۲۹ خرداد ۱۴۰۳ |۱۱ ذیحجهٔ ۱۴۴۵ | Jun 18, 2024
لکھنؤ

حوزہ/ امام بارگاہ آصف الدولہ میں آنے والے سوگواروں کا یہ اب تک کا سب سے بڑا اجتماع تھا، جہاں پاکستان کے معروف خطیب علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے خطیب اکبر کی برسی کی مجلس سے خطاب کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،عالمی شہرت یافتہ بین الاقوامی خطیب و عالم دین ،خطیب اکبر حضرت علامہ مرزا محمد اطہر صاحب قبلہ و خطیب العرفان مولانا مرزا محمد اشفاق صاحب اعلی اللہ مقامہما کے ایصال ثواب کی غرض سے آٹھویں مجلس دیسہ اس سال ۹؍جون بروز اتوا ر ساڑھے آٹھ بجے شب میں شہرہ آفاق آصفی بڑے امباڑہ لکھنؤ میں نہایت بلند اور عظیم الشان پیمانہ پر منعقد ہوئی جس میں شیعہ،سنی،ہندو وغیرہ نے بلا تفریق مذہب و ملت کثیر تعداد میں شرکت کی ۔مجمع کی کثرت کے اعتبار سے پورا امامباڑہ وسیع و عریض صحن در صحن اندر سے باہر تک انسانی سمندر کی مانند چھلک رہا تھا۔اور اس انسانی سمندر میں کراچی پاکستان سے تشریف لائے ہوئے مہمان عالمی شہرت یافتہ عالم دین و خطیب اہل بیت ؑ حجۃ الاسلام والمسلمین حضرت علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی صاحب قبلہ مد ظلہ العالی کی بصیرت افروز ،لطف اندوز ، عالمانہ خطابت ، اور سنجیدہ و تلاطم خیز انداز تکلم کے سحر انگیز جھونکوں سے ایسی خوشگوار زوردار موجیں بلند ہو رہی تھیں جس کا اثر یوں تو پوری دنیا میں محسوس کیا گیا لیکن خاص طور سے ہندو پاک کے علم دوست عوام کافی محظوظ و مستفید ہوئے۔پروگرام کا لائیو ٹیلی کاسٹ متعدد یوٹیوب چینلوں پر نشر کیا گیا جسے پوری دنیا میں دیکھا اور سنا گیا ۔

علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی نے اپنی تقریر کے دوران اصلاح معاشرہ اور حالات حاضرہ کے تناظر میں بہت سکون و اطمینان اور دلیری و بہادری کے ساتھ یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ’’علی ؑ کا چاہنے والا بزدل نہیں ہوتا ،مجھے وہ سنی پسند ہے جو ہزاروں شیعوں کے بیچ میں ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا ہے مگر اتنا ہی وہ شیعہ ناپسند ہے جو چار سنیوں میں ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا ہے‘‘۔سوشل میڈیا میں اس جملہ کی کافی عزت افزائی اور پذیرائی ہورہی ہے ۔ظاہر ہے اس جملہ میں مولانا نے اپنے سامعین کو سونچنے اور سمجھنے کے لئے بہت کچھ قابل غور وفکر موادعطا کر دیا ہے ۔ اولاً تو یہ کہ جب چار سنیوں میں کسی شیعہ کا ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا بزدلی اور ایمان کی کمزوری کی علامت ہے تو چند غیر مسلموں کے بیچ کسی مسلمان مذہبی یا سیاسی رہنما یا لیڈر کا ظاہراً تعظیم اصنام کرنا،کھلم کھلا بت پرسی کی عملاً تائید کرنا کس قدر لائق مذمت اور ناپسندیدہ وناجائز حرکت ہے۔ شاید علامہ نے غیرت دلائی ہے کہ ’’ حق بات سر دارورسن کون کہے گا‘‘۔یاد رہے کہ ہرسال اس مجلس دیسہ کا وقت انعقاد صبح میں قریب ۱۰؍ بجے رکھا جاتا تھا مگر اس سال شدت کی گرمی اور لو کی وجہ سے شب میں رکھا گیا۔

اس خالص مذہبی پروگرام سے مرزا حسن رضا خاں سرفراز الدولہ وزیر نواب آصف الدولہ طاب ثراہما کی ارواح پاک کو بھی کتنا مآل مجلس،سامان ترویح و تسکین روح ،زاد آخرت اور اجر و ثواب پہونچا ہوگا یہ تصور سے بالا تر ہے کیونکہ سرفراز الدولہ کی تجویز پر نواب آصف الدولہ نے یہ شاندار امامباڑہ بنوایا ۔لکھنؤ میں ایک دوسری عالیشان مرجع خلائق مذہبی شاندار عمارت شبیہ روضہ حضر ت عباس علیہ السلام معروف بہ درگاہ حضرت عباس رستم نگر لکھنؤ بھی مرزا حسن رضا خاں سر فراز الدولہ ہی کی بنوائی ہوئی ہے۔مرزا حسن رضا خاں سرفراز الدولولہ ہی کے خلوص نیت ،عشق اہل بیتؑ اور جذبہ تاسیس و ترویج تشیع نے نصیر آباد کے دلدار علی نامی ایک ہونہار شیعہ دینی طالب علم کو عالم،علامہ،مجتہد،مرجع، مجدد،متکلم،مبلغ ،محقق،مصنف،مولف بالآخر حضرت غفرانمآب رحمۃ اللہ علیہ بنا دیا جن کو ہندوستان کا پہلا شیعہ مجتہد ہونے کا اعزا حاصل ہو ا۔ مرزا حسن رضا خاں سرفراز الدولہ اعلی اللہ مقامہ کے دینی خدما ت کے لئے یہی کیا کم ہے کہ آپ ہی کی کوششوں سے پہلے فیض آباد میں حضرت مولانا عبد العلی دیو کٹھیاوی علیہ الرحمہ کی اما مت میں پہلی نماز جعہ قائم ہوئی اور پھر لکھنؤ میں حضرت غفرانمآب علیہ الرحمہ کی امامت میں پہلی نماز جمعہ قائم ہوئی ۔ اوران دونوں شہروں میں باقاعدہ نماز جمعہ آج بھی جاری ہے۔

خطیب اکبر مرزا محمد اطہر صاحب اعلی اللہ مقامہ ایک بہترین عالم با عمل،ماہر و تجربہ کار استاد و معلم،عالمی شہرت یافتہ خطیب اہل بیت ؑ نیز مرجع شیعیان جہان حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ آقائی سید علی حسینی السیستانی حفظہ اللہ تعالیٰ (نجف اشرف عراق ) کے ہندوستان میں وکیل و نمائندہ بھی تھے۔بیشک ’’جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے‘‘۔

واضح رہے کہ لکھنؤ کے شہرۂ آفاق بڑے اما مباڑے میں شہرہ ٔ آفاق خطیب اکبر مرحوم کی شہرۂ آفاق عظیم مجلس دیسہ کا عظیم الشان پروگرام ایک یادگار اور تاریخ ساز عظیم بین المذ اہب تاریخی عالمی اجتماع کی شکل اختیار کرچکا ہے۔جس میں نہ صرف اہالیان لکھنؤ بلکہ ہندوستان کے دیگر اضلاع و اقطاع سے بھی علماء و مومنین کافی تعداد میں شرکت کرتے ہیں ۔اللہم زد فزد۔

اس سال کی مجلس کے متعلق اخباری رپورٹ کے مطابق کہا جاتا ہے کہ امام بارگاہ آصف الدولہ میں آنے والے سوگواروں کا یہ اب تک کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔مجلس میں سب سے اہم اور خاص بات یہ تھی کہ بڑا امام باڑہ مومنین کی کثرت سے چھوٹا نظر آرہا تھا۔

تصاویر دیکھیں:حسینیہ نواب آصف الدولہ لکھنؤ میں مجلس دیسہ کے موقع کی چند یادگار تصاویر

علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی نے اپنے موجودہ دورہ ہندوستان کے دوران لکھنؤ میں متعدد قومی و مذہبی ،تعلیمی و ثقافتی اداروں ،سماجی رہنماؤ ں،علمی و ادبی شخصیتوں سے خیر سگالی و باہمی یکجہتی کے جذبہ کے تحت ملاقا تیں کیں۔اور آپسی اتحاد کا پیغام دیا۔

علامہ شہنشاہ حسین نقوی کا دورہ ہندوستان تاریخ ساز :مولانا ابن حسن املوی واعظ
مولانا آغا روحی کے ساتھ ملاقات

۱۰؍جون کو حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید علی ناصر سعید عبقاتی آغا روحی سے ملاقات کے لئے ناصریہ عربی کالج لکھنؤ تشریف لے گئے ۔مولانا آغا روحی صاحب نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ میںنے اپنی ۷۷ ؍سالہ زندگی میں آصفی امامباڑہ میں کسی مجلس کے سلسلہ میں اتنا بڑا مجمع نہ دیکھا نہ سنا ۔

۱۱؍جون کو صبح میںہندوستان کی قدیم ترین شیعہ دینی درسگاہ عالمی شہرت یافتہ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ میں تشریف لے گئے جہاں علماء و طلباء اور مومنین نے نہایت گرم جوشی کے ساتھ آپ کا استقبال کیا ۔

تصاویر دیکھیں:علامہ شہنشاہ حسین نقوی صاحب مدرسہ سلطان المدارس لکھنؤ میں

۱۱؍جون کو جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب گولہ گنج لکھنؤ تشریف لے گئے جہا ں اساتذہ و طلباء سے خطاب فرمایا۔

تصاویر دیکھیں :تنظیم مکاتب لکھنؤمیں علام شہنشاہ حسین نقوی صاحب کی علماءو طلاب سے ملاقات

۱۱؍جون کو سرکار امیر العلماء آیۃ اللہ سید حمید الحسن صاحب قبلہ آل نجم العلماء سربراہ جامعہ ناظمیہ لکھنؤ سے ان کے گھر پر ملاقات کے لئے تشریف لے گئے ۔

تصاویر دیکھیں:آیۃ اللہ سید حمید الحسن سربراہ جامعہ ناظمیہ کے ساتھ علامہ شہنشاہ حسین نقوی کی ملاقات

۱۲؍جون کو ۹؍بجے شب میں حوزہ علمیہ جامعۃ التبلیغ مصاحب گنج لکھنؤ یعنی مولانا مرزا عالم صاحب کے مدرسہ کا دورہ فرمایا جہاں علماء وخطباء وواعظین کی پر رونق علمی نششت کا انعقاد ہوا جس میں مختلف امور پر تبادلہ خیالات کئے گئے۔آخر میں جملہ شرکاء کی پر تکلف دعوت طعام سے ضیافت کی گئی۔

۱۳؍جون کو سرکا شمیم الملت آیۃ اللہ سید شمیم الحسن سربراہ جامعہ جوادیہ بنارس سے لکھنؤ میں علامہ شہنشاہ حسین نقوی صاحب کی خصوصی ملاقات ہوئی ۔اس سے قبل لکھنؤ ہی میں جناب عباس مرتضیٰ شمشی صاحب جنرل سکریٹری شیعہ کالج لکھنؤ جو کہ بنارس ہی کے رہنے والے ہیں ان کی لکھنؤ میں واقع رہائش گاہ پر ایک میٹنگ کے دوران علامہ شہنشاہ حسین صاحب قبلہ نے بنارس اور جامعہ جوادیہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا کہ آیۃ اللہ شمیم الحسن سربراہ جامعہ جوادیہ بنارس اور آیۃ اللہ حمید الحسن سربراہ جامعہ ناظمیہ لکھنؤ ایسے سینئیر شخصیات ، بزرگوار علماء کے اعتبار سے لکھنؤ اور بنارس میں توازن ہموزن سا محسوس ہوتا ہے۔

تصاویر دیکھیں:آیۃ اللہ سید شمیم الحسن سربراہ جامعہ جوادیہ بنارس کے ساتھ علامہ شہنشاہ حسین نقوی کی ملاقات

حجۃ الاسلام والمسلمین حضرت علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی صاحب قبلہ مد ظلہ العالی نے ہندوستان آمد کے فوراً بعد سب سے پہلے میر انیس اور مرزا دبیر اعلی اللہ مقامہا کی مزارات پر فاتحہ خوانی کی غرض سے حاضری دی تھی۔

خطیب اکبر کے فرزند جناب مولانا یعسوب عباس صاحب ترجمان آل انڈیا شیعہ پرسنل لاءبوردڈ نے پروگرام کی نظامت نہایت حسن و خوبی سے انجام دئے۔خطیب اکبر کے دوسرے بیٹے مولانا اعجاز اطہر صاحب نے خانوادہ خطیب اکبر کی جانب سے مجلس میں شرکت کرنے والے ہزاروں مومنین،علماء،خطباء،شعراء،ماتمی انجمنوں،قومی اداروں کا شکریہ ادا کیا۔

حجۃ الاسلام مولانا ابن حسن املوی واعظ

ترجمان مجمع علماءوواعظین پوروانچل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .