حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/ مجلس علمائے ہند کےجنرل سکریٹری امام جمعہ لکھنؤ مولانا سید کلب جواد نقوی نے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے سلطان المدارس کے معاملے پرملاقات کرکے مطالبہ کیاکہ سلطان المدارس کی قدیم عمارت جس نزول کی زمین پر قائم ہے اس کو مدرسہ سلطان المدارس کے نام الاٹ کیا جائے ۔مولانا کلب جواد نقوی نے اس مسئلے پر وزیر اعلیٰ کو ایک خط بھی سونپا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مدرسہ سلطان المدارس جسکی موجودہ عمارت سو سال سے بھی زیادہ قدیم ہے ،جسےمیرے بزرگوں نے ہی قائم کیا تھا ۔اس طویل عرصے میں مدرسہ سلطان المدارس نے اہم محب وطن شخصیات کو پیدا کیاہے جن میں میرے دادا مولانا کلب حسین مرحوم،میرے والد مولانا کلب عابد مرحوم اور میرے چچا مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق مرحوم جنہیں حکومت ہند نے پدم بھوشن ایوارڈ سے سرفراز کیاہے ،بھی شامل ہیں ۔
مولانانے لکھا ہے کہ میں نے بھی مدرسہ سلطان المدارس سے ہی تعلیم حاصل کی ہے اور آج بھی اس مدرسے میں سیکڑوں شیعہ طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔سال 1857 میں جب اودھ کے شیعہ حکمرانوںنے انگریزوں کے خلاف آزادی کا صور پھونکا تھا ،اس وقت انگریزوں کے ذریعہ شیعوں کی املاک پر جبراََ قبضہ کرلیا گیاتھا ۔سال 1911 میں انگریز سرکار کے ذریعہ ہی اس زمین کو 100 سال کی لیز پر شیعہ طبقے کو تعلیمی ادارہ قائم کرنے کے لیے دیا گیا تھا ۔مولانانے وزیر اعلیٰ کو لکھاکہ ہندوستان کے تمام شیعوں کی عقیدت اور جذبات مدرسہ سلطان المدارس سے وابستہ ہیں ،اس مدرسے نے جہاں محب وطن پیدا کئے ہیں وہیں ،اسکالر،شاعر ،ادیب اور عالم بھی پیدا کیے ہیں ۔فی الحال یہ مدرسہ حسین آباد ٹرسٹ کے زیر انتظام ہے ۔اس لیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مدرسہ سلطان المدارس کی زمین کو مدرسے کے نام الاٹ کیا جائے ۔
واضح رہے کہ مدرسہ سلطان المدارس کو آیت اللہ العظمیٰ سید دلدار علی غفران مآب ؒ کے فرزندسلطان العلماء آیت اللہ العظمیٰ سید محمد رضوان مآبؒ نے عہد امجد علی شاہ میں قائم کیا تھا ۔نواب امجد علی شاہ اور نواب امین الدولہ امداد حسین خاں نے مدرسے کی تعمیر اور اس کے قیام میں اہم کردار ادا کیاتھا۔ سلطان العلماء کی جدوجہد کی بنیاد پر ہی اس مدرسے کو ’مدرسہ سلطانیہ ‘ یا مدرسہ سلطان المدارس‘ کہا گیا۔اس مدرسے کے پہلے پرنسپل ممتاز العلماء مولانا سید محمد تقی جنت مآبؒ تھے۔
اس مدرسے کے پہلے اساتذہ میں غفران مآبؒ کے چاروں فرزند،غفران مآب کے پوتے صدرالشریعت عمدۃ العلماء آیت اللہ سید محمد ہادی،زین العلماء عضدالدین سید علی حسین ،خلاصۃ العلماء سید مرتضیٰ ،ملک العلماء سید بند ہ حسین ،آیت اللہ سید محمد صادق ،آیت اللہ سیدعبداللہ ابن سلطان العلماء، علامۃ العلماء سید احمد علی محمد آبادی،علامہ مفتی محمد قلی ،علامہ مفتی محمد عباس،اور دیگر علماء کرام شامل تھے ۔تفصیل کے لیے علامہ غلام حسین کنتوری کی خودنوشت سوانح اور اوراق الذہب میں اور دیگر کتابوں میں پڑھتی جاسکتی۔
1857کی جنگ آزادی میں ہندوستانیوں کی ناکامی کے بعد مدرسہ تعطل کا شکار رہا اور پھر تقریباََ35 سالوں کے بعد مولاناآغا سید محمد ابراہیم کی کوششوں سے دوبارہ شروع ہوا اور مدرسے کا احیاء کیا گیا۔اس وقت مولانا آغا ابوالحسن صاحب مرحوم کو مدرسے کی ذمہ داری تفویض کی گئی ،اور انہوں نے مدرسے کی ترقی کے لیے اہم کردار اداکیا۔