حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، املو،مبارکپور(اعظم گڑھ)/علم دوست ہونا یا عالم ہونافضیلت اور عظمت کی بات ہے مگر علم پرور ہونا اس سے بھی زیادہ فضیلت و عظمت اور جلالت و کرامت کی بات ہے۔شاہان اودھ کی تاریخ کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں ہیں تو سب ہی نوابین لکھنؤ متدیّن و متشرع ، علم دوست،عالم اور علم پرور تھے مگر انھیں میں مرزا حسن رضا خاں سرفراز الداولہ ہندوستان کی تاریخ شیعیت کی ممتاز و منفرداو رعظیم شخصیت نظر آتی ہے جس کا احسان عظیم شیعہ قوم و مذہب پر ناقابل فراموش ہے۔
’’نام حسن رضا خاں اور سرفراز الدولہ خطاب فیض آباد کے رئیس اعظم تھے‘‘(عماد السعادت صفحہ ۱۳۵)۔
’’سرفراز الدولہ ہی کی کوششوں سے فیض آباد میں شیعوں کی پہلی نماز جمعہ قائم ہوئی اور اس طرح ہندوستان میں شیعوں کی ایک الگ شناخت قائم ہوئی‘‘(آئینہ وقف مرتبہ مولانا محمد حجت،مولانا محمد محسن،ڈاکٹر شہاب شاہ صفحہ۸ ۵)
’’نواب حسن رضا خاں نے مولوی دلدار علی معروف بہ غفرانمآب کو پانچ ہزار روپئے دے کرمزید تعلیم کے لئے نجف اشرف بھیج دیا تھا‘‘(لکھنؤ کی تہذیبی میراث ڈاکٹر سید صفدر حسین لاہور پاکستان ۲۳۲)
’’لکھنؤ کی عزاداری کا فروغ بہت کچھ سرفراز الدولہ کے رجحان کا نتیجہ ہے۔انھوں نے ہی بڑے امامباڑے (آصفی امامباڑے ) کی تعمیر کی تجویز رکھی تھی۔۔۔۔مولوی دلدار علی ایران و عراق سے سند اجتہاد لے کر آئے تو سرفراز الدولہ نے انھیں اپنے بیٹے کا اتالیق مقرر کیا‘‘(آئینہ وقف مرتبہ مولانا محمد حجت،مولانا محمد محسن،ڈاکٹر شہاب شاہ صفحہ ۹۵)۔
’’تذکرۃ العلماءاور آئینہ حق میں درج ہے کہ پہلی نماز ظہرین لکھنؤ میں با جماعت نواب آصف الدولہ کے زمانہ میں ۱۳؍رجب ۱۲۰۰ھ بروز جمعہ مطابق ۳۳مئی ۱۷۸۶ءسرفراز الدولہ مرزا حسن رضا خاں کے مکان پر واقع ہوئی ۔بقول مولوی عبد الحی یہ پہلا دن ہے کہ وسط ہند میں شیعوں نے اپنی نماز جمعہ و جماعت علاحدہ کرلیا‘‘(آئینہ وقف مرتبہ مولانا محمد حجت،مولانا محمد محسن،ڈاکٹر شہاب شاہ صفحہ ۹۵)
’’مولانا دلدار علی نےشیعہ فرقے کی اول نماز ظہرین بجماعت ۱۳؍رجب ۱۲۰۰ھ مطابق ۱۲؍مئی ۱۷۸۶ءکو نواب حسن رضا خاں کے مکان پر پڑھائی تھی‘‘(لکھنؤ کی تہذیبی میراث صفحہ ۲۳۳)۔
’’نواب حسن رضا خاں نے مولانا دلدار علی صاحب کو نصیرآباد سے بلا کر لکھنؤ میں بڑے اعزاز و احترام سے رکھا‘‘(مطلع انوار صفحہ ۲۲۲)
’’ نواب آصف الدولہ اور ان کے وزیر سرفراز الدولہ حسن رضا خاں نے لکھنؤ میں شیعہ عقیدے کو دربار ی مزہب کی حیثیت دے رکھی تھی ۔عدالتوں میں بیشتر مفتی اگرچہ غازی الدین حیدر کے عہد تک علمائے اہل سنت ہی سے تھے لیکن حسن رضا خاں نے ایک شیعہ عالم مرزا محمد عسکری کو پانچ سو روپئے مشاہرے پر مفتی دربار مقرر کردیا تھااور انھیں سے احکام شرعیہ حاصل کئے جاتے تھے ۔مولانا ئے موصوف شیعوں کے اخباری فرقے سے تعلق رکھتے تھے یعنی اصولی نہیں تھے ،اس لئے انھیں نماز جمعہ و جماعت سے کوئی سروکار نہ تھا ۔جب مولانا دلدار علی نصیرآبادی اجازہ اجتہاد عراق سے لے کر آئے تو دربار میں ان کی بہت تعظیم و تکریم ہوئی‘‘(لکھنؤ کی تہذیبی میراث ،صفحہ ۲۳۲)
’’مولانا دلدار علی نے کوئی درباری عہدہ اپنے لئے پسند نہیں کیا ۔ان کی کفالت کے لئے ایک ہزار روپئے ماہوار کی وہ جائیداد کافی تھی جو انھیں بہو بیگم یعنی والدہ آسف الدولہ نے بطورمعافی دی تھی‘‘(لکھنؤ کی تہذیبی میراث ڈاکٹر سید سفدر حسین لاہور پاکستان)
مرزا حسن رضا خاں سرفراز الدولہ نے بہت سے مدرسے،مساجد،امامباڑے تعمیر کرائے بہت سے اوقاف اور کتب خانے وغیرہ قائم کئے جو اسلام اور شیعیت کی تبلیغ و ترویج اور نشر اشاعت میں آج بھی موثر کردار ادا کر رہے ہیں۔
سلام ہو ہمار ا اودھ کے متدین و متشرع اور علم پرور نوابین و وزرائےاعظم و علمائے کرام پر جن کا عظیم احسان ہے شیعیان ہند پر۔مومنین سے التماس ہے کہ ایک سورہ فاتحہ سے ان کی ارواح پاک کو ایصال ثواب فرما دیں۔
ملتمس:
حجۃ الاسلام مولانا ابن حسن املوی واعظ
بانی و سرپرست حسن اسلامک ریسرچ سینٹر
املو،مبارکپور،ضلع اعظم گڑھ (اتر پردیش)