۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 380180
2 مئی 2022 - 14:13
عابد رضا نوشاد 

حوزہ؍وہ دوسروں سے اتحاد کو ضروری سمجھتے تھے مگر اتنا نہیں کہ اس کی قیمت دین سے جدائی کی شکل میں چکانا پڑے۔ دوسروں سے دوستی اچھی چیز ہے مگر اتنی نہیں کہ نتیجہ میں دین کا مستوی القامہ پیکر مُثلہ ہوجائے۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی؍

مقرر: ڈاکٹر رحیم پور ازغدی
مترجم: عابد رضا نوشاد

عالم و دانا افراد ہمارے درمیان ہمیشہ رہے ہیں اور عصر حاضر میں تو یونیورسٹیز اور دینی درسگاہوں میں ان کی تعداد گذشتہ کی نسبت کہیں زیادہ ہے مگر شہید مطہری جیسا کوئی کہاں؟
''ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے''
آخر مطہری میں کون سی ایسی خصوصیت تھی جو آج کے صاحبان علم و فضل، محققین و مصنفین میں کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہم میں وہ بات کیوں نہیں؟
میں اپنی اس مختصر سی گفتگو میں آپ تمام یونیورسٹیز اور دینی مدارس کے اساتذہ، محققین و مصنفین اور بالخصوص دینی و عصری طالب علموں کی خدمت میں چند ایسے فرق بیان کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے اور شہید مطہری کے درمیان پائے جاتے ہیں۔ اگر بیان میں تندی نظر آئے تو پہلے ہی معذرت خواہ ہوں۔ میرا نظریہ ان احباب کے برخلاف ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ صراحت بیانی مناسب نہیں، زخم کہنہ کو کریدنا ٹھیک نہیں، صرف دشمن کے لئے سخت لہجہ اختیار کرنا چاہئے۔ میری نظر میں آپس کے بے جا تکلفات زخموں کو اور زیادہ ہرا رکھتے ہیں ۔ لہٰذا جتنی سنجیدگی دشمن کے لئے اختیار کی جاتی ہے اتنی ہی آپس میں رکھنا چاہئے۔ دوستانہ گفتگو ضرور کیجئے مگر سنجیدگی اور صراحت کے ساتھ۔
ممکن ہے جو باتیں میں عرض کرنا چاہتا ہوں ان پر سب کا اتفاق نہ ہو یا انہیں اہم نہ جانتے ہوئے چشم پوشی کی جائے لیکن ضروری باتوں کا کہہ دینا بھی ضروری ہوتا ہے اس لئے کہ اگر معاشرہ کے جوانوں کے دل و دماغ کے لئے خطرہ بن جانے والی چیزوں کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ان باتوں سے کون سے ثقافتی، تعلیمی یا تحقیقی ادارہ کے کس عہدہ دار کی دل شکنی ہو رہی ہے ۔ بہرحال اس طرح کے دل کے بہلاوے اچھے نہیں ۔ ابھی دیر نہیں ہوئی ہے سنبھلنا ضروری ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب اس طرح کے مسائل چھپانے کے رہ ہی نہیں گئے ہیں۔ اب ہماری بجا تہذیب، صحیح عقیدے اور بے مثال اخلاقیات پر یلغار ہے۔ اس یلغار کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ تو پہلے سے مد مقابل کو آگاہ کیا جاتا ہے اور نہ نبرد تن بہ تن کے قوانین ہی کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ اگر منافقت، تحریف اور مغالطہ کا عنصر نہ پایا جاتا اور الحادی نظریات و خیالات کا صراحت کے ساتھ اظہار کیا جاتا، تو ہم اس چیز کو ثقافتی یلغار کا نام نہ دیتے۔ میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی کہ اگر تنقید کے عمدہ قوانین اور اظہار نظر کے بہترین اصولوں کا لحاظ نہ رکھا جائے تو پھر تنقید اور'' خونخوار بھیڑیے کے دانتوں '' میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔
تھوڑی دیر میرے ساتھ رہئے تاکہ اس ثقافتی بحران کے تمام اسباب کی نہیں تو ان میں سے کچھ کی نشاندہی کر سکوں ۔ اب تک اگر چشم دل سے نہیں دیکھا ہے تو چشم سر ہی سے دیکھ لیجئے۔ خون شہید مطہری سبب بنے گا کہ ہم اس مقدس مقصد تک پہنچیں جس کے لئے انہوں نے خود کو فدا کردیا۔
یہ کون سی جبلّت تھی جس کی بنیاد پر انہوں نے انقلاب سے قبل اکیلے اور بغیر اسباب کے ایسے با برکت نظریاتی محاذ کھولے کہ اب تک ان کے وہ مکتوبات اسلامی انقلاب کی تھیوری کو غذا فراہم کر رہے ہیں جو ان کے مبارک ہاتھوں سے بیس سے چالیس برسوں پہلے ضبط تحریر میں آئے۔ مگر آج اسلامی انقلاب کی کامیابی و حاکمیت کے برسوں بعد تمام مواصلاتی وسائل و اسباب اختیار میں رکھتے ہوئے اور صاحبان وعلم و فضل کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود (اللہ انہیں نظر بد سے بچائے) ہمارے تعلیمی، ثقافتی اور نشریاتی مراکز پر کیوں جمود طاری ہے؟! ثقافتی سرگرمیوں کا بجٹ کہاں جا رہا ہے اور یہ بے شمار ثقافتی اور تعلیمی ادارے کیا کر رہے ہیں جو اب تک صرف ایک مطہری کے برابر بھی کام نہیں کر سکے ہیں ۔
مطہری کو ان کے عہد نے مبعوث کیا لہٰذا انہوں نے اپنے عہد کو پورا بھی کیا ۔ شہید مطہری عالم ربانی تھے۔ ان کے وجود حقیقی کی تو بات تو دور ہم ان کے اس وجود کے تئیں بھی مجرم ہیں جسے انہوں نے تاریخ اور اپنے مکتوبات کی شکل میں یادگار کے طور پر چھوڑا ہے۔
سب سے پہلے شہید مطہری کے اس سوز جگر کی بات کرنا چاہئے جس سے ہم نے اپنا دامن بچا رکھا ہے۔ ہاں وہ سوز جگر کسی دہکتے ہوئے شعلہ سے کم نہ تھا جس نے صاحب قلم مطہری کو ایسی سرخ خاک میں تبدیل کردیا جو افق تہذیب حاضر کو کربلائی رنگ میں ڈھالنے میں کامیاب ہوئی۔
دین کا مصلح و مجدد، ''دلِ شعلہ ور'' کے بغیر کوئی اہم اصلاح انجام نہیں دے سکتا۔ ''قابل ذہن'' اور''ہوشیار نظر'' اگرچہ ضروری ہے مگر ''سوز جگر'' نہ ہو تو کچھ بھی نہیں ۔
درد دل، سوز و گداز، بے باکی و سرفروشی ہی وہ عناصر ہیں جوزمین معاشرہ کو قابل زراعت بناکر اس میں جدید نسل کا بیج بوتے ہیں ۔
اگر کوئی محقق، فقیہ، فلسفی، سائنسداں ، مصنف یا خطیب درد و سوز و گداز سے عاری ہو، صرف الفاظ کو زبان پر لاکر یا ورق پر سجا کر اپنے علم کا اظہار کرنے پر ہی رضامند ہو، اصلاح و انقلاب ، تعلیم و تربیت، آزادی و استقلال، عدل و انصاف، عبادت و بندگی کی فکر اس کے پردۂ مغز کو چاک نہ کرے، تشکیل حکومت، نشر معرفت اور آقائیت و اقتصادی مظالم کے خاتمہ کا درد اس کے قفس دل کو وا نہ کرے اور وہ اپنے مقدس اغراض و مقاصد کے لئے قربانی کا ہنر نہ رکھتا ہو تو ایسا عوام پسند محترم مفکر و دانشور ایک تائید آمیز نظر کا بھی مستحق نہیں ۔ افسوس کہ یونیورسٹیز اور دینی درسگاہوں میں ایسے دانشوروں کی کمی نہیں ۔ اب تو ثقافتی اور تعلیمی اداروں کا اصل بجٹ محض گراف، عمارت، افراد کی کھوج اور مختلف وسائل و اسباب کی فراہمی میں ہی خرچ ہو جاتا ہے اور ان کا سارا ہم و غم یہ ہوتا ہے کہ اپنے مافوق کے سامنے موٹی سے موٹی رپورٹ پیش کی جائے تاکہ وہ راضی رہے۔ حتی کام پر باقی رہنے اور شکم پروری کے لئے اسے فریب بھی دینا پڑے تو کوئی بات نہیں ۔ اب ہمیں اس سے کیا مطلب کہ اس رکھ رکھاؤ، رفت و آمد، قیل و قال اور لاکھوں کروروں کے بجٹ کو خرچ کرنے کا نتیجہ کیا ہوا؟ کتنے لوگ انسان بنے؟ کون سے باطل کا انکار اور کون سے حق کا اظہارہو سکا!!
تحقیقوں میں بھی ''درد'' کا فقدان نظر آتا ہے، سوز و گداز دکھائی نہیں دیتا۔ قانونی اختیارات کے حدود کے سلسلہ میں بحث کی جاتی ہے مگر اس میدان میں سنجیدہ گفت و شنید کم نظر آتی ہے۔ جسے دیکھو اس مشغلہ سے بس اپنی مادی ضروریات کی تکمیل، اعلیٰ اسناد کے حصول اور ظاہری عزت و آبرو اور اثر و رسوخ کی تلاش میں لگا ہوا ہے۔ اور نہ جانے کیا کیا...
جب صورتحال ایسی ہے تو اگر تمام تہذیبی، مواصلاتی اور تحقیقی مراکز مل کر صرف ایک مطہری کے برابر بھی کوئی قابل قدر اور شائستۂ بقا کام نہ کر پائیں تو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ شہید مطہری نے قلم اور منبر کو کبھی عزت کی دو روٹیاں کمانے اور مال و دولت اور عزت و آبرو کے حصول کے وسیلہ کی نظر سے نہیں دیکھا۔ ان کا درد ''درد دین'' ، عشق ''عشق زندگی بخش'' اور سوز ''سوز انقلاب'' تھا۔ لیکن ہمارا درد ''درد نفس''، عشق ''عشق مشکوک'' اور سوز ''سوز لا یعنی'' ہے۔
مردہ، مردے کو زندہ نہ کرے تو تعجب نہیں۔ تعجب تو اس توقع پر ہونا چاہئے کہ مردہ مردے کو زندہ کردے۔ یونیورسٹیز، دینی مدارس اور تحقیقی و مواصلاتی اداروں میں طالب علم کو مجبور کیا جاتا ہے کہ دوسروں کی "راہ رفتہ" پر ہی گامزن رہے، اپنے آپ کو دنیائے علم و فکر کے ''بے درد جعلی فادرز'' کی راہ و روش سے سازگار رکھے اور معاشرہ کی ضرورتوں اور معبود حقیقی کے تقاضوں سے اسے کوئی مطلب نہ ہو۔ (البتہ یہ مجبوری نہیں بلکہ مجبوری کا وہم ہے۔)
سب کا ہم و غم بس یہی رہ گیا ہے کہ کسی طرح مشہور ہوجائیں اور لوگوں کی واہ واہی لوٹیں ۔ سب دوسروں کی تائید حاصل کرنے اور اپنی جعلی شخصیت کا لوہا منوانے کے چکر میں ہیں ۔ کم ہی لوگ خدا کی خاطر نشر حق و فضیلت اور خدمت حق کا درد رکھتے ہیں ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں جسے چھپاکر رکھنے میں ہی بھلائی ہو۔
علمی بضاعت و حیثیت ایک ایسا امتیاز ہے جس کے بغیر فکری حادثات وانحرافات کے مقابلہ میں شاندار دینی اور سماجی اصلاح، اگر محال نہیں تو مشکل ضرورہے۔ استاد شہید مطہری علمی معرکوں میں اپنے موقف کے ساتھ حاضر رہتے تھے۔ ان کے عقائدی، فلسفی اورعرفانی خیالات و نظریات بھی اصولی و منطقی نظریات کی طرح کافی ٹھوس اور راہ گشا ہوا کرتے تھے۔ مجتہد تھے لہٰذا انہوں نے اقتصاد، حکومت اور فقہی نظام معاشرہ جیسے ناشناختہ موضوعات بیان کئے۔ کسی جھول یا سبک بیانی کے بغیر شیعی اجتہاد کو ایک میتھڈ کے طور پر عصریات کے ساتھ ملا دیا۔ ان تمام امتیازات کے باوجود وہ انتہائی خوش اخلاق، بہترین تربیت یافتہ اور سیاسی و سماجی دانش و بصیرت کے حامل تھے۔ ''وہ اپنے آپ میں ایک امت تھے''۔
