۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
شیخ عبد العلی ہروی

حوزہ؍لاہور میں علمی نشاط اور اسلامی فلسفہ کا احیاء اور قرآنی تعلیمات کا چرچا جناب علامہ شيخ عبد العلی ہروی کا مرہون منت ہے۔ ان کا ذہن حکیمانہ ان کی فکر عمیق ان کا بیان استدلالی اور اطمینان آفرین تھا۔

حوزہ نیوز ایجنسیl

ترتیب: سید لیاقت علی کاظمی

لاہور میں علمی نشاط اور اسلامی فلسفہ کا احیاء اور قرآنی تعلیمات کا چرچا جناب علامہ شيخ عبد العلی ہروی کا مرہون منت ہے۔ ان کا ذہن حکیمانہ ان کی فکر عمیق ان کا بیان استدلالی اور اطمینان آفرین تھا۔

علامہ کا خاندان و وطن: علامہ شیخ عبدالعلی بن ملا محمد بن حاجی شیخ آخوند علمی گھرانے اور پرہیزگار خاندان کے فرزند تھے۔ ان کا آبائی وطن ہرات تھا۔ ان کے والد ملا محمد مرحوم مشہد مقدس میں بھی زمین اور مختصر املاک رکھتے تھے۔ ملا صاحب باطمینان زندگی بسر کررہے تھے کہ ان کے صاحبزادے رحلت کرگئے۔ ملا محمد صاحب کو محبوب بیٹے کی موت سے بے حد صدمہ ہوا۔ بڑھاپے میں ہونہار جوان کی موت سے دو چپ ہوگئے لیکن حج کے موقعہ پر انھوں نے میزاب کے نیچے فرزند صالح کی دعا کی۔ کچھ عرصے کے بعد ملا صاحب نے عقد کیا اور عبدالعلی صاحب کی ولادت ہوئی۔

تعلیم وتربیت: عبدالعلی، محبت والدین کی خوشگوار فضا میں پہلے اور قرآن مجید کے ساتھ ابتدائی تعلیم سے جلد فراغت حاصل کر کے والد علام سے سبق لینا شروع کیا، اثناءِ درس میں بحث چھیڑتے اور مطمئن ہوئے بغیر خاموش نہ ہوتے تھے یعنی کمسنی ہی سے ذہانت، شوق، اور اطمینان کی جستجو تھی۔ دس برس کی عمر میں دعا ابوحمزه ثمالی حفظ ہوگئی تھی ۔ اس مرحلے کے بعد مدرسۂ فیض میں چلے گئے، یہاں ان کے حافظے کے جوہر کھلے وہ اساتذہ کی تقریر دہرا کردوستوں کو حیران کردیتے تھے۔ دیکھتے دیکھتے استنباط کا ملکہ ابھرا اور چودہ برس کی عمرمیں مسائل میں اجتہاد کی کوشش کرنے لگے، اسی زمانے کا واقعہ ہے کہ والدین کے ساتھ ماہ صیام میں روزے رکھ رہے تھے گرمی کی شدت کی بنا پر والدین نے روکنا چاہا تو آپ نے حدیث کے حوالے سے روزے کا حکم دکھا دیا۔

متوسطات ختم کرکے کاظم خراسانی کے ساتھ درس میں شریک ہوئے اور اساتذہ کو اپنے وسیع المطالعہ، کامل الفہم اور بہترین قابلیت رکھنے کا معترف کرلیا۔

ریاض باطن: درسِ علوم کے ساتھ اخلاق و تزکیۂ نفس کی تعلیم قدوۃ الزاہدین، رئیس العارفین ملا محمد اکبر ترشیزی سے حاصل کی۔ آیات و سُوَر و اوراد کے مراحل طے کیے۔ اس زمانے میں اپنے ہاتھوں سے پکانا اور خاص شرائط کا لحاظ رکھنا پڑتا تھا۔

کثرت مطالعہ: اس ریاضت کے باوجود تحصیل علم اور مطالعۂ كتب میں کمی نہیں آئی خود ان کے ذاتی کتب خانے میں آٹھ ہزار کتابیں تھیں۔ ایران کے تمام کتب خانوں کو دیکھا اور وہاں کی کتب کا مطالعہ کیا ان کتب خانوں میں اصفهان میں علامہ مجلسی کا کتب خانہ اور طہران کا شاہی کتب خانہ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔

آخر عمر میں بھی شوقِ مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ اکثر و بیشتر قرآنِ حکیم پر غور و فکر فرمایا کرتے تھے اور جب بھی کوئی کتاب سامنے آجاتی اسے ختم کیے بغیر نہیں رہتے تھے۔

زبانیں: قرآن و تفسیر، حدیث وفقہ، کلام و فلسفہ و غیرہ علوم کے علاوہ عربی، فارسی پر کامل دسترس تھی، ترکی، فرانسیسی اور روسی زبانوں میں بھی اچھی خاصی دسترس رکھتے تھے۔ سندھی، پنجابی، پشتو سجھتے تھے۔ انگریزی بھی بقدرِ ضرورت پڑھ لیتے تھے۔ اردو میں اتنی قدرت حاصل کرلی تھی کہ 1340ھ کی مجلس (آگرہ) میں دیر تک تقریر کی تھی۔

تیس برس کی عمر میں قابلیت و ذہانت کا اتنا چرچا ہوا کہ ناصر الدین شاہ قاچارنے نائب وزیر خارجہ کا عہدہ پیش کیا جسے علامہ ہروی نے قبول فرمالیا۔ تمباکو سے متعلق سرکار میرزا کا فتویٰ اسی دور میں شائع ہوا، اور بابیوں کا فتنہ بھی اسی دور میں اٹھا۔ عبدالعلی ہروی کے فتوے پر بھی آٹھ ہزار بابی قتل ہوئے۔ جس کے بعد امین السلطان وزیر اعظم مرزا محمد تقی جو غالباً در پردہ بابی تھا آپ کا مخالف ہوگیا۔

ناصر الدین نے علامہ ہروی کے علوم سے استفادہ کو عام کرنے کے لئے ایک ادارۃ المعارف قائم کیا جس کے سربراہ علامہ ہی قرار پائے۔

علامہ ہروی نے مدارس اور طرزِ تعلیم کی اصلاح پر خاص طور سے توجہ دی اور ایسا طریقۂ تعلیم رائج کیا کہ چند سال میں طالب علم پانچ زبانوں عربی، فارسی، فرانسیسی، ترکی اور انگریزی سے کما حقہ آشنا ہو جاتا تھا اور تحریر و تقریر کے قابل ہو جاتا تھا۔

اسی زمانہ میں ایران میں ایک ایسا متن قرآن حکیم شائع ہوا جس کے حاشیہ پر تفسیر سے متعلق تمام احادیث جمع کردی گئی تھیں یہ طریق کارشاہ کو بہت پسند آیا اور اس نے امین الدولہ کے مشورے سے علامہ ہروی کی خدمت میں اس کام کو مکمل کرنے کی تجویز پیش کی۔ علامہ ہروی نے فرمایا کہ میں یہ کام اس شرط پر انجام دوں گا کہ ایک خاص دفتر اور محکمہ قائم کیا جائے جس مٰںدو متکلم، دو فلسفی، دو فقیہ، دو مفسر اور دو محدّث، کل بارہ جید علماء ہوں اور ان سب کے مصارف شاہ برداشت کریں۔ چنانچہ کام شروع ہوا اور چھ ماہ میں صرف استعاذہ کی تفسیر بکمالِ دقت تیار ہوئی۔ ڈیڑھ سال تک یہ کام (اھدنا الصراط المستقیم) تک پہنچا۔ شاہ نے چار سو نسخے طبع کراکے علماء کی خدمت میں بغرض تبصرہ بھیجے۔ سب نے بے انتہا پسندیدگی کا اظہار کیا۔ شاہ نے علامہ ہروی کو انعام دیا اور کام جاری رکھنے کو کہا۔ وزرا، نے مخالفت کی کہ اس طرح تو یہ تفسیر تمام عمر بھی ختم نہیں ہوگی، شاہ نے کہا کہ اس طرح اگر صرف ایک پارہ کی تفسیر مکمل ہو جائے تو تمام تفاسیر سے بے نیاز کر دے گی، اتفاق سے اسی سال ناصر الدین شاہ مرزا محمد بابی کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔

مظفر الدین شاہ نے یورپ سے واپسی پر روس سے آٹھ لاکھ منات قرضہ کا معاہدہ کیا جس کی علماء ایران نے سخت مخالف کی۔ اسی سلسلہ میں علامہ ہروی کو ایران چھوڑنا پڑا۔ علامہ نے ایران سے نکل کر ماسکو، برلن، پیرس، اسکندریہ، مصر، ٹرکی اور عراق وغیرہ کے دورے کئے۔ اس سفر مٰں انہوں نے مختلف نئے رجحانات کے مشاہدے کئے۔

یورپ میں انجمن تحقیق مذاہب میں بھی توحید، معادِ جسمانی اور حقوق انسانیت وغیرہ عنوانات پر تقاریر کیں جن سے لوگ کافی متأثر ہوئے اور آپ کو ممبر بننے کی دعوت دی اور ہزار اشرفی ماہوار کی پیشکش کی تو علامہ ہروی نے مزاحاً ارشاد فرمایا کہ میں تو اس کے باوجودآپ کے مذہب کو باطل ہی ثابت کروں گا کیونکہ وہ فی نفسہ باطل ہے۔

ان ممالک کے دوروں کے بعد 1320ھ میں کراچی تشریف لائے، وہاں سے شکار پور وغیرہ ہوتے ہوئے پنجاب پہنچے اور پہلی مجلس ملیرکوٹلہ میں پڑھی پھر پٹیالہ میں قیام کیا۔ خلیفہ محمد کاظم صاحب اور مولانا سید عنایت علی سامانوی نے ان کی پزیرائی کی۔ علامہ صاحب زیادہ تر پٹیالہ اور لاہور میں مقیم رہے۔ 1906ء سے پنجاب میں وعظ کا سلسلہ شروع کیا لیکن مترجم سے مطمئن نہ تھے۔ 1908ء کے بعد سید محمد سبطین سرسوی جیسے فاضل طالب علم اور شعلہ بیان خطیب نے ترجمانی شروع کی۔ اسی دوران علامہ نے ایک ماہوار رسالہ البرھان جاری کیا جوان کی وفات تک ان کی سر پرستی میں جاری رہا 9 دسمبر 1922ء /1341ھ چونسٹھ سال کی عمر پا کر علامہ ہروی کے انتقال پر سندھ، پنجاب، بلوچستان اور سرحد کے مؤمنین نے زبردست رنج و الم کا اظہار کیا۔ دور دور سے تعزیت ادا کی گئی اور گوشے گوشے میں مجالس و قرآن خوانی کی گئی۔ علامہ ہروی کا جنازہ لاہور ہی میں امانت رکھا گیا 6، جون 1963ء کو لاہور سے عراق لے گئے اور 22 جون 1936ء کو نجف اشرف میں سپردِ خاک کیا گیا۔

تصانیف: تفسیر قرآن۔ استعاذہ سے اھدنا الصراط المستقیم تک جس کا ذکر گزر چکا ہے۔ (مطبوعہ) رسالۂ مسئلہ قضا و قدر (مطبوعہ) رسالۂ اعمال (مطبوعہ) ثبوت معادِ جسمانی بدلائل فلسفۂ طبیعہ(مطبوعہ) تفسیر انا کل بشیئی خلقناہ بقدر (مطبوعہ رسالہ البرھان، مضمون) مسئلہ امامت پر نوٹ اور مسودہ قلمی ، سورہ کہف کی ان آیات کی تفسیر جن میں حضرت موسیٰؑ و خضرؑ کا قصہ ہے (قلمی)

ہدایت، ہاوی اور اقسام ہدایت پر مضمون (قلمی) مواعظ حسنہ (تقریریں،۔ طبع شد) رسالۂ نور (عربی) مولانا محمد سبطین صاحب نے مرتب کر کے شائع کیا۔

علامہ ہروی کی اولاد میں دو صاحبزادوں ذکر ملتا ہے۔ جن میں سے بڑے صاحبزادے شیخ نصر اللہ اس وقت مشہد مقدس میں مقیم تھے۔

ہندوستان کی معروف شخصیتوں کی نظر میں علامہ ہروی کا جو مقام تھا اس کا اندازہ کرنے کے لئے یہاں بعض حضرات کی آراء نقل ہیں:۔

۱۔ آنریبل خواجہ غلام الثقلین مرحوم نے رسالۂ عصر جدید میں مولانا حالی کی رائے شائع کی تھی میں نے سریندر ناتھ بنرجی، نواب محسن الملک اور سر سید کی پرزور اسپیچیں اور لیکچر سنے، لارڈ کرزن کی دھواں دار تقریریں سنیں لیکن یہ سب لوگ شیخ عبدالعلی صاحب کے مقابلے میں کوئی چیز معلوم نہیں ہوتے تھے۔ یہ علم، یہ مغز، یہ عمق کسی میں نہیں پایا گیا، ایک اور موقع پر حالی نے فرمایا:

اس علم و معرفت کا انسان دو سو برس کے عرضے میں ہندوستان میں پیدا نہیں ہوا۔

۲۔ مسج الملک حکیم محمد اجمل مرحوم نے پہلا وعظ سن کر فرمایا تھا: (ما سمتُ قطُّ مثلہ) ان کی رائے تھی کہ میں نے عراق بھی دیکھا ہے اور شام بھی، مصر بھی اور یورپ بھی۔ ہندوستان میں بھی اکثر علماء کو دیکھا اور سنا ہے۔ خصوصاً ان چند سال کے عرصہ میں میں نے اس پایہ کا عالم نہیں دیکھا۔ مولانا سید عنایت علی صاحب سامانوی فرماتے تھے: تیس تیس سال کے بعض شبہات میں نے شیخ ہی سے حل کئے ہیں۔

علامہ ہروی نے افاضل اہل سنت کو بھی بے انتہا متأچر کیا اور کافی تعداد میں لوگوں کو شیعہ بھی کیا۔

بعض افاضل تو دس دس سال تک تحقیق و مناظرہ کے بعد شیعہ ہوئے جن میں سے مولوعی حکیم امیرالدین صاحب جھنگ اور مولوی علی محمد صاحب جھنگ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

۳۔ علامہ اقبال کے فلسفۂ قرآن و محبت آلِ محمدﷺ کے رچاؤ کا یہی زمانہ ہے کہ وہ علامہ ہروی کے وعظ میں حاضر ہوئے اور ان سے مذاکرات کرتے تھے۔ (مکتوبات اقبال بنام شاد) (البرھان، خاص شمارہ ربیع الاوّل 1341ھ، مقالہ مولانا محمد سبطین)

وفات: 9دسمبر1922عیسوی مطابق 17ربیع الثانی 1341 ہجری شب شنبہ اس عَالمِ فنا سے عالمِ بقا کو رحلت فرمائی۔

(سید لیاقت علی کاظمی)

باتشکر: https://ur.islamic-sources.com/Persons/%D8%B4%DB%8C%D8%AE-%D8%B9%D8%A8%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D9%84%DB%8C-%D8%A7%D9%84%DB%81%D8%B1%D9%88%DB%8C

ماخؤذ از: مطلع انوار سید فاضل

تبصرہ ارسال

You are replying to: .