۲۸ فروردین ۱۴۰۳ |۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 16, 2024
سید لیاقت علی

حوزہ؍کیا انسانی عقل کا ڈیٹا اور اسکی عقل میں موجود چیزیں وحی کی تعلیمات کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں،کیا عقلیت اور مذہب ایک دوسرے کے ساتھ گذربسر کرسکتے ہیں، یا لازمی طور پر دونوں میں سے ایک کو دوسرے پر قربان کرنا ہوگا ؟ اس بات میں کوئی  شک و شبہ نظر نہیں آتاکہ،عقل اور وحی جیسے دو ذرائع  ومنابع میں ظاہری  تنازعہ ہی – بعض تعلیمات میں – «دين‌ بیزار،عقل پرست» اور « عقل بیزار، دین پسند»حلقۂ فکر کی پیدائش  کا سبب بنا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی؍

تحریر: سید لیاقت علی کاظمی

انّ لِلّه علي الناس حجتَين: حجة ظاهرة و حجة باطنة؛ فاما الظاهرة فالرسل و الانبياء و الائمة و اما الباطنة فالعقول۔ لوگوں پر خدا کی دو حجتیں ہیں! ظاہری حجت اور باطنی حجت؛ حجت ظاہری انبیاء و مرسلین اور ائمہ ہیں اورحجت باطنی، عقلیں ہیں۔

ان چند سوالات میں سے ایک جن کا انسان کوہمیشہ سامنا کرنا پڑتا ہے اور آج کے دور میں ایک نئےاور چیلنج بھرے طریقہ سے وہ ہمارے سامنے آرہے ہیں، یہ ہے کہ کیا انسانی عقل کا ڈیٹا اور اسکی عقل میں موجود چیزیں وحی کی تعلیمات کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں،کیا عقلیت اور مذہب ایک دوسرے کے ساتھ گذربسر کرسکتے ہیں، یا لازمی طور پر دونوں میں سے ایک کو دوسرے پر قربان کرنا ہوگا ؟ اس بات میں کوئی شک و شبہ نظر نہیں آتاکہ،عقل اور وحی جیسے دو ذرائع ومنابع میں ظاہری تنازعہ ہی – بعض تعلیمات میں – «دين‌ بیزار،عقل پرست» اور « عقل بیزار، دین پسند»حلقۂ فکر کی پیدائش کا سبب بنا ہے۔

پوری انسانی تاریخ میں، عقل اور وحی کے درمیان – ہر زمانے اور وقت میں رائج بشری علوم و معارف سے وابستہ –تنازعہ مختلف شکلیں لے چکا ہے جس کی سب سے قدیمی صورت «فلسفہ اور دين» کے درمیان تعارض کی شکل میں ظاہر ہوا ہے، فلسفیانہ نظریات و تعلیمات کو – انسانی عقل کے ایک منظم مجموعی ڈیٹا کے عنوان سے–مذہبی عقائد کے ساتھ متنازع مانا اور بالمقابل سمجھا جاتا تھا اسی لیے مؤمنین کا ایک گروہ ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہا کہ دین کے دامن کو فلسفہ کی آلودگیوں سے پاک رکھا جائے؛لہٰذا طعن و تشنیع اور کشاکش کا یہ ٹھیکرا «منطق» و «کلام»جیسے علوم کے سر پر بھی پھوڑا گیا،اور ایسے لوگ کم نہ ملیں گے جنہوں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہو اور مستقل کتابیں اور مقالات تحریر کئے ہوں۔

عقل اور وحی کے درمیان تنازعہ کا نیا چہرہ اور رُخ، سائنس اور مذہب کے تعارض کے نام سے جانا جانے لگا ہے؛تجرباتی علوم کے بعض شعبے وحیانی معارف کے بالمقابل شمار کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے کچھ لوگ دین بیزاری کی صف میں چلے گئے،وہ چیز جس نے دین بیزاری کے رجحان میں شدت کے ساتھ اہم کردار ادا کیا وہ یہ تھا کہ قرونِ وسطیٰ میں، چرچ کے اراکین نے بہت سی انسانی تعلیمات کو غلط طور پر مذہب کا جزء گمان کرلیا تھا اور اس میں پائی جانے والی غلطیوں کو نئے علوم کے انکشاف کے باوجود ماننے پر تیار نہیں تھے، چرچ کے اراکین کے اس عقل بیزار رویّہ نے منفی ردعمل کے طور پر عقلیت پسندانہ تحریک کو مضبوطی بخشی، اور نتیجتاًعقل کی اس قدر افراطی تعریف و توصیف کی گئی کہ اسے خدائی کی مسند پر جابٹھا یا:

اے قدرتی نظارو! اے تمام کائنات کے حکمراں ،اور تم اے فضیلت اور عقل و حقیقت؛ کہ جواس کے دامن کے سب سے معزز پروردگار ہو، تم ہمیشہ کے لیے ہمارے معبود رہو ۔

اس خشک اور افراطی عقلانیت نے بھی حزب اختلاف کو پھلنے پھولنے اور مخالفین کےپیدا کرنےمیں اپنا کردار ادا کیا؛کچھ اس طرح سے کہ اسکی مخالفت میں ایک گروہ نے دل کے فراموش شدہ حصہ کو اپنی تگ و دَو کا محور بنا لیااور عقل کو ایک فضول چیز کے طور پر متعارف کرایا کہ جس کا تنہا ہنر یہ ہے کہ وہ چیزوں کو اچھا اور خوبصورت بھر بنا کے پیش کرتی ہے: «ہماری بے تدبیر فضول عقل – جو بھی خوبصورتی دیکھتی ہے وہ اپنے اندازے کے مطابق ہی دیکھتی ہے – آنکھ کو اندھا بنائے بیٹھی ہے جب تک کہ ہم اس پر پڑی پٹّی کو نہ اٹھائیں» ۔

اصطلاحات کا تعارف: عقل، وحی، اور مشابہ عناوین

کچھ اس طرح کی ترکیبات جیسے«عقل و وحی»، «عقل و نقل»، «عقل و دين»، «ايمان و تعقل»، «دين و فلسفہ»، اور «سائنس و دين» – کہ جنہیں کبھی کبھی ایک دوسرے کے مقام پر استعمال کرلیا جاتاہے – کیا ان کے ایک ہی معنی ہیں، یا یہ ترکیبات ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ان میں کوئی تفاوت پایاجاتا ہے؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے، ہم ان میں سے کچھ ترکیبات کی جانچ پڑتال کریں گے۔

۱۔عقل اور وحی

عقل کا لفظ – فلسفہ میں اور دوسرے علوم میں بھی –مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے، اور ان معانی میں سے سب سے زیادہ رائج معنیٰ جو عقل کا بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ عقل انسان کی وہ خاص طاقت ہے کہ جس سے وہ اچھے اور برے کے درمیان فرق پہچاننے پر قادر ہوتا ہے اوراسکے ذریعہ سے اچھی طرح سےایک صحیح راستہ کی شناخت کرپاتا ہےتاکہ غلطیوں اور لغزشوں سے بچا رہے، صدرالمتألّہين شيرازی(979 – 1050 ق)عقل کے چھ معانی بیان کرتے ہیں اور ان سارے معانی میں عقل کی حیثیت اور اسکے استعمال کو ایک طرح سے مشترک لفظی جانتے ہیں ،اگر ساتھ ہی ہم مغربی ثقافت میں عقل کے معانی اور اسکے موارد کو شامل کرنا چاہیں ، توعقل کے اصطلاحی معانی کی تعداد اس سے کہیں زیادہ توسیع پا جائیں گے۔

انسان کے سامنے علم حاصل کرنے کے کئی طریقے اور راستےموجود ہوتے ہیں، جن میں سے کچھ عام ہوتے ہیں جس سے تھوڑا بہت ہر بشر کسبِ فیض کئے ہوئے ہے؛جبکہ وحی کے فیضان سے سیراب مذاہب یعنی ادیان وحیانی ایک خاص راستے (وحی) کی بھی بات کرتے ہیں کہ جو کچھ خاص لوگوں سے ہی مخصوص ہےاور دوسرے افراد مستیقم طور پر اس سے فائدہ اٹھاپانے کی طاقت نہیں رکھتے،کلام جدید کے مباحث اور اس کے دائرۂ کار میں عقل سے مراد کبھی وہ تمام معارف آتے ہیں کہ جو معرفت کے سارے ہی راستوں سے دستیاب ہوجائیں ،اور وحی سے مراد شناخت اور معرفت کا وہ حصہ ہوتا ہے کہ جسے انسانوں کا ایک خاص گروہ ایک مخصوص راستہ سے اس تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔

قابل ذکرہے کہ عقل کا لفظ کبھی ایک ایسی «طاقت»پر بھی صادق آتا ہے کہ جو انسان کے تمام ادراکات و آگاہی کا سرچشمہ ہوتا ہے؛اور کبھی( خاص طور پر عربی زبان میں) اس سے مراد اسکا مصدری معنیٰ، تعقل کرنا اور فکر کرنا ،ہوتا ہے؛ عقل کا تیسرا استعمال اپنے مصدری معنوں میں اسم معفول کی طرح ہے؛یعنی اس لفظ کے ذریعہ ان معارف کی جانب اشارہ کیا جاتا کہ جو تعقل و آگاہی کے بطن سے سامنے آتے ہیں ۔

۲۔عقل اور دين

«عقل و دين» کی ترکیب اور اس کے معادل کلمات (جیسے Reason and Religion) ایک ایسے عنوان کی سُرخی ہیں کہ جس کے اندر عقل اور وحی سے مربوط بحثیں آتی ہیں، یہ تعبیر مشرقی اور مغربی دانشوروں کی بہت سی تحریروں میں استعمال کی گئی ہے، جبکہ بعض دانشوروں نے ایسے عنوان کا استعمال کئے جانے پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے؛اس دلیل کی بنیاد پر کہ، جب ہم دین کے مقابل عقل کو رکھ دینگے توشروع سے ہی ایسا لگنے لگتاہےکہ جیسے ، ہم دونوں کو ایک دوسرے کے برعکس ہونے کا خیال رکھتے ہیں:

عقل دین کے مقابل اور اسکی قَسیم نہیں ہےکہ اس طرح کہا جائے کہ«فلاں مطلب عقلی ہے يا دينی اور اسی طرح عقلی ہے يا شرعی؟»؛بلکہ عقل ،نقل کے مقابل میں اسکی قَسیم ہےکہ جن میں سے دونوں ہی دین و شریعت کے منبعِ استنباط قرار پائیں گے ۔

۳۔دين اور فلسفہ

جیسا کہ بیان کیا جاچکا کہ « عقل اور وحی کا رابطہ» انسانی فلسفیانہ سوچ کے ابتدائی دنوں سے ہی« ‏فلسفہ و دين کے رابطہ» کی شکل میں جلوہ گر ہوچکا ہے،بہت سےدین پسند مفکرین نے فلسفی تعلیمات کو انبیاء و مرسلین کی تعلیمات سے جدا گمان کیا ہے؛ جبکہ اسکے بالمقابل ایسے فلاسفہ کی تعداد بہت زیادہ ہے جنہوں نے ان دونوں کے آپس میں ہماہنگ ہونے کی بات بیان کی ہے، مثال کے طور پر، يعقوب بن اسحاق کنْدی(حدود 185 – 250 ق) –کہ جنہیں اسلامی دنیا کا پہلا فلسفی کہا جاتا ہے –اس بات پر زور دیا ہے کہ جو کچھ بھی رسول اکرم اللہ کی جانب سے لے کر آئے ہیں وہ ساری چیزیں عقلی معیارات کے حساب سے بھی قابل تائید ہیں: «و لَعمري انّ قولَ الصادق ‏محمد (صلوات الله عليه) و ما ادّي عن الله (جلّ و عزّ) لموجودٌ جميعاً بالمقاييس العقلية» ، ابن‌رشد (520 – 595 ق) کا بھی یہی ماننا ہے کہ کسی بھی صورت برہانی استدلال، شریعتِ وحیانی کی مخالفت نہیں کرسکتا؛ کیونکہ حق کا حق سے کبھی ٹکراؤ نہیں ہوتا ، صدرالمتألہين شيرازی کے نقطۂ نگاہ سےبھی خدا کی برحق شریعت کے احکام، بَشَری عقل کے یقینی معارف کے ساتھ تعارض کی شکل اختیار کرہی نہیں سکتے، وہ ایسے فلسفہ پر پھِٹکار بھیجتے اور اسکی تباہی کا مطالبہ کرتے ہیں کہ جس کے قوانین، کتاب و سنّت کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں ۔

تاہم، فلاسفاء اور ان کے مخالفین کی لڑائیاں کبھی بھی اپنے خاتمہ پر نہ پہنچ سکیں اورتاریخ کے کچھ خاص عرصے میں تو یہ لڑائیاں زیادہ شدید رُخ اختیارکر چکی تھیں۔

مغربی سرزمین میں بھی ارسطوئی فلسفہ اور مسیحی ایمان کے درمیان تعارض و ہماہنگی کی بحث نے بہت سارے تنازعات پیدا کئے ہیں ، قرون وسطا میں کچھ مفکرین جیسے کہ توماس اکويناس (1225 – 1274م)نے اس بات کی بہت کوشش کی ہے کہ دین اور فلسفہ کے درمیان صلح و آتشی پیدا ہوجائے؛لیکن اسکی یہ کوشش بعض متدین افراد کے گروہ کی جانب سے بدعت و گمراہی کے فتوے کی نذر ہوگئی ۔

تاہم فلسفہ سے مراد اگر مطلقہ طور پر عقلانی معارف ہوں تو دین اور فلسفہ کا رابطہ بعینہٖ وہی ہوگا جو عقل اور وحی کا ہے اور اس بحث کا ایک دوسرا عنوان بھی یہی قرار پاجائے گا،فلسفہ کے مخالفین کے بعض دلائل سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ،ان کے اعتبار سے وحیانی معارف کے دامن کو نہ صرف یہ کہ مرسومہ فلسفہ سے بلکہ بشری تفکرات کی ہرطرح کی آلودگی سے پاک و صاف رکھنا چاہیئے؛ جیسا کہ فلسفہ کی مخالفت میں کلیسا کے بعض اراکین کی مخالفت کی وجوہات کچھ اس طرح بیان ہوئی ہیں:

ان لوگوں کی پوری کوشش یہ تھی کہ تعقّل کا ماجرا،چاہے کچھ دنوں کے لیے ہی سہی چرچ کو اپنی قدرت و حشمت کے دائرے میں لے آئےچاہے بعد میں اس پر سے اپنا کنٹرول کھونا ہی کیوں نہ پڑے،یا پھر چاہے لوگ ایمان کے راستہ سے کچھ یوں بھٹک جائیں کہ عیسائیت ،کفر و گناہ سے لبریز دنیا میں بے یار مددگار اور کمزورہوکر رہ جائے ۔

۴۔سائنس اور دين

اس جدید دور میں سائنس اور مذہب اور ان میں سے ہر ایک کے علاقے اور سرحدوں کا تعین ،مذہب کے فلسفہ اور علم کلام کےنظریہ کے اہم موضوعات میں سے ایک ہے،آج، تجرباتی علوم کی آمد اوراس میں دن دونی ترقی نے، انسانوں پر نئے افقوں کو کھول دیا ہے اور روز ہی دنیا کے راز ہائے سربستہ ایک ایک کرکے سامنے آتے جارہے ہیں کہ جس سے کبھی کبھی– ظاہری طور پر–ایسا لگتا ہے کہ یہ ساری چیزیں دینی تعلیمات سے کسی طور بھی مطابقت نہیں رکھتیں،قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ اگر « سائنس »سے مراد صرف تجرباتی علوم(Science)ہوتو «علم و دين» کی بحث «عقل و وحی» کی فہرست کے بحث میں آئیگی؛کیونکہ –جیسا کہ بیان کیا جاچکا –عقل سے اس جگہ پر مراد انسان کے وہ عمومی معارف ہیں کہ جو تجرباتی راستہ سے حاصل کی گئی شناخت و معرفت کو بھی اپنے اندر شامل کرلیتے ہیں؛لیکن اگر سائنس سے مراد(اس قرینہ کے ساتھ کہ وہ دین کے مقابل میں ہے) مطلق طور پر علوم ہو ں کہ جو عمومی طور پر معرفت کے راستوں سے جسے سبھی حاصل کرتے ہیں ، تو «سائنس اور دين» کا عنوان بعینہٖ «عقل اور وحی»کا معادل قرار پائے گا۔

«عقل اور وحی» سے مربوط مختلف نظریات

شاید ہی کوئی ایسا انسان ملے کہ جووحیانی معارف کو سمجھنے اور اس کی تفسیر و توضیح میں عقل کو پوری طرح سے بے فائدہ اور بے کار سمجھتا ہو، اور ایمان کی وادی میں داخل ہونے کے لیے عقل کے دامن کو چھوڑ دینے پر زور دیتا ہو،عقلی رجحانات و عقلانیت کے افراطی ترین اور بہت ہی سخت قسم کے دشمنوں اور مخالفین کے بیان میں تھوڑا سا بھی غور کرنے پر یہ بات روشن اور واضح ہوجائے گی کہ انکا اس رجحان پر حملہ آور ہونا صرف اس وجہ سے ہے کہ عقلانیت میں افراط سے کام لیا گیا ہے یا پھر دین میں عقلانیت کے استعمال کا کوئی خاص مقصد رہا ہے ،مثال کے طور پر، پولس قديس (حدوداً 3 – 62 م) نے–کہ جو باایمان عیسائی ہے اور سب سے قدیمی اور اہم افراد میں شامل ہے اور عقلانیت پسند لوگوں کا بہت ہی زیادہ اور بہت بڑا دشمن شمار ہوتا ہے–فقط نفسانی خواہشات سے آلودہ اور خاکی عقل کو اپنے حملہ کا ہدف قرار دیا ہے ،دنیائے اسلام میں بھی کچھ گروہ جیسے کہ اخباری حضرات –جنہوں نے دینی امور میں عقل کے استعمال پر تنقید اور اعتراض کرتے ہوئے بہت زیادہ بیانات صادر کئے ہیں –فقط «عقل فطری» کی حجیت پر تاکید کرتے ہیں؛اگرچہ کہ اس عقل فطری سے بہت ہی کم انسانوں کو بہرہ مند مانتے ہیں ،جبکہ دوسری جانب ،بعض عقلانیت پسند لوگ ہر ایک چیز کو عقل کی میزان اور اسکے معیار پر تولتے ہیں ،انہیں عقلانیت پسند لوگوں کا ایک گروہ اس قدر آگے بڑھ جاتا ہے کہ دینی تعلیمات کو بے عقلی (اور نتیجتاً اسکے نامقبول ہونے)پر استوار ہونے کا ادّعا کرنے لگتا ہے،اس طرز تفکر اور الگ الگ بیانات کے تفاوت نے مختلف نظریات پیدا کئے ہیں کہ جن میں سےہم اہم نظریات کو یہاں پر بیان کرتے ہیں۔

۱۔عقل پسندی

«عقل‏گرائی» ایک ایسا عنوان ہے کہ جو وسیع پیمانے پر مؤمنوں اور ملحدوں کے بہت سے گروہ کو اپنے اندر شامل کرلیتا ہے،بعض مغربی مفکرین نے عقل گرائی کو دو شاخوں حد اکثری اور انتقادی میں بانٹا ہے؛ان سب کے باوجود ہم عقل گرائی کی ایک دوسری قسم کوبھی کو بھی مورد بحث قرار دے سکتے ہیں کہ جسے ہم عقل گرائی اعتدالی کا نام دیتے ہیں۔

الف) عقل‏گرائی حداکثری

حد اکثری عقل گرائی سے مراد یہ ہے کہ «اپنے اعتقاد و یقین کی سچائی کو کچھ اس طرح پیش کریں کہ ہر ایک عاقل آپکی بات سے قانع ہوجائے » ،اگر چہ مشرقی اور مغربی عقل گرا مکتبۂ فکر کی اکثریت اس معیار کو مورد تائید قرار دیتی ہے مگر یہ چیز دلیل گرائی(evidentialism) ، –کہ جو عہدِ روشن خیالی ،کی اصل خصوصیت ہے –سے زیادہ قریب اور اس سے منسلک ہے۔

عام طور پر یورپ کی تاریخ کومختلف ادوار جیسے قدیم دور (Ancient Age)، قرون وسطیٰ، اور عصر جدید میں تقسیم کیا جاتاہے،عصرجدید کوبھی، نشاۃ ثانیہ(فرانسیسی و انگریزی: enaissance، اطالوی: nascimento) ،رفرمسيئن (اصلاح‏طلبی) ،اور عہد روشن خیالی کے درمیان سے الگ کرنا ہوگا، اگرچہ ان ادوار کے وقوع پذیر ہونے کا صحیح وقت بیان نہیں کیا جاسکتا ہے؛لیکن عام طور پر آٹھویں صدی کو روشن خیالی کا زمانہ کہتے ہیں،اس زمانہ کی ایک واضح خصوصیت عقل کوتوہمات و خرافات کی قید و بند سے نجات دلانا ہے؛اور عہد روشن خیالی کے کچھ متفکرین کے گمان کے مطابق سب سے زیادہ نقصاندہ توہمات و خرافات میں سے دین اور دینداری ہے کہ جس نے انسان کو آگے بڑھنے اور ترقی کرنے سے روک رکھا ہے ؛جیسا کہ ڈینس دیدرو ، (1713 – 1784 م) قدرتی نظاروں کے پیغام کے توسط سے نئے دور کے انسانوں کو خطاب کرتے ہوئے کچھ یوں بیان کرتا ہے:

اے توہمات کے غلامو! بلاوجہ اس دنیا کی حدود سے باہر، کہ جہاں میں نے تمہیں ڈال دیا ہے،اپنی خوشبختی کو تلاش نہ کرو،شجاع بنو اور اپنے آپ کو مذہب کے چنگل سےاور میرے حقوق تک کا پاس و لحاظ نہ رکھنے والے میرے گردن کش حریف سے مجھے آزاد کرو،ایسے خدا، کہ جنہوں نے ہماری قدرت و طاقت کو غصب کرلیا ہےانہیں مجھ سے دور کردو، اور میرے قوانین کے مطابق چلو۔۔۔۔اپنے آپ کو ایک بار پھر سے طبیعت ،انسانیت،اور خود اپنی آغوش کے حوالے کردے،ایسی صورت میں پتہ چلے گا کہ تیری زندگی گلزار بن چکی ہے ۔

عہدِ روشن خیالی کی اصل خصوصیت اور اسکی فکری بنیادوں کو دليل‏گرائی(evidentialism) کا نام دیا جاسکتا ہے ،دلیل گرائی سے مراد یہ ہے کہ ایک خردمند اور عاقل انسان اس بات کے لیے مُجاز نہیں ہے کہ بغیر دلیل و شواہد کےکسی چیز پر اعتقاد رکھے،دلیل گرا افراد کے شعار اور ان کے نعرہ کو انگریزی ریاضی داں کليفرڈ ، (1845 – ۔1879 م)کے اس مشہور بیان میں یکجا دیکھا جاسکتا ہے: «ہمیشہ، ہر جگہ اور سب کے لیے، ناقابل ثبوت دلائل کی بنیاد پر کسی بھی چیز پر یقین رکھناغلط ہے» ۔

کلیفرڈ اور اسکے ہم فکر لوگ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ہر چیز کی عقلانیت کا معیار ،قابل قبول دالائل کا اسکے ہمراہ ہونا ہے اسی کو بنیاد بناتے ہوئے انہوں نے –اشارتاً یا صریح الفاظ میں –اعتقادات کو اپنے حملہ کا ہدف قرار دیا ہےاور کچھ عقائد جیسے کہ خدا کے وجود کو (معقول دلائل کے فقدان کی بنا پر)غیر عقلانی شمار کیا ہے۔

ولیم کلیفرڈ نے اپنے نظریات کو ایک مقالہ میں«اصول ‏اخلاقی اعتقاد» کے عنوان سے شائع کیا ہے،اس مقالہ کا آغاز ایک کشتی کے چھوٹے سے قصّہ سے ہوتا ہے:

بحری مسافربردار جہاز کی خستہ اور پرانی حالت –کہ جو دریائی سفر کے لیے تیار کیا جارہا تھا –اسکے مالک کے ذہن کو تشویش میں مبتلا کئے ہوئے تھا ،وہ اس فکر میں ڈوبا ہوا تھا کہ شائد جہاز کا جسم سمندر کی خوفناک لہروں کا سامنا نہ کرپائے ، جس کے نتیجے میں، وہ اپنےبے شمار مسافروں کو موت کے منھ میں بھیجنے کا سبب بنے گا،یہ بات اسے بہت زیادہ کھٹک رہی تھی اور اسے پریشان کئے ہوئے تھی، اسکی اخلاقی اور عقلی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ اس جہاز کی جانچ پڑتال اور اسکا معائنہ کرے، اور اگر ضروری ہو تو اسکی مرمت اور پھر سے اسکی صحیح سے دیکھ بھال کرکے اسکی خرابیوں کو دور کرے؛لیکن اس کام میں بہت زیادہ پیسہ خرچ ہوتا،اسی لیے آخرکار اس نے اپنی اس ہولناک فکر پر قابو پالیااور اس توجیہ کے ساتھ کہ«یہ جہاز ابھی تک کامیابی کے ساتھ کئی سفری دوروں کو پورا کرچکا ہے، اور پروردگار اس سے کہیں زیادہ مہربان ہے کہ وہ اس جہاز کو غرق کرکے اتنے بہت سے خاندانوں کو سوگوار و عزادار اور ماتم میں بیٹھا دے گا »اس طرح اس نے اپنے آپ کو اور اپنے ضمیر کو تسلّی دےدی، تاہم، کچھ مدت بعد، سمندر کے بیچوبیچ جہاز کے ڈوبنے کی خبر، جہاز کے مالک تک پہنچی،اور وہ بغیر کسی فکرمندی کو لاحق کئے،انشورنس کے پیسے وصول کرتا ہے اور اپنی روز مرّہ کی معمول اور عام زندگی کو جاری رکھتا ہے ۔

کلیفرڈ، اس کہانی کو بیان کرنے کے بعداس نکتہ کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ بیشک ہم سب عقل سلیم کے حکم کے مطابق کشتی کے مالک کو مورد الزام ٹھہرائیں گے کہ وہی مسافروں کی موت کا سبب ہے؛چاہے قانون اسے مجرم نہ مانے،کلیفرڈ کے مطابق کسی بھی یقین و اعتقاد کا بنیادی مسئلہ خود وہ یقین ہی نہیں ہوتا ، بلکہ اہم یہ ہوتا ہے کہ کس طرح سےکہاں سے اور کیسے وہ عقیدہ ابھر کر سامنے آیا ؛ کشتی کا مالک کشتی کے مستحکم ہونے کے بارے میں ان شواہد کو پس پشت ڈالنے کا گناہ گار ہے جو یہ بتاتے تھے کہ کشتی میں خامی موجود ہے اور اس بات کا بھی گناہ گار ہے کے اس نے اپنے دل میں اٹھنے والے شکوک و شبہات کو بغیر کسی عقلی دلیل کے بیٹھا دیا اور اچھی طرح سے اس پر دھیان نہیں دیا، کلیفرڈ کے مطابق اگر کشتی صحیح و سالم اپنی منزل تک پہنچ بھی جاتی تب بھی، کشتی کے مالک کے گناہ اور اس کی کوتاہی میں سوئی کی نوک کے برابر بھی کمی واقع نہیں ہوگی اور اس کا کام کسی بھی صورت سے صحیح قرار نہیں دیاجاسکتا؛ کیوں «صحیح اور غلط کا مسئلہ یقین اور اعتقاد سے مربوط ہے نہ کہ اس کے متعلقات یا کسی جَنبی باتوں سے ؛یہ ساری چیزیں، یقین کیسے حاصل ہوا اور اسکا ذریعہ کیا تھا، اس سے مربوط ہے نہ کہ اس کی کسی دوسری قسم سے» ۔

ب) انتقادی عقل‏گرائی

انتقادی عقل گرائی کے نام سے موسوم نظریہ کی بنیاد پر «دینی اعتقادات کے نظام کو عقلی طور پر نقد کے کٹگھرے میں لا کھڑا کیا جاسکتا ہے بلکہ نقد کر بھی سکتے ہیں اور اسکے ذریعہ دینی اعتقادات کے نظام کی جانچ پڑتال بھی کی جاسکتی ہے؛اگرچہ اس طرح کے نظام کو قطعی طور پرثابت کر پانا ممکن نہیں ہے» ، جو لوگ اس نظرئےکی حمایت کرتے ہیں وہ دو اعتبار سے اپنے موقف کو انتقادی بتاتے ہیں: دینی عقائد میں نقادانہ نقد و نظر کے ساتھ اس میں عقل کے استعمال پر تاکید (بجائے اس کے کہ اسے قطعی طور پر ثابت کیا جائے )، عقل کی صلاحیتوں کے بارے میں کوئی خوش کن امید رکھے بغیر تنقید کو آگے بڑھانا ،یہ گروہ« سب کے لیے اثبات» کے مسئلے کو محال مانتا ہے –جس کی عقل گرائی حداکثری خواہشمند –تھی اور اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ « شخص سے وابستہ اثبات» ایک طرح سے نسبیت کی جھلک دیتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ افراطی عقل گرائی کی تنقید کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ« انتقادی عقل گرائی» کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا جائے، نسبی گرائی کورَوا جانے بغیر اسلام کے اصیل منابع عقل کی محدودیت، اور تفکرات میں لغزشوں کے پائے جانے پر تاکید کرتے ہیں اور صاحبان عقل و خرد کو عقل کی صلاحیتوں کے بارے میں افراط و تفریط سے بچتے رہنے کی یاد دہانی کرتے ہیں، اس نظریہ کو« معتدل عقل گرائی» کا نام دیا جاسکتا ہے۔

ج) معتدل عقل گرائی

قرآن کریم نے انسانوں کو غور و فکر کرنے اور تدبر کرنے کی دعوت دی ہے اور جو لوگ اپنی عقل کا استعمال نہیں کرتے انہیں جانوروں سے بھی بدتر شمار کیا ہے ، اس کتاب ہدایت میں، گذرے اور اگلے لوگوں کی اندھی پیروی کو شدت سے منع اور بہت سخت الفاظ میں سرزنش کی ہے ،اور حکمت آموز کلمات و بیانات کو عبرت کا باعث کہ جس سے صاحبانِ خرد فائدہ اٹھاتے اور اسے اپنی ہدایت کا سبب جانتے ہیں ،قرآن کریم بجائے اس کے کہ لوگوں کو تعبّدِ محض کی دعوت دے دینی عقائد کو بغیر کسی دلیل کے قبول کرلینے پر زور دے، خود ہی عقلی دلائل پیش کرتا ہے، اور اپنے مخالفین سے بھی برہان طلب کرتا ہے ، خلاصہ ٔکلام یہ کہ اس الٰہی کتاب کے نقطۂ نظر سے انسان کا سب سے بڑا اور حقیقی گناہ –کہ جو اسکے دوزخی ہونے کے اسباب کو فراہم کرتا ہے –عقلی رہنمائیوں اور اسی ہدایتوں سے سرپیچی کرنا ہے؛ جیسا کہ قرآن مجید اہل جہنم کی باتوں کو کچھ اس طرح سے پیش کرتا ہے : «اور پھر کہیں گے کہ اگر ہم بات سن لیتے اور سمجھتے ہوتے تو آج جہنّم والوں میں نہ ہوتے» ۔

اہل بیت پیغمبرعلیہم السلام: بھی عقل کے رتبے کو بہت ہی بلند و بالا مقام پر رکھتے ہیں اور عقل کی اعتدالی روش کو اپنانے میں ہر صاحب خرد سے سبقت لے گئے ہیں جیسا کہ آئمہؑ :سے مروی روایات، اس بات پر شاہد ہے، بطور مثال امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے مروی ایک روایت جسے ہشام نے نقل کیا ہے خصوصی توجہ کی طالب ہے،امام 7نے اس حدیث شریف میں جہاں عقل کی خصوصیات کو شمار کیا ہے وہیں عقلاء کی بہت ہی زیادہ تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے:

لوگوں پر خدا کی دو حجتیں ہیں! ظاہری حجت اور باطنی حجت؛حجتِ ظاہری انبیاء و مرسلین اور ائمہ ہیں اورحجت باطنی، عقلیں ہیں ۔

لم يُطلعِ العقولَ علي تحديد صفته، و لم يحجُبها عن واجب معرفته؛ ، خدا نے اپنی صفات کی اصلیت کے بارے میں عقل کو آگاہ نہیں کیا ہےاور اپنی معرفت اور شناخت کے لیے عقلوں پر پردہ نہیں ڈالا ہے۔

اس بنیاد پر، ہم لوگ بھی «حداکثری عقل گرائی »کے مدافعین کی طرح اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ« ہمیشہ، ہر جگہ اور ہر ایک کے لیےہر چیز پر ایمان لے آنا غیر قابل قبول دلائل کو بنیاد بناتے ہوئے، ایک نادرست اور غلط کام ہے»،وہ چیز جو ہمارے اور اس گروہ کے درمیان جدائی پیدا کرتی ہے،وہ ان دلائل کا قابل قبول یا ناقابل قبول ماننے کے سلسلہ میں ہے کہ جو خدا کے وجود کا اثبات کرنے کے لیے اور دیگر دینی تعلیمات کو ثابت کرنے کے لیے پیش کئے جاتے ہیں،دوسرے الفاظ میں اگر بیان کیا جائے تو، اس مقام پر، ہمارا اختلاف مذکورہ گروہ کے ساتھ اصطلاحی طور پر ایک صغروی اختلاف ہے نہ کہ کبروی،اور یہ بات تو بغیر بیان کئے بھی واضح ہے کہ ان دلائل کا ایک ایک کرکے چھان بھین کرنا اور انکاجائزہ لینا اور ان کے یقینی یا غیر یقینی ہونے کو ثابت کرنا اس کتاب کی گنجائش اور اسکے مقصود سے باہر ہے،لیکن جو نکتہ اس مقام پر قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ بعض دین بیزار لوگ ایک کھلے اور آشکار مغالطے کے ذریعے کچھ اس طرح سے ظاہر کرتے ہیں کہ جو کوئی بھی عقل کا سہارا لے کر دینی مدعیات و تعلیمات کا انکار کرے وہی حقیقت کا متلاشی اور صاحب عقل ہے؛ جب کہ جو کوئی بھی عقل کا استعمال کرتے ہوئے انہیں دینی مدعیات کو ثابت کر لے جائے وہ ان کی اصطلاح میں عقل کا دشمن، عقل سے گریزاں، اور چھوٹی فکر والا ہے!کیا ایسی باتیں «مطلوب میں مصادرہ » اور اس غیر قابل قبول مقدمہ کے اوپر مبنی نہیں ہیں کہ عقل اور وحی آپس میں ایک دوسرے سے الگ اور جدا ہیں اور ان کے درمیان جنگ کی حالت موجودہے؟ اگر حداکثری عقل گرائی کے مدافعین اس علت اور سبب کی وجہ سے خدا پر یقین رکھنے والوں کے دلائل کو «عقلی » نہیں مانتے ،کہ ان دلائل نے ابھی تک تمام عقلائے عالم کو قانع نہیں کیا ہے ،توکیا ملحدوں کے دلائل، اس سلسلے میں دین پر یقین رکھنے والوں کے دلائل سے برتر اور فوقیت رکھتے ہیں؟حقیقت سے کام لیتے ہوئے سچ مچ یہ بتائیں کہ کیا عقلمندی اور خرد مندی کا تقاضہ یہی ہے کہ ہمیشہ عقل کی رہنمائیوں کو قبول کیا جائے،سوائے اس مقام پر کہ جہاں عقل، معرفت کے ایک دوسرے منبع (وحی) کی طرف ہمیں لے جانے کی کوشش کرے؟!

۲۔ايمان‏ پسندی

اسلامی ثقافت میں، علم اور ایمان کا آپس میں بہت ہی گہرا رابطہ بتایا گیا ہے؛کچھ اس طرح سے کہ ان میں سے بعض چیزیں نے یگانگی و یک رنگی پیدا کر لی ہے،کچھ اس طرح سے کہ ایمان کو سوائے معرفت اور شناخت کے راستے کے کچھ اور نہیں جانتے؛جبکہ دوسرا گروہ اگرچہ ان کی وحدت کو قبول نہیں کرتا ہے،پھر بھی اس نکتے پر زور دیتا ہے کہ بغیر «آگاہی» کے ایسا نہیں ہوسکتا کہ «ایمان » کو حاصل کیا جا سکے کیونکہ «دل بستگی » « علم اور معرفت» کے ساتھ ساتھ ہی ہے ،علم کے بارے میں اسلامی روایات میں بھی بتایا گیا ہے کہ وہ ایمان کا بہترین ساتھی اور ہمدم ہے ،اور ایمان بغیر تعقل اور فکر کے ایک ناممکن شئے شمار کی گئی ہے ۔

تاہم، عیسائی ثقافت میں ایمان کو عقل کا متبادل مانا جاتا ہےاور اسے اسکی جگہ پر رکھ دیا جاتا ہے اور ان دونوں کے متعلقات کی علٰحدگی پر زور دیا جاتا ہے:

محال ہے کہ چیز۔۔ایک معین و مشخص شخص کے لیے۔۔علم کا بھی موضوع قرار پائے اور ایمان کا بھی موضوع قرار پا جائے،ان سب کے باوجود ممکن ہے کہ۔۔کوئی چیز ایک آدمی کے لیے بصیرت یا عالم کا موضوع ہو اور وہی چیز دوسرے کے لیے ایمان کا سبب قرار پائے؛کیونکہ ہمیں اس بات کی امید ہے کہ وہ چیز جس کے بارے میں ہم آج ایمان رکھتے ہیں یعنی تثلیث کے بارے میں جو ہمارا ایمان ہے وہ ایک دن ہماری آنکھوں کے سامنے ہوگا اور ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ۔

اسی بنیاد پر، ترتاليان[طرطلیان ] ، (160 – 220 م)اس بیان کو –کہ جس کے بارے میں بعض مصنفین کا بیان ہے کہ جس سے زیادہ اور بڑا متناقض جملہ نہیں کہا جاسکتا –اپنے بعد کے ایمان پسندلوگوں کے لیے بطور یادگار چھوڑ گیا ہے کہ: «میں یقین رکھتا ہوں؛ کیونکہ یہ نامعقول ہے» آگسٹین ، (354 – 430 م)کے مطابق، سمجھ بوجھ،ایمان کا اجر اور پھل ہے،نہ کہ اسکی بنیاد اور اسکی دیوار«اس بات کی کوشش نہ کرو پہلے سمجھ بوجھ لو اور پھر ایمان لاؤ،بلکہ ایمان لے آؤ تاکہ سمجھ سکو۔ »، مارٹن لوتھر ،(1483 – 1546 م)بھی کہتا ہے کہ: «اگر میں منطق کی مدد سے سمجھ سکتا کہ کس طرح سے رؤوف ومہربان خدا اس قدر بے انصاف اور غصہ ور ہو سکتا ہے تو پھر ایمان کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں بچتی »،اور آخر میں فرانسیسی شاعر جیکوپون ، اپنے شعری ٹکڑے میں ایمان پسند مشترکہ احساسِ دل کو کچھ اس طرح سے منعکس کرتا ہے:

افلاطون اور سقراط آپس میں مجادلہ کرتے ہیں –اپنی تمام طاقت و قوت کے ساتھ –اان کی بحث کا کوئی خاتمہ نہیں–لیکن ہمیں ان کی باتوں سے کیا لینا دینا–ہمارا قلب و دل پاک و صاف ہے–اپنے راستے کو مستقیم طور پر ملکوت سے جوڑے ہوئے ہے –اور خدا کی تعریف وتوصیف کرتا ہے –جب کہ کائنات کا فلسفہ بہت دور دراز کے راستے سے آیا ہے ۔

اس لیے مذکورہ بیان کی روشنی میں،ایمان گرائی سے مراد ایک ایسا نظریہ ہے کہ جو دینداروں کو اور دین پسند افراد کو دینی یقین و ایمان اور اعتقادات کے عقلائی تجزیئے اور اس کی تشخیص سے روکتا ہے،اس نظریہ کی بنیاد پر، ایمان،«اپنے انجام سے بچنے کے لیے مؤمنوں کا دل بہلانے کا ایک وسیلہ ہے» اور عقلانی فیصلے اس کے زوال یا اس کی بقا میں کوئی کردار نہیں نبھاتے ، اگر کوئی اپنے ایمان کی عقلی تشخیص دینے پر اتر آئے، تو وہ حقیقت میں بے ایمان ہے اور اپنے اندرونی کفر سے آگاہ کر رہا ہے ،خلاصۂ کلام یہ کہ –اس گروہ کے نقطۂ نظر سے –ایمان کا مطلب ایسی چیزوں کو قبول کرلینے کے معنوں میں ہے کہ جس کے سلسلے میں عقل کوئی کردار نہیں بھاتی اور اس کو ثابت کرنے میں عقل کا کوئی کردار نہیں ہے یہاں تک کہ عقل چاہے اس عقیدے اور ایمان کو غیرموجّہ ہی کیوں نہ پائے پھر بھی اس میں عقل کا کوئی کام نہیں ہے ۔

نقد و نظر: ایمان کی ایک نئی تعریف پیش کرنے میں بذاتہٖ کوئی اشکال نہیں ہے؛ لیکن اگر یہ کام اس لیے کیا جا رہا ہو کہ معقول اور موجّہ دلائل سے فرار کیا جائے تو اس کے بارے میں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ «ایک مسئلہ کی صورت کو بگاڑا جا رہا ہے» جیسا کہ ایک مغربی مصنف کہتا ہے:

فقط اس نئے معنی میں ایمان کے لفظ کو استعمال کرنے سے، یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ ایمان حقیقت تک پہنچنے کا راستہ ہے، یہ نام گزاری اسی طرح سے ہے کہ جیسے «جیت جانے» کے لفظ کو کھیل کے احتمالی نتائج میں سے شمار کرنے کے بجائے اسے «کھیل» کے مترادف کے طور پر استعمال کیا جائے، یہ کام ،اگرچہ ایک عجیب وغریب چیز کہلائے گی؛ لیکن جیت کو ثابت کرنے کے لیے، کسی بھی صورت اسے ایک رضایت بخش اور صحیح طریقہ نہیں مانا جائے گا کیونکہ جب بھی ہم جیت جانے کے لفظ کے معنی کو بدل دیں گے تو کامیابی فقط ایک خیالی چیز ہوجائے گی ۔

تاہم ایسا لگتا ہے کہ راسخ العقیدہ اعتقاد و یقین اور عقلی دلائل سے عقائد کو ثابت کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے اور اس میں کسی طرح کی کوئی منافات نہیں پائی جاتی، واضح تر تعبیر کی روشنی میں اگر کہا جائے تو، اگرچہ عقل کا راستہ اور دل کا راستہ ایک دوسرے سے جدا ہیں، کسی ایسی چیز سے« دل لگانا » کہ جس کو عقلی دلیل بھی موجّہ اور صحیح مانتی ہو، ایک نامعقول فرضیہ نہیں ہے، قابل ذکر ہے کہ بعض عیسائی مفکرین بھی ایمان کی پیدائش میں علم و آگہی کے کردار سے بے توجہ نہیں ہیں اور اس جانب انہوں نے بھی توجہ دی ہے اور ایمان کے استحکام کو تین عناصر «معرفت و شناخت، تسلیم و رضا اور اعتماد» سے وابستہ جانا ہے ۔

خلاصۂ کلام یہ کہ تین قضایا:عقلی، فرا عقلی اور ضد عقلی –کہ بعض اوقات جنہیں بالترتيب، خردپذير، ، خردگريز و خردستيز کہا جاتا ہے – کے درمیان سے، ایمان، ایک شکل میں مناسب اور معقول اور دو شکلوں میں نامناسب اور غیر معقول لگتا ہے،عقل سے دوری اور عقل سے گریزاں قضیئے کہ جن کے باطل ہونے کی عقل واضح طور پر نشاندہی کرتی ہے (جیسے کسی مربع نما چیز کا دائرے میں ہونا)وہ چیزیں ایمان سے متعلق نہیں ہو سکتیں،وہ قضیئے کہ جن کے بارے میں عقل اکیلے ہی یہ فیصلہ کر سکتی ہو کہ وہ حقیقت کے مطابق ہیں تو ایسے قضیئے ایمان کے مرتبے تک جا پہنچتے ہیں ؛جیسا کہ خدا کے وجود کو ہم بعض اوقات عقلی استدلال کی بنیاد پر قبول کرلیتے ہیں ،اور کبھی کبھی اسی عقلی مطلب کو اندرونی طور پرایک راسخ عقیدے میں بدل لیتے ہیں، تیسری قسم کے قضیئے میں کہ جسے ہم خرد گریز یا فرا عقلی کہتے ہیں ، ہر چیز سے زیادہ یہ ایمان کے کام آتے ہیں، البتہ اگر یہ قضایا کسی ایسے سے صادر ہوں کہ جس کا قول و فعل اور اس کی باتوں کی حجیت اور اعتبار متقن دلائل کے ذریعے سے پایۂ اثبات تک پہنچ چکی ہوں، تو عقل بھی ایسے ایمان پر مہر تائید لگاتی ہے۔

۳۔نص ‏پسندی

کچھ ادیان و مذاہب جیسے کہ اسلام –کہ جس کے ماننے والوں کا اصلی مرجع وحیانی متن ہے کہ جس کے الفاظ بھی مستقل طور پر وحی الٰہی سے منسلک مانے جاتے ہیں –کچھ ایسے مکاتب فکر کے ظہور کا شاہدہے کہ جو الفاظ کے ابتدائی اور ظاہری معنی پر بھروسہ کرتے ہوئے دینی متون میں جمود کے شکار نظر آتے ہیں اور ایسا ہونا امید کے برخلاف بھی نہیں ہے ،دین کے سلسلے میں نص گرایانہ نظریہ، ایک بڑے گروہ اور بہت ہی زیادہ افراد کو اپنے اندر شامل کئے ہوئے ہے کہ جن کی مشترکہ خصوصیت تعقل و تفکر سے بے اعتنائی ہے ،ان کے نظریئے کے مطابق ،عقل کی رہنمائی صرف اس وقت تک فائدہ مند ہے کہ جب تک وہ ہمارے ہاتھوں کو رہبرانِ دین کے ہاتھوں میں نہ سونپ دے؛ اگرچہ کہ اس گروہ کے بعض افراد عقل کی اس منزلت کو بھی قبول نہیں کرتے، اور دین کے بنیادی ستونوں کو بھی عقلی دلائل پر استوار نہیں مانتے، تاہم، بہت سارے ایسے بھی افراد نظر آتے ہیں کہ جو خود دینی تعلیمات کے دفاع میں عقلی دلائل کا استعمال کرتے ہیں، پھر بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عقل اگر الفاظ کے ظواہر سے اوپر اٹھ کر مفاہیم کو عمیق ترین طریقے سے سمجھ سکتی ہو تب بھی وہ ہمیں کسی بھی مقام تک نہیں پہنچا سکتی اور اسکی پیروی میں ہمیں سوائے حدس و گمان کے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔

دنیائے اسلام میں اور شیعی معاشرے میں کچھ گروہ جیسے کہ« اخباری حضرات » دین کے ظاہری متون میں جمود کے شکار نظر آتے ہیں ، اور عقل کی کدو کاوش کو سوائے ایک بے بنیاد گمان کے کچھ اور نہیں مانتے: «فحاصلُ العقول‏کلّها ظنونٌ و خيالات و منتهي ‏الامر اوهام و حسبانات» ، یہ گروہ عقل کی تعریف و توصیف میں وارد ہونے والی احادیث و روایات سے آنکھ بند کرتے ہوئے، قیاس کے سلسلے میں معصومین ، سے وارد ہونے والی تنبیہات و سرزنش کو عقلی استدلال کے بے اعتبار ہونے کے معنوں میں گمان کرتے ہیں!

تاہم، نص گرائی کے شواہد و مثال کو اہل سنت کے درمیان زیادہ تلاش کرنا چاہیے، کیونکہ ان میں سے بعض گروہ –روایات میں جمود ورزی کی بنیاد پر «اہلحدیث » کے نام سے مشہور ہوئے ہیں –دینی متون پر توجہ اور اس کا بہت ہی زیادہ اہتمام کرتے ہوئے عقل کو پوری طرح سے بے اعتناء اور بے اعتبار گمان کرتے ہیں اور نص گرائی کے سلسلے میں اس قدر افراط کا شکار نظر آتے ہیں کہ جو کچھ بھی حدیث کے نام پر ان تک پہنچتا ہے، اس کو احترام کی نظروں سے دیکھتے ہیں، اور اس بات پر ذرا بھی توجہ نہیں رکھتے کہ اس کی سند صحیح بھی ہے یا نہیں، یہ گروہ –کہ جو بے اساس اور جعلی احادیث کو بغیر کسی دلیل کے قبول کرنے میں آگے آگے ہے «حشويہ» کے نام سے جانا جاتا ہے –اپنی نص مدار اور ظاہر گرا روش کو استعمال کرنے میں یہاں تک جا پہنچا ہے کہ یہ گروہ بغیر کسی روک ٹوک اور پردہ پوشی کے خدا کے جسمانی ہونے پر زور دیتا ہے ،اور واضح الفاظ میں اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ با اخلاص مسلمان عبودیت اور بندگی کے راستے سے اس مقام تک پہنچ سکتا ہے کہ وہ خدا کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دیدے اور اس کو چوم لے ۔

تاہم اصحاب حدیث کی اکثریت، تشبیہ اور تجسیم کے دامن میں الجھنے سے خوفزدہ تھے ،اور اس کے راہ حل کے لیے یہ راستہ اپنائے ہوئے تھے کہ خدا کی انسان صفت ،صفات ومعانی کے بارے میں کوئی بیان نہ دیں، اسی وجہ سے جب مالک ‏بن ‏انس (93 – 179 ق) سے «خدا کے عرش پر استواء» ، کے سلسلے میں سوال پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:الاستواء معلوم و الکيفية مجهولة و الايمان به واجب و السؤال عنه بدعة ؛استوا کا معنی واضح اور آشکار ہے اور وہ کیسے اور کس طرح سے ہے وہ واضح اور روشن نہیں ہے [ان سب کے باوجود ]اس [حقیقت] پر ایمان رکھنا واجب اور ضروری ہے اور اس سلسلے میں کوئی سوال کرنا بدعت اور ایک ناروا کام ہے۔

نقد و نظر: نص گرائی کے نظریئے کی نقد میں دو نکات کے ذکر پر اکتفاء کریں گے:

1– بلاشبہ ،خدا اور اس کے رسول پر ایمان کا لازمہ یہ ہے کہ خدا کے کلام کو بغیر کسی چوں وچرا کے قبول کیا اورمانا جائے اور کوئی بھی اپنی طرف سے، اور بغیر کسی عقل پسند معیارکے ،کوئی تاویل پیش نہیں کرسکتا اور اپنا دل پسند اور مَن پسند معنی کتاب وسنت پر تحمیل نہیں کرسکتا ،کیونکہ یہ تفسیر بالرائے کہلائے گی کہ جس کی دینی رہنماؤں نے سخت مذمت کی ہے۔

اس بنیاد پر، ظاہر کی پیروی کرنا ایک شائستہ اور اچھا کام ہے، لیکن کبھی کبھی اس حق بات سے باطل معنی مراد لیا جانے لگتا ہے، کہ جس کی واضح نشانیاں افراطی نص گرائی کے دامن میں جلوہ گر نظر آتی ہیں، بہت سے نص گرا افراد نے کتاب وسنت کی ظاہری پیروی کا شعار اور نعرہ بلند کرتے ہوئے خدا کو جسمانی صفات کا مالک بنا دیا ہے، جبکہ جن آیات و روایات کو وہ اپنی سند کے طور پر پیش کرتے ہیں وہ کسی بھی طرح سے اس مطلب کو بیان نہیں کرتے، مثال کے طور پر،« ہاتھ» –کا لفظ جو غالبا انسانی جسم کے اعضاء و جوارح کی جانب اشارہ کرتے ہیں –جب کچھ اس طرح کی ترکیب کہ جیسے ،« گشادہ دستی یا گشادہ روئی» کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے تو پھر وہ جسمانی اعضاء کےمعنوں میں نہیں ہوتا،اور واضح طور پر ایک استعاری معنی پہنچاتا ہے، تاہم ،تعجب خیز بات یہ ہے کہ کچھ لوگ جیسے کہ ابن تیمیہ، آیت «بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ » ، کے ذریعہ بھی خدا کے لیے جسمانی ہاتھ کے اثبات سے گریز نہیں کرتے! ۔

2– خدا کی، انسان نما خصوصیات کے بارے میں –کہ جسے کلام ِاسلامی کی اصطلاح میں صفات خبریہ کا نام دیا جاتا ہے–بعض لوگ «تعطیل» کی طرف چلے گئے ہیں اور انسان کی عقل کو ان صفات کے معانی کو سمجھنے اور درک کرپانے میں ناتواں اور مجبور گمان کرتے ہیں، ایک دوسرا گروہ «تشبیہ» کے دامن سے الجھا ہوا ہے اور خدا کی طرف جسم و جسمانیات کی نسبت دینے سے بھی خوف نہیں کھاتا،جبکہ ایک تیسرا گروہ مبہم اور معمّہ گوئی سے کام لیتے ہوئے کبھی اس نکتہ پر زور دیتا ہے کہ خدا کے لیے ہاتھ پاؤں ہونا اپنے لغوی معنوں میں ہی ہے؛لیکن ان سب کے باوجود خدا کا ہاتھ پاؤں انسانوں کی طرح نہیں ہے،اسی طرح خداوندمتعال حقیقت میں اپنے عرش سے نیچے آتا ہے؛ جیسا کہ ہم لوگ کسی بلندی سے نیچے آتے ہیں؛ اس تفاوت کے ساتھ کہ خدا کے نزول سے خدا کا عرش، خدا کے وجود سے خالی نہیں ہوتا ،اور کبھی یہ گروہ «بلا کیف» کی عبارت کو ایک مستحکم قلعہ کے طور پر گمان کرتا ہے کہ جو انہیں ہر طرح کے اتہامات اور تشبیہ کی تہمتوں سے امان میں رکھتا ہے:

قد شبّهوه بخلقه و تخوّفوا شنعَ الوري فتستّروا بالبَلکفة ۔

شاید وہ چیز جس نے ہر چیز سے زیادہ اہل حدیث کو اس گومگو اور غیر قابل اطمینان حالت میں پہنچادیا ہے وہ ان روایات کا وجود ہے جو کسی بھی طرح سے خدا کی جسمانی صفات کے بارے میں پردہ پوشی کی بات کرتی ہیں،حقیقت ہے کہ جب روز قیامت خدا کے دیدار سے مربوط احادیث کو بغیر کسی سند اور دلیل کا جائزہ لیے ہر ضعیف روایت کو قبول کرلیں گے تو نتیجہ تو یہی نکلے گا کہ عدم رؤیت والی واضح اور صاف و شفاف آیت«لا تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ و َهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ » کو بھی رویت کے منافی گمان کرنے لگیں گے بلکہ اس آیت کو بھی رؤیت و دیدار کو ثابت کرنے والی آیت ماننے لگیں گے ! [1]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منبع:

[1] حسن یوسفیان، کلام جدید باب ہشتم، ترجمہ سید لیاقت علی کاظمی

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .