حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمع محمد رضوی نے قم میں امام خمینی رہ کی برسی کے سلسلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی کے ہر عاشق کو چاہیئے کہ درس کی طرح امام خمینی کی زندگانی پر ایک خاص توجہ دے،تاکہ آیندہ نسلوں کی تربیت میں ایک اہم رخ کا سہارا مل سکے۔ امام خمینی خمین کے رہنے والے تھے،آپ ایسے آبا واجداد کے صفات کے وارث تھے جونسل درنسل عوام کی ہدایت اور معارف الہیہ کے حصول میں کوشاں رہتے تھے۔آپ کے والد گرامی مرحوم آیت اللہ سید مصطفی موسوی آیت اللہ العظمی مرزائے شیرازی کے ہم عصر تھے جو نجف اشرف میں کئی سال تک اسلامی علوم حاصل کرکے درجہ اجتہاد پر فائز ہونے کے بعد ایران واپس آئے اور خمین میں عوامی توجہ کا مرکز بنکر دینی امور میں انکی رہنمائی کے تحت،فرائض انجام دینے لگے۔روح اللہ خمینی بچپن میں ہی یتیم ہوئے ، آپ نے بچپن اور لڑکپن کا زمانہ اپنی دیانت دار ماں بانو ہاجر اور محترمہ چچی، صاحبہ خانم کی آغوش تربیت میں گزارا۔ابھی روح اللہ ..کی ولادت سے پانچ ماہ سے زیادہ کا عرصہ نہیں گزرا تھا کہ حکومت وقت کے حمایت یافتہ طاغوتی سرداروں نے آپ کے والد کے حق پسندانہ نعروں کا جواب گولی سے دیا اور آپ کو خمین سے اراک جاتے ہوئے راستے میں شہید کیا، کیونکہ سید مصطفی مرحوم نے ان سرداروں کی زور آزمائیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا تھا۔ آپ کی والدہ کا تعلق علمی گہرانے سے تھا اور زبد التصانیف نامی کتاب کے مصنف مرحوم آیت اللہ خوانساری کی پوتی تھیں اور آپ کی چچی صاحبہ خانم ایک بہادراورحق پرست خاتون تھیں،لیکن پندرہ سال کی عمر میں روح اللہ خمینی ان دونوں عزیزوں کی نعمت وجود سے محروم ہو گئے۔
مولانا موصوف نے فرمایا! جیسے ہر جگہ امام خمینی کے برسی کے سلسلے سے پروگرام کا انعقاد ہے،اپیل کی کہ پوری دنیاکے ہرگھر میں امام خمینی کا ذکر اور تذکرہ ضروری ہے۔ان ایام میں مختلف پروگرام کا انعقاد ہوا: سب سے پہلے مقالہ خوانی اور تقاریر کا سلسلہ جاری رکھا گیا جسمیں چند بخش میں پروگرام کو تقسیم کیاگیا۔
محترم مالکی نژادنے روح اللہ خمینی کے سلسلے سے فرمایا!حضرت آیت اللہ موسوی خمینی نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کی بناپر بچپن اور لڑکپن کے دور میں ہی اس زمانے کی تعلیمات اور دینی مدارس کے نصاب میں شامل مقدمات ،ابتدائی کتب اور سطح اعلی سطح کے درسی متون کا کچھ حصہ خاص طور پر عربی ادب، منطق، فقہ اور اصول فقہ، علاقے کے اساتذہ اور علما کرام آقا میرزا محمود افتخار العلما، مرحوم میرزا رضا نجفی خمینی، مرحوم آقا شیخ علی محمد بروجردی، اور مرحوم آقا شیخ محمد گلپایگانی اور مرحوم آقا عباس اراکی،اور سب سے زیادہ آپ نے اپنے برادر بزرگوار مرحوم آیت اللہ سید مرتضی پسندیدہ سے استفادہ کیا۔
شہر اراک کے حوزہ علمیہ دینی درسگاہ کی طرف روانہ ہوئے وراسلامی علوم کے حصول کیلئے دروس میں بھر پورشرکت کی، آیت اللہ العظمی حائری یزدی کی رحلت کے بعد آیت اللہ العظمی بروجردی حوزہ علمیہ قم کی قیادت سنبھالنے پرآمادہ ہوئے جوامام خمینی اور حو زہ علمیہ قم کے بعض دیگر مجتہدین کی طرف سے کی جانے والی محنت رنگ لائی اور آ یت اللہ العظمی بروجردی قم روانہ ہوئے، اس وقت امام خمینی فقہ ،اصول فقہ،فلسفہ، عرفان وسلوک اور اخلاقیات کے شعبوں میں ایک صاحب نظر استاد اور مجتہد کے طور پر جانے پہچانے جاتے تھے اورآ پ کازہد ،تواضع،انکساری ،عبادت اورتقوی ہرخا ص وعام کی زبان پرتھا، کئی سالوں کے جہاد بالنفس، زرعی ریاضتوں اور عرفانی اصول پر کار بند رہنے کی وجہ سے امام کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں جلوہ گر ہونے والے امام اعلی صفات کے علاوہ آپ اپنے مخصوص علم سیاسی اپنے آپ تھے، آپ کو اس نظرئے پر بھی مکمل یقین تھاکہ خطرات بھر پور اس پر آشوب دورمیں عوام کے لئے امید کی واحد کرن دینی درسگاہوں کے مقاصد علمائے کرام اور دینی قیادت کی طاقت کا تحفظ ہے ، انہی اسباب وعلل کی بناع پر اپنی تمام تر صلاحیتوں اور دیگر مجتہدیوں سے مختلف نطقہ نگاہ کے حامل ہونے کے با وجود قم کی نو بنیاد دینی درسگاہ کے استحکام کے لئے آیت اللہ العظمی حائری یزدی اور آیت ا للہ العظمی بروجردی کی قیادت کے پورے عرصے میں آپ ایک دلسوز اور ہمدردحامی کی حیثیت سے اپنے علم و فضل اور جد وجہد کے ذریعے سعی بلیغ فرماتے رہے و قت کا تحفظ ہے ، انہی اسباب وعلل کی بنا پر اپنی تمام تر صلاحیتوں اور دیگر مجتہدیوں سے مختلف نطقہ نگاہ کے حامل ہونے کے با وجود قم کی نو بنیاد دینی درسگاہ کے استحکام کیلئے آیت اللہ العظمی حائری یزدی اور آ یت ا للہ العظمی بروجردی کی قیادت کے پورے عرصے میں آپ ایک دلسوز اور ہمدردحامی کی حیثیت سے اپنے علم و فضل اورجد وجہد کے ذریعے سعی بلیغ فرماتے رہے۔
محترم جناب نائیبی نے جب اس پاک عنوان پرروشنی ڈالی توآپ نے فرمایا!آ یت اللہ العظمی بروجردی کی رحلت کے بعدیہی طلبہ اور علما وفضلا ع کے علاوہ اسلامی معاشرے کے دیگر طبقات کی جانب سے مرجع تقلید کی حیثیت سے آپ کی طرف وسیع پیمانے پر رجوع کے باوجود بھی ہر قسم کے ایسے اقدام سے شد ت کے ساتہ اجتناب کیاجسمیں مفاد پرستی اور مقام و منصب کی ،خواہش کا معمولی شائبہ بھی ہوتاتھا،اس سے بچکر عظیم منزل پرکامیاب ہوتے رہے۔
یکم فروری کو اپنے قائد کو خوش آمدید کہنے کیلئے جمع ہونے والے کئی ملین ایرانی عوام امام کی راہوں میں پلکیں بچھاکر تاریخ کے ایک عظیم ترین استقبالی جلوس میں شرکت کر رہے تھے اس وقت ایک غیر ملکی صحافی نے بغیر کسی تمہید کے آپ سے سوال کیا کہ ! آپ اس ساری شان وشوکت کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور پندرہ برس کے بعد اپنے ملک واپس آئے ہیں ،اس وقت آپ کے تاثرات کیا ہیں ؟ لیکن آپ وہی عظیم شخص ہیں جس نے اس صحافی کے جواب میں فرمایا : کچھ بھی نہیں !یہ جواب اس صحافی کے لئے غیر متوقع تہا ، کیونکہ وہ سوچ رہا تہا کہ دیگر اقتدار پسند سیاسی رہنماوں کی طرح جو ایسے جذباتی مو قعوں پر اپنے آپ سے باہر ہوکر پہولے نہیں سماتے ، امام بہی ایسے ہی جذ بات کا اظہار فرمائیں گے ، لیکن جس قسم کا جواب اسے ملا تہا ، اس سے یہ حقیقت کہل کر سامنے آگئی کہ خمینیکی بات ہی کچھ اور ہے، واقعا جیساکہ آپ بارہاآپ فرماتے تہے صرف رضا ئے خالق کاحصول اور اپنی شرعی ذمہ داری اور فرض نبہانے کو ہر قسم کے رویوں اور حرکتوں کا معیار قرار دیتے تہے ۔ آپ کی رائے یہ تہی کہ اگر عمل اورجد وجہد خداکے لئے ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسان قید وبندیا جلا وطنی کی حالت میں ہو یا طاقت اور اقتدار کی اعلی منزل پر فائز ہو بنیادی طور پر امام اس سے چند عشرے پہلے ہی عرفان وسلوک کی عملی راہوں پر گامزن ہو کر دنیا و مافیہا کو خیرباد کہتے ہوئے محبوب حقیقی کے وصال اور فنانی اللہ کی منزل پر پہنچ چکے تہے اور شاید اس صحافی کے جواب کی سب سے خوبصورت تعبیرامام خمینی کے اپنے اس شعر میں مضمر ہے جسمیں آپ نے فرمایاہے :امام خمینی کی انقلابی سرگرمیاں!محرم کا مہینہ تھا،امام خمینی نے عوام کو شاہ کی جابر و آمر حکومت کے خلاف انقلاب کی دعوت دینے کیلئے ایک آواز بلندکی، ، عاشورا کے دن ایک لاکھ کے مجمع میں تہران میں امام خمینی کی تصویریں لیکر مظاہرہ کیا اور پہلی بار دارالحکومت میں کاخ مرمرمحل کے سامنے جو شاہ کی رہائش گاہ تھی مردہ باد کے نعرے لگا ئے گئے۔ اس کے بعد کئی روز تک تہران یونیورسٹی اور بازار کے علاقے کے علاوہ برطانوی سفارت کے سامنے امام خمینی کی تحریک کی حمایت میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین مولاناسید شمع محمدرضوی نے کہا کہ امام خمینینے عصر عاشورا کے وقت مدرسہ فیضیہ میں ایک تاریخی خطاب کیا جو خرداد کی تحریک کاپیش خیمہ ثابت ہوا ۔ امام کے خطاب کا ایک حصہ پہلوی خاندان کے برے اعمال ،نیز شاہ اور اسرائیل کے خفیہ تعلقات کو فاش کرنے پر مبنی تھا ۔ اسی خطاب میں امام خمینی نے بلند آواز سے شاہ کو مخاطب قرار دے کر فرمایا تھا : صاحب ، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں !میں تجھے نصیحت کرتا ہوں ، ان حرکتوں سے باز آجا۔ میری نصیحت سن لے،شاہ اوراسرائیل کے درمیان کیا تعلق ہے ؟ کہ ساواک والے کہتے ہیں اسرائیل کے بارے میں کچھ مت کہو ۔جبکہ شاہ اسرائیلی ہے،امام خمینی کی اس تقریرکے بعد اس کا فرعونی تکبر عام وخاص کے زباں زدرہا ، اسی لئے اس نے تحریک کی آواز کو دبانے کا حکم دے دیا چنانچہ ابتدائی قدام کے طور پر جون کی شام کو امام خمینی کے ساتھیوں کواک بڑی تعداد کے ساتھ گرفتار کرلیا گیا ،یعنی آدھی رات میں تہران سے سو کمانڈوں نے امام خمینی کے دولت کدے کا محاصرہ کیا اور امام کو گرفتار کرکے تہران لے گئے، اس وقت آپ نماز تہجد میں مصروف تھے۔ امام خمینی کو ایک قید خانے میں مقید کرلیا گیا اور اسی دن شام کے وقت آپ کو جیل بھیج دیا گیا ۔ امام کے گرفتاری کی خبر قم اورایک دوسرے علاقوں میں جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی ۔ اردگرد کے دیہاتوں اور شہر کے گلی کوچوں سے لوگ اپنے قائد کے گہر کی طرف امڈ آئے ۔ لوگوں کا بنیادی نعرہ لبیک یاخمینی تھا جنکی آ واز یں پورے قم کی فضا میں گونج رہی تھیں ۔عوام کا ااسقدر زیادہ تھا کہ ابتدا میں پولیس کے کارندے ان سے مقابلہ کرنے کی جرات نہ کرتے ہوئے بھاگ نکلے اور بعد میں وہ اپنی طاقت یکجاکر کے واپس آئے، آس پاس کی فوجی چھاونیوں سے فوج کے امدادی دستے قم کی طرف روانہ ہوئے،لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر حرم حضرت معصومہ (س)سے باہر نکل رہاتھا کہ بندوق کے منہ سے گولیاں برسنے لگیں ، عوام اور پولیس میں مڈبھیڑکئی گھنٹے تک جاری رہی ، اس دوران خون کی ندیاں بہنے لگیں ، تہران سے فوجی،جہازوں کی پروازیں شروع ہوگئیں قم کی فضا میں پہنچکر ان جہازوں نے لوگوں میں خوف وہراس پھیلا نے کیلئے ہولناک آوازیں نکالیں، اس طرح تحریک کو شدت سے کچل کر اس پر قابو پالیا گیا ۔ شہداء کی لاشوں اور زخمیوں سے بھرے ہوئے فوجی ٹرک سڑکوں اور گلیوں سے تیزی کے ساتھ نامعلوم مقامات کی طرف روانہ ہوئے ، اس دن قم کی شام ، شام الم بنی ، پورے شہر میں جنگ کا سماں بندھا ہوا تھا، جون کی صبح قائد انقلاب امام خمینی کی گرفتاری کی خبر تہران ، مشہد ، شیراز اور دیگر شہروں میں پھیل گئی تو ان شہروں میں بھی قم ،کی طرح حالات کشیدہ ہوگئے ، ورامین اور تہران کے نواح میں واقع قصبوں کے لوگ تہران کی طرف چل نکلے ۔ ورامین چوک پر فوجی ٹینک ، بکتر بند دستے اور مسلح افواج عوام کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے مورچہ بندتھے ۔ انہوں نے عوام کو روک کر ان پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں مظاہرین خاک و خون میں غلطان ہوگئے ، تہران میں بازار اور شہر کے وسطی علاقوں میں بھی عوام کا جم غفیر نظر آرہا تہا جو لبیک یاخمینی کے نعرے لگاتے ہوئے شاہی محل کی طرف بڑھ رہا تھا ،تہران کے جنوبی علاقوں سے بھی عوام کی کثیر تعداد شہر کے مرکزی علاقے کی طرف چل نکلی ، جنکے آگے آگے جنوبی تہران کے دو بہادر مجاہدین ، طیب حاج رضائی اور حاج اسماعیل رضائی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ چل رہے تھے۔ ان دو مجاہدوں کو چند دن بعد گرفتارکرکے گولیوں سے خون بہا دیا گیا اور ان کے ساتھیوں کو بندر عباس کی طرف شہر بدر کر لیا گیا ۔شاہ کے قریب ترین مصاحب جنرل حسین فردوست نے اپنی یادداشتوں میں لکھاہے کہ تحریک کو کچلنے کیلئے امریکہ کے ممتاز ترین سیکیوریٹی اور سیاسی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی تہیں ۔ فردوست نے ان لمحات میں شاہ نے اسکے درباریوں ، فوج اور ساواکی کمانڈروں کی وحشت زدہ صورتحال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شاہ اور اس کے جرنیل تحریک کوکچلنے کا دیوانہ وار حکم دیتے تھے ۔ جنرل فردوست ان دنوں کے ناگفتہ بہ حالات کے متعلق مزید لکھا : مخصوص شاہی گارڈ کماندرجزل اویسی سے میں نے کہا:واحد راہ حل یہ ہے کہ فوج میں جتنے بھی اسلحہ اٹھانے کی صلاحیت رکھنے والے لوگ ہیں ان سب کو مسلح کرکے فوج کے سپاہی اور شاہی پولیس کے کارندے وسیع پیمانے پر کاروائی کرتے ہوئے عوام کو براہ راست گولیوں کا نشانہ بناکر اپنی پوری طاقت استعمال کرکے عوامی تحریک کو کچلنے میں کامیاب ہوں۔
امام خمینی انقلاب لانے سے پہلے ایک بزرگ عالم تھے؛
حجت الاسلام والمسلمین شیخ ریاض حسین نے اپنی تقریر کے دوران فرمایا!درس وتدریس !حوزہ علمیہ قم میں قیام کے دوران حضرت امام خمینی نے مدرسہ فیضیہ ،مسجد اعظم ، مسجد محمدیہ ، مدرسہ حاج ملا صادق، مسجد سلماسی وغیرہ مقامات پر فقہ ِ اصول فقہ ، فلسفہ ، عرفان و سلوک اور اسلامی اخلاقیات کے متعدد درس دئیے ، حوزہ علمیہ نجف میں یہی آپ نے سال تک مسجد شیخ مر تضی انصاری میں علوم اہل بیت اور فقہ کی اعلی ترین سطح پر تدریس کی ، نجف ہی میں آپ نے ولایت فقیہ کے درسی سلسلے میں پہلی بار اسلامی حکومت کے نظریاتی اصول بیان فرمائے، حوزہ علمیہ قم میں قیام کے دوران حضرت امام خمینی نے مدرسہ فیضیہ ، مسجد اعظم ، مسجد محمدیہ ، مدرسہ حاج ملا صادق، مسجد سلماسی وغیرہ مقامات پر فقہ ِ اصول فقہ ، فلسفہ ، عرفان و سلوک اور اسلامی اخلاقیات کے متعدد سلسلہ ہائے درس دیئے ۔ حوزہ علمیہ نجف میں بہی آپ نے کئی سال تک مسجد شیخ مر تضی انصاری میں علوم اہل بیت اور فقہ کی اعلی ترین سطح پر تدریس کی ، نجف میں آپ نے ولایت فقیہ کے درسی سلسلے میں پہلی بار اسلامی حکومت کے نظریاتی اصول بیان فرمائے آپکے شاگردوں کا کہناہے کہ امام خمینیکا حلقہ درس حوزہ علمیہ کے معتبر حلقوں میں شمار ہو تاتھا ، حوزہ علمیہ قم کے بعض تعلیمی سالوں کے دوران امام خمینیکے سامنے زانوئے تلمذطے کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ پہچتی ہے،، جن میں بیسیوں مسلم اور معروف مجتہدین بھی شامل ہو تے تھے جو امام خمینی کے فقہ و اصول کے درس خارج میں شرکت کرتے تھے۔بلکہ یوں کہاجائیکہ سینکڑوں بلکہ تعلیمی ہزاروں علما اور ذہین و فطین دانشوروں کی تربیت امام خمینی کی چند سالہ تدریسی کاوشوں کا پر فیض ثمر ہے ،، ان علما ع کرام میں سے ہر ایک آج کے دور میں حوزہ علمیہ قم اور دیگر دینی مراکز کے تشنگان علوم دین کو سیراب کرنے والے نامور اور مستند مجتہدین، فقہا ع اور عرفا ع میں شمار ہوتا ہے,شہید مطہری،شہید بہشتی جیسے مفکرین کو بھی یہ فخر حاصل ہے کہ انہوں نے کئی برس تک اس عارف کامل کے سر چشمہ فیض سے استفادہ کیاہے ،آج انقلاب اسلامی کے سائے میں مملکت کے کلیدی عہدوں پر فائز علماع کرام امام خمینی کے فقہی اور سیاسی مکتب کے تربیت پانے والے درخشاں چہرے ہیں۔
جہاد و انقلاب کے محاذ پر:
١٩٣٧کوجب آیة اللہ العظمیٰ حائری رحلت کر گئے ۔، اس سانحے سے حوزہ علمیہ قم ،بندش کے خطرے سے دچار ہوا لیکن فرض شناس علمائے کرام ، صورت حال کوسنبھالنے کیلئے آگے بڑھے اور آٹھ سال تک اس بحرانی دورمیں حضرات آیات عظام سید محمد حجت ، سید صدرالدین صدر اور سید محمد تقی خوانساری نےمشترکہ طور پر حوزہ علمیہ قم کی سرپرستی کی ، اس دوران رضا خان پہلوی کو معزول کیا گیا تو مرجعیت اعلی کے تعین کے لئے فضا ساز گار ہوئی ، آ یت اللہ العظمی بروجردی اعلیٰ علمی شخصیت کے حامل ہونے کی وجہ سے آیت اللہ العظمی حائری کے بہترین جانشین ثابت ہوئے ۔ لہذا امام خمینی سمیت آ یت اللہ حائری کے شاگردوں نے آیت اللہ بروجر دی کو حوزے کی قیادت کی ذمہ داری سنبھالنے پر آمادہ کرنے کیلئے کوشیشیں کیں، ، امام خمینی نے انہیں قم کی طرف ہجرت کی دعوت دینے میں سنجیدگی سے کوششیں مبذول کیں ، امام خمینیمعاشرے کے حالات اور دینی درسگاہوں کی صورتحال پر کڑی نگاہ رکھتے تھے ، آپ معاصر تاریخ کی کتب اور رسائل وجرائد کے مطالعے کے علاوہ تہران رفت و آمد کے ذریعے آیت اللہ مدرس جیسے اکابر کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی معلومات میں اضافہ فرماتے رہتے تھے ، لہذا آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ مشروطیت آئینی تحریک کی شکست اور بالخصوص رضا خان پہلوی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد رونما ہونے والے ذلت آمیز حالات کا ازالہ کرنے کی واحد راہ حل حوزہ علمیہ کے علما ع کی بیداری بلکہ اس سے قبل دینی درسگاہوں اور علما ع کرام کے ساتھ عوام کا روحانی رابطہ ہے۔
آیت اللہ بروجردی کے قم آمد کے بعد امام خمینیبھی حوزہ علمیہ قم کے نامور مجتہدین اور ا ساتذہ میں شمار ہوتے تھے آیت اللہ بروجردی کی قیادت اور مرجعیت کو مستحکم کرنے کے لئے سعی بلیغ فرمائی ،چنانچہ امام خمینی کے شاگردوں کے مطابق اس مقصد کی تکمیل کیلئے آپ آیت اللہ بروجردی کے اصول فقہ کے درس میں شرکت فرماتے تھے۔
امام خمینی کے سلسلے سسے مجالس عزاکابھی سلسلہ بھی جاری رہا جسمیں حجة الاسلام والمسلمین مولاناسید مبین حیدررضوی نے خطاب فرمایا!آپ نے نہات عظیم مطالب پیش کئے،،امام خمینی کی کامیابیوں کا راز، نفسانی خواہشات کے ساتھ آپ کے مقابلہ اور حقیقی شہودی معرفت حاصل کرنے کیلئے کی جانے والی انتہک جد وجہد میں مضمر ہے، چشم فلک نے بہت سے بلند مرتبہ مجاہدوں اور انقلابیوں کو دیکھاہے لیکن جو عنصر امام خمینیکے کارنامے کو عظمت بخشتا اور آپ کے انقلاب کو دوسرے انقلابوں سے ممتازرہا وہ یہ ہے کہ آپ ایسی شخصیت کے مالک تھے جس نے بیسیوں صدی میں اسلامی انقلاب برپا کیا اور ان تمام لوگوں کے بقول جو ہمیشہ آپ کے ساتہ رہتے تھے ، حد بلوغ کو پہنچنے کے بعد سے تحریک کے آغاز تک اور اس وقت سے لے کر دنیائے فانی سے کوچ کرجانے تک عمر کے کسی بھی مرحلے پر آپ نے واجبات اور دینی فرائض کی ادائیگی تو درکنار ایک رات بھی نماز تہجد اور رات کی عبادتیں نہیں چھوڑی تھیں ، پیرس کے مضافاتی مقام نوفل لوشاتو میں قیام کے آخری دنوں میں نماز کا وقت ہونے پرامام خمینی فرانس میں اپنی آخری پریس کانفرنس کو ادھوراچھوڑکرنماز پڑھنے کیلئے اٹھ کر چلے گئے جب تک اس پریس کانفرنس کے لئے دنیا بھر کے سینکڑوں نامہ نگار اور کیمرہ مین جمع ہوگئے تھے اور آپ کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صرف چند منٹ گذر گئے تھے ۔مخاطبین میں امام خمینی کے پیغامات اور اقوال کی حیران کن تاثیر جان نثاری کی حد تک پہنچتی تھی ، اس کاراز آپ کی بنیادی فکر، قوت فیصلہ اور عوام کے ساتھ آپکے بے لوث خلوص میں مضمرہے ۔
خطیب محترم نے فرمایا کہ تاریخی شواہد اور دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ انقلاب کے آغاز میں بہت سی جماعتیں اور بڑے بڑے مذہبی اور سیاسی رہنما میدان کارزار میں کودپڑے تھے جنہوں نے بعض مراحل پر سخت ترین مواقف کا اظہار بھی کیا تھا، لیکن شاہی حکومت کے پہلے حملے میں ہی وہ پیچھے ہٹ گئے ،امام خمینی(رح) اور آپ کے پیروکار ہی جہاد کی تمام مدت میں اپنے بنیادی مواقف سے منحرف ہوئے بغیر ہر قسم کی سختیوں اور فراز و نشیب کے باوجود اپنا ان اہداف کے حصول کی راہ میں استقامت اور جانفشانی کا مظاہرہ کرتے رہے جن کا اعلان انہوں نے اپنی تحریک کے آغاز میں کیا تھا، جبکہ ان کی راہ میں حائل ہونے والی الجھنوں میں سے ہرایک الجھن مواقف میں تبدیلی ، خاموشی اختیار کرنے یا ساز باز قبول کرنے کا سبب بن سکتی تھی، روز مرہ سیاسی اور معاشرتی حالات کے تقاضوں سے ہٹ کر بنیادی اصول اور روشن حقائق پر یقین رکھے بغیر اس طرح کی پائداری اور استقامت حاصل نہیں ہوسکتی ہے ۔مدرسہ فیضیہ کے چہلم کے موقع پر ایک پیغام میں امام خمینی نے مئی 1963کو غاصب اسرائیل کے خلاف اسلامی ممالک کے سربراہوں کی جنگ میں ایرانکے علما ع ار عوام کی حمایت پر زور دیتے ہوئے شاہ اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی مذمت کی، اس طرح آپ نے اپنی تحریک کے آغازسے ہی اس حقیقت سے روشناس کرایا کہ ایران میں اسلامی تحریک امت مسلمہ کے مفادات سے علیحدہ نہیں اور آپ کی یہ تحریک پورے عالم اسلام کیلئے ایک اصلاحی تحریک ہے جو صرف ایران کی جغرافیائی علمائے کرام کے نام ایک خط میں لکھا : مذہب اسلام کو اور ایرانی پیروان مذہب حقہ کو اسرائیل سے بہت زیادہ خطرہ لاحق ہے ، اسلامی ممالک کے خلاف اسرائیل کے ساتھ یاتو معاہدہ ہو چکا ہے یاہونے والا ہے۔ اگر کوئی خاموش یاپیچھے رہنے کوکہناچاہے توایک جواب ہوناچاہیے کہ ہمارے اوپر اسلام اورپیغمبراسلام ص کاحق ہے ،فضایل کے بعد مصائب امام حسین سے مجلس کواختتامی منزل تک پہچایا۔ بزم مسالمہ !امام خمینی(رح)کے سلسلے سے شعراع کرام نے بھی منظوم نذرانہ عقیدت پیش کئے ،جنمیں ،ہندوستان،پاکستا ن اور ایرانی شعراء نے بھی شرکت کی نذران عقیدت:
سید لیاقت علی کاظمی الموسوی۔کیا کہوں قافلہ فکر ونظر قید میں تھا۔"منزلیں پا بہ رسن جیسے سفر قید میں تھا۔۔آنکھیں پتھرائیں تھیں اور دیدہ تر قید میں تھا۔۔۔ایک دو فرد نہیں سارا نگر قید میں تھا۔۔۔۔ایک محشر تھا تلاطم تھا مناجاتیں تھیں۔۔۔دن مقدر میں نہ تھا ،گویا فقط راتیں تھیں۔۔۔رات ایسی رمق ِصبح نہیں تھی جسمیں۔۔۔۔خونِ دل خونِ جگر دیدہ نم تھا اسمیں۔۔۔جسکی پروردہ تھیں جہال کی ستر قسمیں۔۔۔انکو آئینہ دکھا ئے!! تھا بھلا دم کس میں۔۔۔آدمیت خجلِ شیوہ شیطانی تھی۔۔۔۔پانی مہنگا تھا مگر خون کی ارزانی تھی۔۔۔جام ِ سیمینِ تخیل پہ لگے تھے پہرے۔۔۔ایک انسان کے دکھتے تھے ہزاروں چہرے۔۔۔۔سامراج اور سیاست کے سجے تھے مہرے۔۔۔حق کی آواز کہاں سنتے، سبھی تھے بہرے۔۔۔۔مرحب وقت کے چنگل میں علی والے تھے۔۔۔۔تھی وہ مسموم فضا،جان کے بھی لالے تھے۔۔۔۔ایسے ماحول میں اک شیر نیستاں اٹھا۔۔۔۔وارث دبدبئہ ملک ِسلیماں اٹھا۔۔۔حیدری عزم لئے وقت کا انساں اٹھا۔۔ہند کا بیج شجر بن کے زِ ایراں ٹھا۔۔۔اصفہان و قم ومشہد سے صدا آنے لگی۔۔۔سارے عالم سے خمینی کی ندا آنے لگی۔۔۔وقت نے ہوش کے ماتھے کی لکیریں چومیں۔۔۔۔دہر نے پھر سے نجف والی جبینیں چومیں۔۔۔روح نے عقل کے شہروں کی فصیلیں چومیں۔۔۔ابن حیدر کے کف پا کی زمینیں چومیں۔۔۔عدل نے ظلم کا سارا دم و خم توڑ دیا۔۔۔علم نے جہل کے لشکرکا بھرم توڑ دیا۔۔۔حاکمیت پئے ایمانِ خدا ناب ہوئی۔۔اور ایراں کی زمیں نور کا اک باب ہوئی۔۔۔سطوت شاہی اسیرِ دمِ گرداب ہوئی۔۔۔فارسی! باعث حیرانء اعراب ہوئی!۔۔۔حرفِ حق! شمعِ شریعت سے ضیا بار ہوا۔۔۔ملک سلمان علی والوں سے گلزار ہوا۔۔۔ہاں اسی مرد دلاور کے ہیں رہبر نائب۔۔۔۔جیسے بعدِ شہ ذیشان تھے، حیدر نائب۔۔یوں تو دنیا نے تراشے ہیں معمر نائب۔۔۔۔پر کہاں کوئی ہے حیدر کے برابر نائب۔۔۔سلسلہ،یاں بھی، اسی سلسلہ نور کا ہے۔۔ہاشمی خون میں جلوہ نجف وطور کا ہے۔۔۔۔گوہرِ قلزم الطافِ نبی ہیں رہبر۔۔۔سالکِ مسلک ِ سلمانِ علی ہیں رہبر۔۔۔بالیقیں ِ فاطمہ زھرا کی خوشی ہیں رہبر۔۔۔خوابِ شبیر کی تعبیرِ جلی ہیں رہبر۔۔۔حیف ہے!ملکِ پیمبرۖ بھی سقیفائی ہے۔۔۔لطفِ زھرا(س) ہے یہ، ایران جو مولائی ہے۔۔۔اے جری خامنہ ای ہم تری جرت کے نثار۔۔۔ہے تر ے دم سے ہی محزون ،غریبوں میں قرار۔۔۔حاملِ علمِ نبیۖ ، مرجعِ عالی کردار۔۔۔آبرو قوم کی ہے جتنا بڑھے تیرا وقار۔۔۔ذمہ داری پئے غیبت یہ نبھائی تونے۔۔۔دل میں امید ظہور اور جگائی تونے۔۔۔۔۔۔ترجمانِ انقلاب۔
عابد رضا نوشاد !پیروانِ فاطمہ رکھتے ہیں شان انقلاب۔۔۔تحف دیتے ہیں دنیا کو زبان انقلاب۔۔۔لو خمینی نے قدم اپنے رکھے ایران میں۔۔۔پھر اتر آیا زمیں پر آسمان انقلاب۔۔۔حضرت عیسی بھی آمادہ ہوئے بہر ظہور۔۔۔دی خمینی نے جو ایراں میں اذان انقلاب۔۔۔تھا اسے حکمِ اذان، سو اس نے کی تعمیل حکم۔۔۔اب خدائے لم یزل ہے پاسبان انقلاب۔۔۔مرحبا قاسم سلیمانی تمہارے خون نے۔۔۔اور بھی رنگین کردی داستان انقلاب۔۔۔اے فلسطین و یمن اے شام و بحرین و عراق۔۔۔ہے تمہاری سرزمیں بھی آسمان انقلاب۔۔وقت کے ہر حرملہ کو خوب یہ معلوم ہے۔۔بچہ بچہ بولتا ہے یاں زبان انقلاب۔۔تربیت آغوش مادر سے اگر کیجے شروع۔۔۔آج کے بچے بنیں گے کل جوان انقلاب۔۔ہم نے حبل اللہ دستِ بندگی سے تھام کر۔۔گردنِ ظالم میں ڈالی ریسمان انقلاب۔قریِ عزت جو کہتا ہے کہ ذلت مردہ باد۔۔۔سینِ باطل میں چبھتی ہے سنان انقلاب۔
شاعراہلبیت سرور رضوان اعظمی نے چند قطعات کے ساتھ امام خمینی سے والہانہ لگاو کانظم میں ذکرکیا!پھرزندگی کواک نیاآغازدیجئے،ہم طایروں کوتحفہ پروازدیجئے،،،مولیٰ حسین آپکوصغریٰ کاواسطہ،،اس سال کربلاسے پھرآوازدیجئے،،،علم اورعرفان سے جب رابطہ ہوجائیگا،مقصد قرآن کاطے مرحلہ ہوجائیگا،،پھرلکھوگے جب ورق پرصرف لفظ فاطمہ،،سورہ کوثر کاپوار ترجمہ ہوجائیگا۔
آپ کا تبصرہ