حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مولانا احمد رضا رضوی زرارہ صدر مجلس علماء ہند شعبہ قم نے اپنے ایک بیان میں شہدائے کربلا پر ماتم اور گریہ و زاری؛ عہد عاشورائی کی تجدید اور تہذیب شہادت کی فکری و روحانی ترویج ہے قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم ایک بار پھر ایام عزا کے آستانے پر ہیں- ظاهر ہے مراسم عزا کے انعقاد کا واحد مقصد امام حسین علیہ السلام پر صرف ماتم اور گریہ و زاری نہیں ہے، بلکہ اس کے بڑے اہداف ہیں، جن میں کچھ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں: عالمی سامراج کے خلاف استقامت کا جذبہ، بصیرت میں اضافہ، مکتب اہلبیت(ع) کے اقدار کا تحفظ، اہل بیت (ع) کی تعلیما ت کو دنیا کے سامنے پیش کرنا، امت مسلمہ کے درمیان اتحاد کی کوشش،حقیقی اسلام کا تعارف، روحانیت کا حصول اور ظلم و ظالمین کا خاتمہ وغیرہ
علاوہ ازیں، حضرت ابا عبداللہ الحسین (ع) کی عزاداری کے اثرات اور اہداف میں سے ایک یہ ہے کہ حق و باطل اور صحیح اور غلط کی پہچان ہو، ایثار و قربانی کے جذبے کو فروغ ملے چنانچہ امام خمینی (رح) نے ایک تقریر میں ماہ محرم کو اس طرح بیان کیا ہے: "محرم کے مہینے کے آغاز کے ساتھ شجاعت اور قربانیوں کا مہینہ شروع ہوا۔ وہ مہینہ جس میں تلوار پر خون کی فتح ہوئی" - اسکے علاوه آپ ایک جگہ فرماتے ہیں: "عزاداری امام حسین علیہ السلام کا ایک مقصد، قوم کو اسلامی مقاصد کے لیے بیدار اور متحرک کرنا، اتحاد پیدا کرنا اور مسلمانوں کے درمیان باہمی رابطے کو مضبوط بنانا ہے۔
البتہ ان ایام میں ذاکرین اور اہالی منبر کی بھی کچھ اہم ذمہ داریاں اور شرائط ہیں جن میں سب سے پہلے ان کا متدیّن ہونا قابل ذکر ہے- یاد رہے کہ عوام کے ذریعہ ہونے والی پذیرائی اور انکے درمیان مقبولیت، خدا پسند ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
آج ہم ان نوجوانوں کے روبرو ہیں جن میں خاصے اہل علم ہیں اور ضروری ہے کہ ان کے سوالات کے جوابات ٹھوس شواہد و دلائل کے ساتھ موجود ہوں کیونکہ دشمن شکوک و شبہات میں ڈالنے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے،چنانچہ مقاتل پر نظر ہونا اور صحت روایات کی طرف متوجہ رہنا بے حد ضروری ہے - اخلاقی شائستگی بھی اہل منبر کی اہم خصوصیات میں سے ہے۔ ارشاد خداوندی ہے : "قولوا للناس حسنا"(بقره/٨٣) ، "قولوا قولا سدیدا"(احزاب/٧٠)، "قولا كريما"(اسراء/٢٣) ،"قولا لينا"(طه/٤٤)
خلاصہ یہ کہ لوگوں کے لیے بہترین الفاظ، پختہ و متقن مطالب لیکن نرم لب و لہجہ استعمال کیے جائیں۔ سلیقہ بیان، مثبت رویہ ہماری پہچان ہونی چاہیۓ اور لوگوں کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر پاکیزہ ہونا چاہئے۔کہاں کیا پڑھنا ہے؟ اس سلسلے میں دھیان رہے کہ ہر بستی کے مسائل اور ضرورتیں الگ الگ ہوتی ہیں چنانچہ بیان،فرمائشی پروگرام نہ ہونے پائے بلکہ کسی فرض شناس طبیب کی طرح انکے لئے مفید مواد و موضوعات کی تشخیص اولین فریضہ ہے- ایمانداری، نظر و فکر کی پاکیزگی، عاجزی و انکساری کے ساتھ ساتھ لوگوں کو سید الشہداء کے اصول زندگی کی طرف راغب کرنا مجالس کے بیانیہ کا نصب العین ہونا چاہئے۔
تاہم موسم عزا میں مومنین اور ماتمی دستوں کی بھی کچھ غیر معمولی ذمہ داریاں ہیں: اپنے گھروں میں اخلاص کے ساتھ مجالس برپا کریں اور اس میں تربیتی پہلؤوں کا خاص خیال رکھیں، خدا اور محمد و آل محمد علیہم السلام کی خوشی و رضایت ہماری پسند پر مقدم رہے- اگر امام بارگاه یا عام جگہوں پر مجالس یا جلوس ہوں تو کوئی ایساکام نہ کریں جس سے دوسروں کو نقصان پہنچے یا انهیں اذیت ہو۔ محرم کے مہینے میں سوگ منانے کے معاملے میں لوگوں کو چاہیے کہ وہ مجوزه پروٹوکول، ہیلتھ ٹپس اور ٹرافک رولس کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ ماتم اور جلوس کے دوران لباس کی نوعیت ایک مسئلہ بنتی جارہی ہے۔ مردوں اور عورتوں کی خودآرائی اور میک اپ کا عزاداری سید الشهدا سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ایسا کرنے سے اسلامی اقدار سے لیکر کربلائی تہذیب تک کا نقصان ہوتا ہے۔ محرم کی حرمت پامال ہوتی ہے-مراسم عزا جو ظلم کے خلاف ایک پرامن اور مہذب تحریک اور احتجاج ہے اسکی ساکھ کو نقصان پہونچتا ہے ، لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم مل جل کر عزائے سید الشهدا کے لئے ایسا اہتمام کریں جو نہ فقط مقصدیت سے بھرپور ہو بلکہ اس بے چہرگی کے دور میں ہماری آبرومنددانہ شناخت کا ذریعہ بن سکے اور ان ایام کے پیغام کو یعنی کربلا والوں کے پیغام کو عام کرنے کا وسیلہ قرار پاۓ تاکہ بلاتفریق قوم و ملت زیادہ سے زیادہ لوگ اس عبادت سے جڑیں اور وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوجاۓ جس کا اظہار شاعر نے ان الفاظ مین کیا تھا:
انسان کو بیدار تو ہولینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین