں کیا جا رہا تھا، مدارس کی تصویر ایک عجیب و غریب بنا کر لوگوں کو دکھائی جا رہی تھی۔انہوں نے کہا کہ ایک عرصے تک حکومت کے ساتھ مذاکرات ہوتے رہے، جس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ رہا تھا، ایک جمود طاری ہوگیا تھا، جس میں ناامیدی پیدا ہو گئی تھی۔ الحمدللہ اب وزارت تعلیم اور وفاقی وزیر تعلیم نے اپنی مشیروں کے ذریعے مناسب راہ حل نکالا ہے اور دینی مدارس کو وزارت تعلیم سے وابستہ کیا ہے اور وزارت تعلیم میں ان کی رجسٹریشن کے عمل کا آغاز ہوا ہے۔ پہلے مدارس کے امور سی ٹی ڈی کی زیر نگرانی تھے، جو مناسب عمل نہیں تھا، موجودہ وزیر تعلیم نے اس حوالے سے راہ حل نکالا ہے اور ان مدارس کو وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک کر لیا گیا ہے۔ اس بارے میں وزارت تعلیم نے جو اقدامات کئے ہیں، ان میں 5 وفاق المدارس کی منظوری دی ہے اور اب ان کی تعداد 10 ہو گئی ہے۔ ان وفاقوں میں مزید اضافہ بھی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح ملکی و قومی سطح پر دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کو پاکستان مین مواقع فراہم کیئے جائیں گے، اور مدارس کی اسناد کو اہمیت دی جائے گی، ساتھ ہی مدارس کو اپنے نصاب اور مالیات میں مکمل آزادی دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان امور میں مداخلت نہیں کرے گی، مدارس کو دیگر تعلیمی اداروں سے منسلک کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اہم قدم ہے، مجمع المدارس تعلیم الکتاب والحکمہ ہے جس کا دفتر جامعہ عروۃ الوثقیٰ میں ہوگا۔ جامعہ عروۃ الوثقی میں 12 سو طلبہ اور 700 طالبات زیر تعلیم ہیں۔ یہاں مسجد بیت العتیق بنائی گئی ہے جبکہ ٹیکنیکل کالج بھی زیرتعلیم ہے، جدید سہولتوں سے آراستہ 50 بیڈز کا ہسپتال ہے اور ایک جدید نظام کیساتھ لائبریری ہے جس کے چار حصے ہیں۔ صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے انہون نے کہا کہ ہمارے بورڈ کی رجسٹریشن کسی نئے فرقے کی بنیاد نہیں بلکہ دینی مدارس کے نظام میں جدیدیت لانے کیلئے ایک اقدام ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے اوپر بہت سے لیبل پہلے بھی لگے ہوئے ہیں، ایک نیا لگ گیا تو اس کی پرواہ نہیں۔ ہمارے بہت سے سلسلے ہیں جنہیں حکومت کیساتھ چلنے میں تحفظات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض طبقوں کی جانب سے حکومت کو دھمکی دی گئی کہ حکومت نے مدارس کے نظام میں مداخلت کی تو وہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مل جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم ایسا نہیں کریں گے، حکومت نے اپنا وعدہ نہ نبھایا اور مدارس میں مداخلت کی تو ہمارا ردعمل کچھ اور ہوگا، ہم مولانا فضل الرحمان کیساتھ نہیں ملیں گے، مولانا فضل الرحمان ایک سیاسی شخصیت ہیں، ان کے سیاسی مقاصد ہے۔ اور مدارس میں بڑی مشکل یہی رہی ہے کہ یہ سیاست کیلئے استعمال ہوئے ہیں۔ مدارس دہشتگردی کیلئے استعمال ہوئے، سارے نہیں چند لیکن خمیازہ ساروں نے بھگتا، مدارس کو فرقہ واریت کیلئے استعمال کیا گیا تیسرا سیاست میں مدارس کو استعمال کیا گیا، اور اس کی وجہ سے مدارس کی حیثیت متاثر ہوئی۔ اب یہ مدارس سے کہا گیا ہے کہ وہ ان مقاصد کیلئے استعمال نہیں ہوں گے، دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں ہوں گے، فرقہ واریت کو فروغ نہیں دیا جائے گا اور دینی مدارس کے سسٹم میں سیاسی مداخلت نہیں ہوگی اور یہ جامعہ عروۃ الوثقیٰ کی پہچان ہے کہ ہم نے وحدت اور اتحاد کیلئے سالہا سال سے اتحاد کی بنیاد پہلے رکھی اور جامعہ عروۃ الوثقیٰ بعد میں بنایا۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی علماء کے مدارس بھی نہیں ہیں، لیکن انہوں نے ہمیشہ مدارس کو سیاست میں استعمال کیا گیا اور مدارس کے فیصلے ان لوگوں نے کئے جن کا مدارس سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔علامہ جواد نقوی نے کہا کہ ایسے لوگ جن کا اپنا مدرسہ ہے نہ ان کے سسرال کا نہ میکے کا، مگر حکومت ان سے مدارس کے بارے میں رائے لیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آج تک کسی محفل میں نہیں بلایا گیا، ہم نے کہا کہ ہم سے رائے تو لے لیا کریں، مگر ایسے نہیں ہوا۔ غیر علماء متولی بنے ہوئے ہیں، مدارس کو سیاست سے پاک ہونے چاہیے اور عصری تعلیمی ادارے بھی سیاست اور فرقہ واریت سے پاک ہونے چاہیئے، تعلیمی ادارہ فقط تعلیمی ادارہ ہونا چاہیے۔ ہم نے جتنا سفر کیا ہے، وہ ریاستی تعاون کے بغیر کیا ہے، کسی ریاستی ادارے نے مدارس کی بات تک نہیں سنی، تمام ادارے بند ہیں، کہا جاتا ہے کہ آپ وفاق سے منسلک ہیں، ان سے رابطہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت میں اب احساس پیدا ہوا ہے اور اب تجویز آئی ہے کہ نئے وفاق بھی بنائے جائیں اور پرانے میں موجود رہیں اور یہ سارے مل کر کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ایک اچھی فضا پیدا ہوگی، شیعہ مسلک کا پہلے ایک وفاق تھا، اہلحدیث کا ایک تھا، اہلسنت کے دو تھے، اب مقابلے کی فضا بنے گی اور یہ جوابدہ ہوں گے، نتائج دینے والے مدارس ہی اپنی حیثیت منوائیں گے۔ یہ روایتی وفاقوں کیلئے بھی بہتر ہوا ہے اور وہ اس کے بعد فعال ہو جائیں گے۔
علامہ جواد نقوی کا کہنا تھا کہ ہمارا پہلے سے ہدف تھا، اب یہ بورڈ بن گیا ہے، پہلے جب ہمارا بورڈ نہیں تھا، تب بھی ہمارے مدرسے کا ماٹو تھا کہ دینی مدارس میں بھی دنیاوی تعلیم دی جائے گی۔ دینی اور عصری علوم کو کیوں بانٹ دیا گیا ہے، پہلے دینی مدارس میں ہی یہ عصری علوم پڑھائے جاتے تھے، مگر پھر دینی مدارس میں صرف دینی تعلیم نماز، روزہ اور دیگر اعمال تک محدود کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ان تفریقات سے پہلے اکابرین کی تاریخ بڑی درخشندہ تھی، بڑے سائنسدان، انجینئر، سب دینی مدارس کے پڑھے ہوئے تھے، سارے سائنسدان، فلاسفی، انجینئر، طبیب سارے علماء کرام تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے غلطیاں کی ہیں، ان غلطیوں کی تلافی کا وقت آ گیا ہے، دین و دنیا کو ملا کر جوڑنا ہے، دین قبر میں جانے کی زندگی سے پہلے کیلئے بنایا ہے، دین دنیا میں انسان کی سعادت کیلئے آیا ہے۔ دین کو دنیا سے الگ کیا تو دونوں کا نقصان ہوا۔