اس کے علاوہ اپنے گراں بہا علمی سرمایہ کی بنیاد پر وہ عیسائی و یہودی تھیولوجی، عرفانیات اور جدید فلسفہ میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔ علمی معرکوں میں حاضر رہنے والے ایسے مفکر تھے کہ یونیورسٹیز اور دینی مدارس کے مختلف علمی مراکز اور روشن خیال حضرات بھی انہیں اور ان کے موقف کو مستقل طور پر پیش نظر رکھنے پر مجبور تھے۔ اگر علمی معرکوں کا کوئی سورما تمام تر توانائیوں کے ساتھ یوں اعلان وجود کرے تو پھر کس کی مجال کہ اس سے اپنی نظر التفات ہٹا سکے۔ مطہری کے سایہ سے دوست و دشمن سبھی بہرہ ور ہوتے تھے، دوست اپنے اختیار سے اور دشمن مجبوری میں ۔
مغربی فلسفہ میں بھی مہارت رکھنے کی بنیاد پر وہ اس فلسفہ کے تار و پود بکھیر کر رکھ دیتے تھے اور ایک دانا و محقق انسان ہونے کے ناطے اس بات کے قائل تھے کہ مغربی فلسفہ، فلسفہ ہی نہیں ۔
وہ مغربی فلسفہ کے ماہر و دانا مترجموں اور استادوں کے ساتھ ہونے والے فلسفی مذاکرات میں صحیح کو غلط سے اور استدلال کو مغالطہ سے الگ کرتے تھے اور جرمن فلسفہ، نیز ''انگلوسکسن'' فلسفہ کی بے بنیاد اور کمزور باتوں کی نشاندہی کرتے تھے۔ سرزمین مغرب پر اپیسٹمولوجی اور علم نفسیات کے جدید فلسفہ کی شکل اختیار کرلینے کا بھی انہیں بہت گلہ تھا، جس نے فلسفہ سے ''فلسفیت'' کو چھین لیا ہے۔
فلسفۂ ادیان، فلسفۂ اخلاق، فلسفۂ سیاست اور فلسفۂ زبان کی گفتگو نیز میٹریالیزم اور لیبرالیزم کے مقابلہ میں شہید مطہری نے انتہائی ٹھوس موقف اختیار کیا اور ان بیس برسوں کے درمیان مارکسیزم اور لیبرالیزم کی ثقافتی یلغار کا تن تنہا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
ٹھیک اس وقت جب سیکولر افکار کو حکمراں جماعت کی حمایت حاصل تھی، سیاست میں دین کو دخل دینے پر روحی و جسمانی طور پر ٹارچر کیا جاتا تھا، فقہی حاکمیت کی تھیوری پیش کرنے والے نظریہ ''ولایت فقیہ'' کے کتابچوں کی تقسیم پر بھی پابندی تھی، شہید مطہری افق فکر و نظر پر یوں نمودار ہوئے کہ حکومتی مشینری، مغرب نواز افکار، لیبرل خیالات اور منافقین بے بس نظر آنے لگے۔
جب دائیں بازو کی جماعت پر تنقید کرتے تو بائیں بازو کی جماعت کو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع نہیں دیتے تھے اور جب بائیں بازو کی جماعت پر خط بطلان کھینچتے تو دائیں بازو کی جماعت، لیبرالیزم کے طرفداروں اور سرمایہ داروں کو فائدہ اٹھانے نہیں دیتے تھے۔ جب بنیاد پرستوں پر ضرب لگاتے تو اس بات کا بھی خیال رکھتے تھے کہ بدعتی، منافق اور دینداری کا تظاہر کرنے والوں کی تقویت نہ ہو اور جب روشن خیالوں، مارکسیزم نوازوں اور مسلمان نمائوں کی دھجیاں اڑاتے تو اخباریت و اشعریت کی طرف رجحان کے خطرہ کو بھی ملحوظ رکھتے تھے۔
شہید مطہری دیکھ رہے تھے کہ سرزمین فکر و نظر پر طوائف الملوکی کا طریقۂ کار حکمرانی کر رہا ہے ۔ ہر بات، ہر فکر، ہرخیال ذاتی یا جزئی رنگ میں رنگا ہوا ہے اور اس طرح کی بے جا قیودات سے آزاد انسانوں کی کمی ہے۔ وہ ایسے دانشوروں کے فراق میں آہ غم کھینچتے تھے جو روشن خیالی یا مذہب کے تعصبات سے محفوظ رہ کر اسلام کو محققانہ نظر سے دیکھیں، اس کی تعلیمات کی ایک ایک سطر سے محظوظ ہوں اس لئے کہ ان کی نظر میں اس طرح کی عقلی لذت ایمان کے استحکام کی ضامن ہے اور مفید و نجات بخش ایمان وہی ہے جو اس قلبی رجحان کی بنیاد پر ظاہر ہو جس سے دین کا صحیح ادراک ہو سکے۔ ان کی نظر میں عیسائیت کے تصور ایمان کے برخلاف اسلامی ایمان ''مقدس جہل'' نہیں بلکہ ''بلند ادراک'' ہے، ''تعصب'' نہیں بلکہ ''آزادانہ انتخاب'' ہے، ''بے معنی و بے توجیہ دل لگی'' نہیں بلکہ ''بارگاہ ربانی میں خاضعانہ شرف حضور'' ہے۔
اس تجزیہ کے ذریعہ انہوں نے دین میں بے دینی کی ملاوٹ کا سد باب کر دیا۔ اس لئے کہ ان کی نظر میں دین اور بے دینی کی سرحد کے خاتمہ اور ایمان و کفر، صالح و بدکار، عالم و جاہل اور مومن و فاسق کے فرق وتضاد کو سطحی و ابتدائی ظاہر کرنے سے زیادہ کوئی اور حربہ اذیتناک اور مضر نہیں۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ یہ ایمان کو حقیقی مدار سے ہٹانے اور اس میں تحریف کے مساوی ہے۔ قرون وسطیٰ کے اوہام و خیالات اب بھی مغربی ذہن کا حصہ بنے ہوئے ہیں ۔
مذکورہ خصوصیات کے علاوہ شہید مطہری کے ذہن، زبان اور قلم کے کچھ دوسرے امتیازات معروض ذیل ہیں جن پر گفتگو کی جائے گی:
١۔ مختلف نظریات کے منابع اور ان کے اصل اسباب پر گرفت۔
٢۔ حق بیانی اور بدعت و بنیاد پرستی کے مقابلہ میں صراحت و شجاعت۔
٣۔ سخت کوش مگر مدح و ثنا کی بہ نسبت بالکل بے توقع۔
٤۔ اصل صاحب طاقت یعنی اہاص پر حقیقی ایمان اور کام بھی بس ''اسی'' کے لئے۔
لہٰذا:
١۔ اگر فکر و عقیدہ کے ساتھ دلسوزی نہ ہو تو کوئی خاص نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔
٢۔ علمی صلاحیت مصلح و مجدد دین کے لئے کافی تو نہیں مگر لازمی ضرورہے۔
٣۔ نعروں کو عملی جامہ پہنانا خاصان خدا کا ہنر ہے۔
جوش میں نعرے لگانا اور ہے
ہر کہے کو کر دکھانا اور ہے (مترجم)
انسانیت اور سماج کا درد رکھنے والا کون سا ایسا انسان ہوگا جو مصلح ہو، اخلاقیات کا حامل ہو اور دوسروں کو شاہراہ سعادت کی طرف دعوت بھی دے مگر اپنے شعار اور نعروں کا پابند نہ ہو؟
شہید مطہری کی پوری زندگی اور ان کا ہر عمل، ان باتوں کا مظہر نظر آتا ہے جو ان کی تقریر و تحریر میں ظاہر تھیں ۔ صحیح اور غلط کے درمیان کھینچی ہوئی دیوار اگر صرف زبانی بنیاد پر استوار ہو اور صاحب سخن کے کردار میں اس کا مشاہدہ نہ کیا جا سکے تو وہ کاغذ کی دیوار سے زیادہ اور کچھ نہیں ۔ اگر زبان، فکر کی اور گفتار، کردار کی جگہ لے لے، تقریر و تحریر گویا ہوں مگر دل خاموش، تو کیا ایسا سخن جدار دل کو شق اور شہر قلب کو فتح کر سکتا ہے؟
شہید مطہری مصنف یا خطیب ہونے سے پہلے ایک زاہد انسان تھے۔ ان کی زبان سے نکلا ہوا ہر جملہ ان کے راسخ عقیدہ کا عکاس تھا، لقلقۂ لسانی یا قلم کی روانی کا نتیجہ نہیں ۔ جبھی تو ان کا ہر کلام ذہن و دل میں انقلاب برپا کردیتا تھا۔
''دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے''
جب حق کی توہین انہیں برداشت نہیں تھی تو یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ منبر سے اترکر ''بزم توہین حق'' میں شرکت کرتے۔ حق گوئی باطل سرائی کے ساتھ سازگار کہاں ؟!
شہید مطہری جاوید ہو گئے کیونکہ انہوں نے جاودانی کو سمجھ لیا تھا، وہ حقانیت پر عمل کا التزام رکھتے تھے۔ نعرہ برائے نعرہ نہیں لگاتے تھے بلکہ نعرہ اس لئے لگاتے تھے تاکہ راہ دکھائیں اور رہرو پیدا کریں ۔
اگر حق واقعی حق ہے تو پھر حق کا دم بھرنے والا اس راہ پر کیوں نہ چلے؟! یہ مضحکہ خیز بات نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک شخص خود ہلاکت میں مبتلا ہو اور دوسروں کا سوز دل لئے بیٹھا ہو۔
اگر ہم اور آپ صحیح شعار دیں، حق کہیں اور اپنی زندگی میں بھی ان حقائق پر عمل پیرا رہیں پھر مخاطبین ہمارے اندر ذرا بھی سچائی محسوس کریں تو وہ ہماری آواز پر لبیک ضرور کہیں گے ۔ لیکن اگر انہیں ذرا بھی یہ احساس ہوا کہ اپنے کہے پر ہمیں خود یقین نہیں اور جس راہ کے داعی ہیں اس پر خود گامزن نہیں تو کیا انہیں ہماری ذات اور بات میں شک کرنے کا حق نہیں؟ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم جس راہ کی دعوت دے رہے ہیں اس پر پہلے خود چلیں۔ اگر امام خمینی کا کردار ویسا نہ ہوتا جیسا تھا تو کیا ان کی سادہ نصیحتیں بھی اتنی اثرانداز ہوسکتی تھیں؟! اگر خود شہید مطہری کی شخصیت بے مثال نہ ہوتی تو کیا ان کی تحریریں دل کو چھو لینے والی ہو سکتی تھیں ؟!
''بلند گفتار'' اور ''پست کردار'' کے تضاد کا حل ہی میدان تربیت کا پہلا قدم ہے۔ قدیم و جدید اولیاء الٰہی نے پہلے بلند حوصلہ کے ساتھ یہ گام اٹھایا ہے پھر لوگوں کو تعلیم دی ہے۔ کیا ان آیات و روایات کی کثیر تعداد افہام و تفہیم کے لئے کافی نہیں جو ایسے افراد کی مذمت کر رہی ہیں جو باتیں تو بڑی مقدس اور انسانیت ساز کرتے ہیں مگر ان کا دامنِ کردار عمل سے تہی ہوتا ہے؟ آخر اب اور کتنی آیتیں نازل ہوں کہ انسان اس مسئلہ کا ادراک کر سکے؟
انبیاء و اولیاء علیہم السلام کی زندگی، انسانیت کی مجرب تاریخ اور کائنات ہست و بود کا ذرہ ذرہ اس بات پر گواہ ہے کہ شعار کو عمل اور گفتار کو کردار سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔
تبیین دین میں نہ تو شہید مطہری کا اسلوب سخن صرف فلسفہ پر منحصر تھا اور نہ ان کی ''کلامی بحثیں'' کلیسا کے پادریوں کی طرح محض دفاعی (اپولوجیکل) رنگ رکھتی تھیں ۔
شہید مطہری حملہ آور مفکر تھے جبھی تو وہ ان خاردار تاروں کو نوچ پھینکنے میں کامیاب ہوئے جو تقلید پسند روشن خیالوں نے ''عقلیت'' اور ''دیانت'' کے بیچ کھینچ رکھے تھے۔ یہ الگ بات کہ اس حکیمانہ شجاعت کی بنیاد پر خود ان کے دست و پا خون سے رنگے اور وہ شہید راہ معرفت ہوگئے۔
وہ اسلام کو نیا پن نہیں دینا چاہتے تھے، ان کا عقیدہ تو یہ تھا کہ اسلام ہمیشہ نیا ہے، پرانا کب ہوا جو اسے نیا کرنے کی ضرورت ہو؟ تاہم اتنا ضرور ہے کہ اسے اسی طرح متعارف کرایا جائے جیسا وہ ہے۔
شہید مطہری نے بھی یہی کیا، اسلام کا چہرہ بنایا نہیں بلکہ صرف اس کے چہرہ پر پڑی نقاب کو ہٹا دیا۔ ان کے عقلی مکتوبات میں اگر کہیں جدل یا خطا نظر آئے تو اس کا سبب بھی حق گوئی اور حق پسندی تھا غلبہ و برتری کی ہوس نہیں ۔
''فوائد دین'' کو ''مقصد دین'' سے مشتبہ ہونے نہیں دیا۔ نہ عرفان کو ''عالم معنیٰ'' کے عیش پسند مالیخولیائی مریضوں کے حوالہ ہونے دیا نہ ہی فقہ کو میدان فقاہت کی منجمند فکر کے سپرد کیا ۔
''اسلام ذوالجناحین'' (اصولی و اجتہادی فقہ اور رہبانیت سے پاک عرفان کے امتزاج) کی بات کی۔
''جہاد روز'' اور ''نماز شب'' کے درمیان ''عقد اخوت'' جاری کردیا ۔ فکر، احساس، کردار سب کچھ دینی رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ عصری رفتار سے بھی پیچھے نہ تھے۔
وہ یقیناً فقیہ تھے اور معاصر بھی، ان فقیہوں کے درمیان جو معاصر نہ تھے اور ان معاصروں کے درمیان جو فقیہ نہ تھے۔ وہ ''گوہر شب چراغ '' ایک عظیم نعمت تھا۔
وہ دوسروں سے اتحاد کو ضروری سمجھتے تھے مگر اتنا نہیں کہ اس کی قیمت دین سے جدائی کی شکل میں چکانا پڑے۔ دوسروں سے دوستی اچھی چیز ہے مگر اتنی نہیں کہ نتیجہ میں دین کا مستوی القامہ پیکر مُثلہ ہوجائے۔
شہید مطہری نے اسلام کی اجتماعی شکل کو پہچنوایا مگر گوہر دین یعنی ''تقرب خدا'' کو پامال ہونے نہ دیا۔ انہوں نے عبادت و عبودیت کے اجتماعی پہلو کو اس کے انفرادی پہلو میں ضم کردیا تھا۔
جو اسلام کا تعارف، محض ذہنی، انفرادی اور عبادی صورت میں کراتے تھے، مارکسیزم کو قانون زندگی اور لیبرالیزم کو علمی زعامت کا پرچم دار خیال کرتے تھے اور ہر محاذ پر موجود رہنے والے اسلام کو عبادت گاہوں میں محصور کرنا چاہتے تھے، انہیں شہید مطہری سے آخر کیا پریشانی تھی؟ ان کی ہیرے سی کاٹ رکھنے والی نظر کو وہ اپنی پریشانی کا سبب کیوں گردانتے تھے؟ مطہری کی نگاہ بالیدہ، غیرت و حمیت اور فضیلت و برتری، ان کے لئے عذاب کیوں تھی؟ وہ انہیں اپنے راستہ سے کیوں ہٹانا چاہتے تھے؟ ذرا سوچئے...۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .