۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
News ID: 385980
22 نومبر 2022 - 16:51
مضمون نگار 

حوزہ/ گھر میں کوئی بات ہوتی ہے تو ڈر لگا رہتا ہے کہ کل کہیں اخبار میں مضمون کی صورت میں کچھ آ نہ جائے۔ میں نے یہ سنا تھا کہ معاشرے کی اصلاح کرنی ہے تو اپنے گھر سے شروع کریں۔ لیکن عملی طور پر پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ ہر چیز میں اصلاح کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔

تحریر:فائزہ خان،اسکالر اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی | بہت خوشی کی بات ہے آپ کی بیٹی کا مضمون انقلاب روزنامہ میں شائع ہوا ۔ بہت اچھا لکھتی ہے ماشاء اللہ قابل تعریف۔ ہماری اولادیں ہیں ایک دم سے بے کار نکمی۔ کسی کام کی نہیں ہیں۔ اردو سے ایم اے کرا کے ایک بیٹی کی شادی کر دی ۔ بیٹا باہر چلا گیا۔اب ہم دونوں میاں بیوی گھر میں اکیلے رہتے ہیں۔ میں دن بھر اخبار پڑھتا ہوں بیگم صاحبہ کو پاکستانی ڈرامے پسند ہیں۔ اب کی بار جب آپ کی بیٹی آے تو اس سے ضرور ملوانا۔ جو بیٹی اتنا اچھا مضمون لکھتی ہے اس کی شخصیت کیسی ہوگی۔ یہ آپ کی کون سی بیٹی ہے؟ جو باہر پڑھتی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ وہ تو بہت ٹیلینٹڈ ہے ماشاء اللہ۔ اور آج کا مضمون پڑھ کے تو یقین بھی آ گیا ۔ ماشاء اللہ بہت اچھا لکھتی ہے۔

یہ میرے دوست تھے۔ جو میری بیٹی کی تعریفیں کرتے نہیں تھک رہے تھے حتی کہ مجھے بولنے کا موقع بھی نہیں دے رہے تھے کہ میں صاف کر دوں کہ وہ جس بیٹی کو سمجھ رہے ہیں وہ میری بڑی بیٹی ہے۔ اور اخبارات کے لئے مضامین میری چھوٹی بیٹی لکھتی ہے۔ جس سے پوری فیملی کی ہمیشہ ٹھنی رہتی ہے۔ وہ بالکل بھی اپنے مضامین کی طرح سلجھی ہوئی نہیں ہے۔ اس کے کمرے میں کوئی نہیں جا سکتا۔ اس کی چیزیں کوئی نہیں چھو سکتا۔ اس کو کسی کا دیا ہو تحفہ پسند نہیں آتا۔ کوئی بھی چیز ادھر سے ادھر ہو جائے تو گھر میں آفت آ جاتی ہے اس کے ہاتھ میں تین روپیے والی قلم ہو تو آپ اس سے بات نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو اس کے ذہن سے مضامین اڑ جائیں گے۔اس کے بعد نتائج کے ذمہ دار آپ ہوں گے اگر اس کی امی کہہ دیں کہ روٹی گول بناو تو اس کا جواب ہوتا ہے کہ کون سی سیدھی نگلنی ہے۔ کچن میں ہوتی ہے تو پورے گھر کا ذہن لگا رہتا ہے کہ کچھ گڑ بڑ نہ ہو جاے کیوں کہ اگر اس کے ذہن میں کوئی مضمون آ جائے تو پھر وہ اسی حالت میں کچن کو چھوڑ کر مضمون لکھنے بیٹھ جاتی ہے۔ پھر کچن میں کیا ہو رہا ہے اس کو فرق نہیں پڑتا اگر ایک بار کوئی مضمون لکھ لے تو جب تک شائع نہ ہو جائے پورے گھر کی جان عذاب ہوتی ہے۔ وہ مضمون ساری فیملی کو رٹ جاتا ہے۔ اس میں کوئی نقص نہ ہو اس کے لئے وہ اپنا ایک مضمون پوری فیملی کو دس بار سے زیادہ پڑھاتی ہے۔

وہ لکھتی ہے اس لیے ہم لوگوں کے جاننے والے اکثر تحفے کی شکل میں قلم اور ڈائری دیتے ہیں۔ اس کو پسند آتے ہیں یا نہیں لیکن آج تک ان کو استعمال نہیں کیا۔ رہی شخصیت کی بات تو وہ بالکل بھی عام لڑکیوں کی طرح نہیں ہے۔ میں نے آج تک اس کو خود کے کپڑے خریدتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس کو کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ آج کا فیشن کیا ہے؟ کون اس کو پسند کرتا ہے کون نہیں کرتا ہے۔ اس کے کئی رشتے آے لیکن اس کی دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے بات آگے نہیں بڑھائی۔ لوگ اس کے مضمون کے دیوانے ہیں۔ کیوں نہ ہوں؟ ہم جیسے لوگ شادیوں میں جاتے ہیں تو شادی کے انتظام اور دولہا دلہن کی بات کرتے ہیں۔ کون کیسا لگ رہا تھا یہ سب باتیں ہوتی ہیں۔ اگر اس سے کچھ پوچھ لو۔ تو وہ آپ کو ایسے فلسفوں سے نوازے گی کہ آپ توبہ کریں گے کہ اس سے یہ سوال کیوں کیا؟
اس کو کام شروع کرنا اچھا لگتا ہے لیکن اس نے دنیا کا کوئی بھی کام آج تک مکمل نہیں کیا سواے اپنے مضامین کے۔کیوں کہ ہمیشہ کام کے بیچ اس کو اپنے مضمون کے لئے کوئی لائن مل جاتی ہے۔

ایک دن کچن میں دودھ ابالنے کے لئے اس کی امی نے بول دیا شاید اس کا دل نہیں تھا کام کرنے کا لیکن مجبوراً اس نے دودھ ابال دیا۔ بس پھر کیا تھا دوسرے دن ایک لمبا چوڑا مضمون اخبار کی زینت تھا۔ گھر میں کوئی بات ہوتی ہے تو ڈر لگا رہتا ہے کہ کل کہیں اخبار میں مضمون کی صورت میں کچھ آ نہ جائے۔ میں نے یہ سنا تھا کہ معاشرے کی اصلاح کرنی ہے تو اپنے گھر سے شروع کریں۔ لیکن عملی طور پر پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ ہر چیز میں اصلاح کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ بس میری ایک ہی دعا ہے کہ آپ کے یہاں کوئی ادیب نہ پیدا ہو خاص کر کے ادیبہ۔ ادیب یعنی آپ کا بیٹا اگر اس لائن میں آتا ہے تو ایک دفعہ آپ اس کو ڈانٹ ڈپٹ کے چھڑوا سکتے ہیں۔ لیکن ادیبہ، اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ آپ کو باہر اس کی تعریفیں سننی ہیں اندر اس کی ناقابل برداشت حرکتیں برداشت کرنی ہیں۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .