حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا میر قائم عابدی علی پوری بنگلور کرناٹک نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ شہر علم وادب,مرقع تہذیب وثقافت لکھنؤ جب سے دشمنوں کی نگاہ میں سمایاہے اسے ام الفتن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے.فتنہ ساز افراد مولائیت کو بہانہ بنا کر مولائیت کو بدنام بلکہ دشنام کا ذریعہ بنا کر خود کو مولائی اور دوسرے کو مقصر کا تمغہ دیتے رہتے ہیں. جبکہ معرفت میں غرق, والہانہ عشق رکھنے والاحقیقی مولائی اپنے انکسار کی بنیاد پر خود کو مقصر شمار کرتا ہے .لہذآ أیت اللہ العظمی وحید خراسانی مدظلہ العالی جیسا عارف سالک عاشق وارف خود کو قاصر ومقصر کہنے پر اصرار کرتا ہے.لیکن نام نہاد مولائی اپنے علاوہ سب کو مقصر کہہ کر اپنی دانست میں گالی دے کر خوش ہو جاتے ییں۔
انہوں نے کہا کہ نام نہاد مولائیت کا بیڑا اٹھانے والوں کے مروج اور میڈیا پارٹنر میں روزنامہ صحافت کا نام سر فہرست ہے۔
صحافت کے اصول کی دھجیاں اڑاتے ہوے شیطان کا شیرہ لگا کر کنارے ہٹ جانا اور ہنگامہ ہونے کے بعد کذائی معذرت نامے کے ذریعہ گناہ سے بدتر عذر پیش کرنا اس روزنامے کے ذمہ داروں کا فرض منصبی ہے۔
1:سید مقاومت سید حسن نصر اللہ کو دہشت گرد لکھنا۔
2:ولایت فقیہ کے طرفدار علما کو بدنام کر نے کی ناکام کوشش کر کے رہبر انقلاب سے قلب وجگر میں لگی بغض کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوششش۔
3:مولانا کلب جواد سے مفاد حاصل نہ ہو نے کی صورت میں ایک مدت تک ان کے خلاف بیان بازی کرنا۔
4:حق پرست علما کی بے حرمتی کر کے ان کاناطقہ بند کرنے کی ناکام کوشش کرنا اور ضمیرفروشوں کو علامہ بنا کر پیش کرتے ہوے اپنےمقاصد شوم کو پورا کرنے کی سعی پیہم اس اخبار کا پرانا شغل ہے۔
ایک نئی سازش کے تحت اس اخبار نےحفیظ اسلامی صاحب کے گھسے پٹے کئی بار کئی جگہ شایع ہو نے والے مضمون کو چھاپ کر روزنامے کے ایڈیٹر نے اپنی نفس پرستی اور امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے محبت کے جھوٹے دعوے کی قلعی کھول دی ہے۔
تمام مدافعین ولایت پر علی مرتضی کی شان میں تقصیر کی تہمت لگانے والے مقصر افراد کے سرغنے کا چہرہ حق پرستوں کے سامنے کھل کر صاف ہو چکا ہے .یعنی:
خود آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
روز نامہ صحافت کے اس قبیح اور لائق ملامت عمل نے نام نہاد مولائیوں کا چہرہ طشت از بام کر دیا ہے.اور ثابت کردیا ہے کہ ان کا باطن یا تو علوی کینے سے بھرا ہے. یا محبت پردنیا طلبی غالب آچکی ہے۔
اس دعوے کا واضح ثبوت وہ معذرت نامہ ہے جو ایڈیٹر کی طرف سے شائع ہوا جس میں حفیظ اسلامی صاحب کا بھی اعتذار تھا۔
اگر روزنامہ صحافت کے ایڈیٹر میں عشق علی مرتضی علیہ السلام کی ذرہ برابر بھی بوباس ہوتی تو اس غلطی کو علمی مباحثہ کا میدان بنا کر تفسیر ابن کثیر اور اس جیسی دوسری تفسیروں کی اہمیت اوراس کے لکھنے والے کا علوی عناد یا ابن تیمیہ سے لگاؤ پھر اس تفسیر میں موجود روایت کی سندی اور محتوائی تحقیق وتمحیص ہوتی تو پھر معلوم ہوتا کہ روایت لکھنے سے پہلے درایت کتنی ضروری ہے اور پھر اسی تفسیر نے خلفا کے بارے میں کیا لکھا ہے اور پھر جناب بخاری نے عائشہ امی کے بارے میں کیا لکھا ہے اس طرح ایک علمی مباحثہ کا دور چلتاتب پتہ چلتا کہ پتھر سے ٹکرا کر شیشہ کا انجام کیا ہوتا ہے۔
لیکن یہ سب کچھ نہیں ہوا بلکہ ایک بھدا سا اعتذار جس میں اہنی غلطی پر نادم ہونے سے زیادہ دوسروں پر تہمت لگانے کا قبیح فعل انجام دیا گیا۔
پھر کیا تھا نام نہاد مولائی حفیظ اسلام صاحب کو فون کر کے گالیاں دینے لگے.اس طرح علوی تہذیب کا مذاق اڑایا جانے لگا۔ جو علی مرتضی علیہ آلاف التحيةوالسلام معاویہ علیہ الھاویہ کو گالی دینا ہسند نہیں کرتے تھے ان سے محبت کا دم بھر نے والے نام نہاد افراد,معاویہ کے عاشقوں کو بھدی بھدی گالیاں دے کر اپنے زعم ناقص اور فکر پست میں محبت کا حق ادا کر رہے ہیں .جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یاسر حبیب کی سیرت پر چلنے والے لندنی تشیع کے یہ ضمیر فروش موالی اپنےعمل سے حضرت علی علیہ السلام اور ان کےشیعوں کے دشمنوں میں اضافہ کر کے امام زمانہ عج کے قلب مضطر کواور زیادہ مجروح کر رہے ہیں۔
گالی دینے والوں کے حوالہ سے یہ حکایت بہت عبرت ناک ہے:
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک دوست تھا اس کا ایک کافر بت پرست غلام تھا ایک بار امام علیہ السلام اس دوست کے ساتھ سفر پر جارہے تھے اور اس دوست کا غلام بھی اس کے ساتھ تھا راستے میں غلام پیچھے رہ گیا, دوست نے پکارا لیکن وہ دیر میں پہنچا تو اس دوست نے کہا: *اے حرامزادہ تو کہاں رہ گیا تھا ؟یہ سنتے ہی امام علیہ السلام نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا اور اپنے دوست سے فرمایاکہ تم نے یہ کیا غضب کر دیا .؟!اسےگالی کیوں دی؟! تو دوست نے کہا کہ یہ کافر ہے اس کے یہاں نکاح اسلامی طریقے سےنہیں ہوتا ہے اس لیے یہ حرامزادہ ہوا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ ہر دین میں نکاح کا ایک خاص طریقہ ہوتا ہے اسی کو دین اسلام تسلیم کرتا ہے؟!
اپنی غلطی پر نادم ہو کر دوست نے معافی مانگی تو امام نے اسے معاف نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ کبھی بھی تم ہمارے ساتھ نہیں رہو گے کیونکہ اگر تم رہو گے تو ہم تمہاری وجہ سے بد نام ہوں گے کہ جعفر صادق کا دوست گالی بکتا ہے
لمحہ فکریہ ہے کہ خود کو علی مرتضی سلام اللہ علیہ کی ولایت کا ٹھیکہ دار سمجھنے والے افراد گالی کے ذریعے مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں .یعنی نام علی(ع) کا ,کام نسل بنی امیہ کا!!!!
یہاں پر خطیب اکبر کی ایک مثال یاد آتی ہے، وہ اکثر پڑھا کرتے تھے:
ایک صاحب کو سارے امراض نے گھیر لیا تھا,تمام ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا ایک ڈاکٹر آیا اس نے کہاکہ ہم سب ٹھیک کر دیں گے .ڈاکٹر کہہ کر چلا گیا تو سب مریض کے گلے پڑ گئے کہ بھلا تم کیسے صحت مند ہو سکتے ہو بھلا کوئی کینسر کا مریض ٹھیک ہوا جو تم ٹھیک ہو گے ,شوگر کا مریض کب ٹھیک ہوا ہے جو تم ٹھیک ہو گے۔۔۔
اطہر صاحب مرحوم فرماتے تھے کہ ارے اس مریض کا سر کیوں کھا رہے ہو ڈاکٹر سے جا کے پوچھو کیسے بچاے گا
میں بھی یہی کہتا ہوں کہ مریض بغض علی سے کیوں شکایت کر رہے ہو وہ تو اس سے زیادہ لکھ نہیں سکتا مرد ہو تو جا کے صحافت کے ایڈٹر کا گریبان پکڑو کہ تم نےکیوں اپنے مولائی اخبار میں اس کو شائع کیا ؟!اور شائع کر بھی دیا تھا تو نامردوں والا معذرت نامہ کیوں چھاپا۔
لیکن یہ کبھی نہیں ہو گا سامراج کے آلہ کار یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں چاہے شیعہ ہرسنل بورڈ کے ترجمان ہوں یا مرتد وسیم رشدی یا صحافت اور اس کا پورا جرگہ یہ سب گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے ہیں۔
اس کھیل کےتابوت میں آخری کیل مرتد وسیم رشدی نے پیوست کی مغلظات کا طوفان پھیلا کر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا کیونکہ ادھر سے حفیظ اسلامی صاحب کے بھائی نے کہا کہ اب مجھے یقین ہو گیا کہ سارے شیعہ کافر ہین
وسیم رشدی کے ذریعے سارے شیعہ کافر بن گئے یہی کھیل شام میں بھی رچاگیاتھا جس کے بعد داعش کی فوج تیار کی گئی۔
ہندوستان میں یہی کام کرنے کو وسیم رشدی ,صحافت اور شیعہ پرسنل لا کے ترجمان کو رکھا گیا ہے۔
اس لیے ہہلے مرحلے میں لکھنو کے با بصیرت افراد حفیظ اسلامی صاحب کی توہین اور ان کو بھدی بھدی گالی اور ناموس رسالت کی توہین کے جرم میں لکھنؤ میں اجتماعی F.I.Rکریں۔
دوسرے مرحلے میں ہندوستان بھر سے غیرت مند شیعہ حضرات اپنے اپنے علاقے میں اجتماعی F.I.Rکریں(البتہ کورونا کی رعایت کرتے ہوے) تاکہ اس شاتم قرآن ورسالت سے شیعوں کی بیزاری کا اعلان عام ہو جاے۔
ساتھ ہی ساتھ روزنامہ صحافت کے چیف ایڈیٹر امان عباس صاحب ہر دباؤ بنایا جاے کہ وہ اس جرم کی تلافی کریں اور اپنے اخبار میں ایک علمی مذاکرہ کا اہتمام کریں جس میں حفیظ اسلامی صاحب کو بھی دعوت تحریر دی جاے کہ وہ اپنی یی کتابوں میں اور بھی حقائق دیکھیں اور جو کی شراب کس کی زبدگی کی آخری غذا تھی جو ہضم نہ یوکر موضع معتاد سے خارج ہوگئی اسے بھی ملاحظہ کریں ,کس صحابی رسول نے نشہ کے عالم میں نماز پڑھائی اس کو بھی مورد تحقیق قرار دین۔
آخر میں دنیا کے تمام مسلمانون کو ایک ذمہ دار طالب علم کی حیثیت سے واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جو دوسروں کے مقدسات کی توہین کرے مکتب اہلبیت کے نمک خواروں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اسی طرح ہمارے مقدسات، جو ساری دنیا کے لیے مقدس ہیں اس کی بھی توہین ہم برداشت نہیں کرسکتے ہیں لیکن ہم تحریر کا جواب، تحریر سے، زبان کا زبان سے اور ہتھیار کا ہتھیار سے دیتے ہیں جیسے داعش کو ہم نے مکت مسلمہ کے تعاون سے خوب مزا چکھایا لیکن کسی بھی حال میں کوئی شیعہ کسی کو گالی نہیں بک سکتا ہے ہاں سامراج کا آلہ کار شیعہ کے بھیس میں کچھ کرے تو شیعہ اس سے بیزار ہیں۔