۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
علامہ راجہ ناصر عباس

حوزہ/ ہماری جماعت کا ماحول نماز باجماعت کی طرح ہوناچاہئے جیسے نماز میں صف ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوتی ہے ۔ہمیں قاری قرآن و دعا ہونا چاہیے، ایسے افراد کا اجتماع ہی بلندیوں کی جانب پرواز کرسکتا ہے کوئی اور نہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اسلام آباد/ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے چیئرمین علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نےتین روزہ مرکزی راہیان کربلا کنونشن سے اپنے اختتامی خطاب میں کہا کہ انسان جب ایک مکتب اور آئڈیالوجی کو اپناتا ہے وہ مکتب اور نظریہ اگر جامعیت رکھتا ہو تو وہ انسان پرکچھ فرائض عائد کرتا ہےجواجتماعی بھی ہوتے ہیں اور انفرادی بھی ہوتے ہیں۔ مکتب اسلام ایک جامع دین ہے اور دنیا اور آخرت کی سعادتوں کا ضامن ہے ، جہاں اسلام ہماری انفرادی ذمہ داریاں بیان فرماتا ہے وہیں اجتماعی ذمہ داریوں کا تعین بھی کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ظلم ستیزی ہماری اجتماعی دینی ذمہ داری ہے، یزیدی سوچ سے ٹکرانا ہے، ظلم سے ٹکرانا ہے ۔مبارزہ اور جدوجہد کرنی ہے ، عدل کا پرچم اٹھانا ہے اور غلامی رنجیروں کو توڑنا ہے ۔ آزادی خواہی کے لئے اٹھنا ہے ، جہالت کا خاتمہ کرنا ہےاور جاہلیت کا مقابلہ کرنا ہے ، پاکی طہارت عفت اور پاکدامنی کو رواج دینا ہے ۔ لوگوں کو دنیا کی محب کے ہسار اور زندان سے نجات دلانی ہے ۔ ہمیں معاشرے کی اصلاح کرنی ہے اور شعور دینا ہے۔ آگہی اور بصیرت دینی ہے ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نفاذ کرنا ہے۔ ظالم حکمرانوں سے ٹکرانا ہے زمانے کے فرعونوں کو للکارناہے۔ان کے مقابلے کیلئے میدان میں اترنا ہے یہ اجتماعی فرائض ہیں جو اسلام نے ہم پر عائدکیئے ہیں، انسان کسی نظم میں ڈھلےبغیر کسی تنظیم کے بغیر ان فرائض سے عہدہ براں نہیں ہوسکتا ۔عقل و شعور کہتا ہے ہمیں جمع ہوجانا چاہئے۔ یہ طیب و طاہرآرزؤں اور ارمانوں کے حامل لوگوں کا مجموعہ ایک جماعت کہلاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اُس زمانے میں ایم ڈبلیوایم کے پلیٹ فارم سےاپنے اجتماعی فرائض کی انجام دہی کا کام شروع کیا جب ملک کے حالات انتہائی نامساعد تھے، دشمن نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا تھا، پاراچنار اور ڈی آئی خان محاصرے میں تھے،گلگت بلتستان سے کراچی تک گلی گلی شیعہ نسل کشی جاری تھی۔ ہمارے حقوق پامال ہورہے تھے۔ ہمیں مایوس اور ناامید کیا جارہاہے۔ ہمیں بےچارہ بنایا جارہا تھا ڈرایادھمکایا جارہاتھا۔ پوری ریاستی طاقت و جبراور ملکی وبین الاقوامی غنڈے اور بدمعاش ہمارے خلاف اکھٹے ہوگئے تھے۔ یہ سارے مل کر یتیمان آل محمد ؐ پر حملہ آور تھے۔ان خطرناک حالات میں کچھ مخلص دوست شہید قائد کی شہادت کی مناسبت سے اسلام آباد میں اکھٹا ہوئے

علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے کہا کہ ہم نے پاکستان کو لیبیا نہیں بننے دینا ،آج سب کہہ رہے ہیں پاکستان ٹیکنیکلی ڈیفالٹ کرچکا ہےیعنیٰ پاکستان کا معاشی طور پر دیوالیہ ہوچکاہے۔ مہنگائی دن بدن بڑھ رہی ہے، کہا جارہا ہےکہ آنے والے دنوں میں غذائی اجناس کی قلت پیدا ہوجائے گی۔ آپ نے دیکھا جو کچھ لیبیا میں ہوا امریکاچاہتا ہے کہ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو، دشمن چاہتا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی طاقت بھی چھن جائے اور وہ ایک کمزور اور لاچار اورٹوٹا ہوا پاکستان باقی رہ جائے ان کا جوارادہ شام کیلئےتھا وہی پاکستان کیلئے ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ہمارا واضح موقف ہے کہ اگر پاکستان میں ہمارے کسی دشمن کی بھی حکومت ہوتو ہم کسی بیرونی دشمن کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمارے ملک میں گھس کر وہ حکومت گرائے۔ کوئی بھی غیرت مند پاکستانی برداشت نہیں کرے گا کہ ہزاروں کلومیٹر دور سے زمانے کا فرعو ن امریکا اٹھے اور یہاں اکھاڑ بچھاڑ شروع کردے ۔ہمارا ایمان اجازت نہیں دیتا کہ اپنے دشمن کے ساتھ مل کر اپنے وطن میں حکومت گرائیںیہ کام صرف کوئی بےغیرت اور بے حیاء ہی کرسکتا ہے۔ ہم شہید قائد کے ماننے والے ہیں شہداء کے پیروکار ہیں خدا کبھی وہ وقت نہ لائے کہ خیانت کا داغ ہماری پیشانی پر آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے اندر بہت کمزوریاں بھی ہیںجنہیں پر ہمیں توجہ دینی چاہئے، ہمارے تنظیمی سیٹ اپ کے اندر جازبیت ہونی چاہئے، ایسانہیں ہونا چاہیے کہ مثلاً میں کسی کو ذاتی طور پر پسند نہیں کرتا اس لیئے اسے تنظیم میں آنے نہیں دیتا ، میں دوسروں کیلئے شرح صدر نہیں رکھتا تنگ نظری کا مظاہرہ کرتا ہوں۔ ایسے روئیے سے جماعت سکڑنا شروع ہوجائےگی۔ میرا کوئی دشمن بھی ہو جو مجھے پسند نہیں کرتا لیکن مجلس کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگ ہو تواسے حق ہے کہ مجلس میں کام کرےمیں معیار نہیں ہوں کہ کوئی مجھ سے محبت کرے تو ہی مجلس میں کام کرسکتا ہےورنہ نہیں ۔ یہ امانت ہے ہمارے پاس قوم وملت کی اور یہ ان لوگوں کی امانت ہے جنہوں نے مبارزہ کرنا ہے ظلم کے خلاف انہیں ایک پاکیزہ پلیٹ فارم چایئے۔ہمارے پاس کوئی عذر نہیں ہے انہیں شامل نہ کرنے کیلئے، ہمیں اپنا محاسبہ بھی کرنا چاہئےکہ ہم نے کتنے لوگوں کو جماعت میں شامل کیا ہے کتنے لوگوں کو دعوت دی ہے ۔ اخلاص ہوگا تو ہی ہم آگے بڑھیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مجلس وحدت مسلمین قربانی دینے والوں کا پلیٹ فارم ہے ۔ شہیدوں کے راستے پر چلنے والوں کا پلیٹ فارم ہے اور شہیدوں کے راستے پر وہی چل سکتا ہے جو شہادت کی آرزو رکھتا ہواور شہادت کے تعقب میں ہو وہی جماعت کامیاب ہوسکتی ہے ۔ ہمیشہ زندہ رہنے اور بڑے بڑے محلات بنانے کا شوق مال وزر جمع کرنے کا شوق ہماری جدوجہد کے ساتھ میچ نہیں کرتا ۔ غیبت کرنے والے ، بغض رکھنے والے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے والے لوگ کبھی منزل کی جانب نہیں بڑھ سکتے۔ اس لیئے مجلس کا ماحول اور کلچر خدائی ہونا چاہئے۔ہمارا دفتر جائے عبادت ہو مسجد کی طرح ہو۔ ہم باوضو ہوکر تنظیمی دفاترمیں بیٹھیں اور فرائض انجام دیں۔ ہماری جماعت کا ماحول نماز باجماعت کی طرح ہوناچاہئے جیسے نماز میں صف ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوتی ہے ۔ہمیں قاری قرآن و دعا ہونا چاہیے، ایسے افراد کا اجتماع ہی بلندیوں کی جانب پروازکرسکتا ہے کوئی اور نہیں۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ اگرچہ پاکستان ایک بڑے مرحلے میں داخل ہونے جارہاہے،ہمارےشہید قائد کہتے تھے کہ پاکستان کے فیصلے اسلام آباد میں ہونے چاہئیں ناکہ واشنگٹن میں،وہ کہا کرتے تھے کہ ہماری خارجہ پالیسی ہر قسم کے بیرونی دباؤ سے آزاد ہونی چایئے ہمارے حکمران آج یہ باتیں کررہے ہیں لیکن ہمارے شہید قائد 35 برس قبل یہ فکر دیکر گئے تھے۔ وہ کہتے کہ جو امریکا کا یار ہے غدار ہے غدار ہے ۔یہ سلسلہ وہاں سے شروع ہے ۔یہ ہمارا بیانیہ ہے یہ ہمارا ایجنڈا ہے جسے قرطاس پاکستان پر ہمارے شہداء نے اپنے خون سےرقم کیا ہے ہم کیسے اس سےلاتعلق رہ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تنظیمی دورانیےکہ اختتام پر اپنی اور اپنی کابینہ کی جانب سے ہوئی کوتاہیوں اور خامیوں پر معذرت خواہ ہوں۔ ہماری تربیت ویسی نہیں ہے جیسی ہونی چاہئے تھی ہم ویسے نہیں ہیں جیساہمیں ہونا چایئے تھا۔ میرے سر پر عمامہ ہے میرا اللہ گواہ ہے میں خود کو اس ذمہ داری کا اہل نہیں سمجھتااور ہمیشہ تکلیف میں رہتا ہوں۔ ہمارا خدا بہتر جانتا ہے کہ ہم کتنے کمزور ہیں کتنے ناتواںہیں ۔میں اپنے خدااور امام زمانہ ؑ کی بارگاہ میں اپنی کوتاہیوں کی معافی چاہتا ہوں۔ لوگ میرے استقبال کیلئے کھڑے ہوتے ہیں باخدا مجھے شرمندگی ہوتی ہے ،ہم اس عزت اور شرف کے لائق نہیں ہیں ،اے ہمارے رب شہید قائد جیسا کوئی بھیج دے کہ جس کے ہم جس کے پیچھے چلیں۔جس کی قیادت پر ہم سب اکھٹا ہوں جو عابد شب زندہ دار تھا اور قاری قرآن تھا جو اہل دعا ومناجات تھا ۔ میں اپنے تنظیمی دورانئے کہ اختتام پر اپنی اور اپنی کابینہ کی جانب سے ایک بار پھر آپ سے اپنےرب سے امام زمانہ ع سے معافی کا طلبگار ہوں۔۷

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .