حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،انڑ نیشنل نور مائکروفلم سینٹر دہلی کے اہم کاموں میں سے ایک کام کتاب"تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ" کی اشاعت ہے جو تین جلدوں پر مشتمل ہے اور یہ کتاب بہترین سر ورق کے ساتھ مذکورہ مرکز میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے؛ اس کتاب میں بالتفصیل مدرسہ سلطان المدارس کی تاریخ کو تحریر کیا گیا ہے اور حق یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف الحاج مولانا شیخ ابن حسن املوی کربلائی صاحب قبلہ نے اس کام میں رات دن زحمت کرکے مدرسہ کی بابت اپنے انتہائی خلوص کا ثبوت دیا ہے۔
احیاء و تجدید مدرسہ سلطانیہ بنام مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ:
امجد علی شاہ اودھ نے ۱۸۴۷ء سے پہلے پرانے مدرسے کو نئے انداز میں قائم کیا ۔ نواب جنت آرام گاہ سعادت علی خان کے شاندار مقبر ہ کی وسیع عمارت میں مو لانا میر احمد علی ، مفتی محمد عباس، مولانا حامد حسین ، مولانا شیخ علی اظہر اور مولانا مرزا محمد علی جیسے علماء و مدرسین؛ اساتذہ کے عنوان سے مقرر کئے گئے ۔ وہاں بیس استاد تھے ۔ ان کی تنخواہ سو، ستّر،تیس،چالیس اور بیس روپئے تک تھی۔طلباء کے وظائف نو،چھ۔اور چار روپیہ ماہانہ۔ بادشاہ خود مدرسے آتے اور اپنے باورچی خانے سے طرح طرح کی نعمتیں بھیجواتے تھے ۔ قبلہ و کعبہ سلطان العلماء سید محمد صاحب اس کے سر پر ست تھے ۔۱۸۵۷ء میں مدرسہ بند ہو گیا ۔۱۸۹۲ء میں نواب آغا ابّو صاحب نے اس مدرسہ کو جامع مسجد آصف الدولہ میں بحال کیا جس کے شیخ الجامعہ مولانا ابو الحسن صاحب قبلہ متوفی۱۸۹۵ء ہوئے ۔۱۹۱۱ء میں مدرسہ کی جدید عمارت کی تعمیر شروع ہوئی اور۲۱/ مارچ ۱۹۱۲ء کو مدرسہ موجودہ عمارت میں منتقل ہوا،،۔ (مطلع انوار : مولانا الحاج سید مرتضی حسین صاحب قبلہ صدر الافاضل ، ص۳۴ ، ۳۲)
مدرسہ کی عمارت میں ایک بڑا ہال ہے ، ہال کے دونوں طرف اوپر نیچے۲۱ در جے ہیں ، دارالا قامہ اور عمارت کے درمیان ایک پختہ صحن ہے، دار الا قامہ میں طلاب کیلئے ۶۲کمرے ہیں، دونوں طرف ایک ایک بیرونی ہے ایک بیرونی میں باورچی خانہ ، حمام، ہینڈ پائپ اور گودام ہے۔ دوسری بیرونی میں دفتر اور طلاب کی رہائش ہے۔ عمارت سے الگ ایک لائبریری ہے جس میں تقریبا ًایک ہزار کتابوں کےقلمی نسخے ہیں۔مطبوعہ کتب کے علاوہ ابتدائی تعلیم سے لیکر انتہائی تعلیم تک ۱۴ سال کا کورس ہے جس میں ۹ سال مدرسہ کی تعلیم کے ہیں اور پانچ سال جامعہ کی تعلیم کے ہیں ۔یہاں ۲۱ مدرس، ایک کلرک،۲ لائبریرین،۳ چپرا سی اور۲ جاروب کش ہیں۔ جس میں سے ۹ مدرسین،ایک کلرک اور۳چپراسیوں کو الہ آباد بو رڈبائی بینک مشاہرہ دیتا ہے اور بقیہ حضرات کا مشاہرہ جامعہ سے متعلق ہے جو وجوہات شرعیہ سے دیا جاتا ہے ،،۔ (مولاناسید محمد رضا ساجد رضوی زید پوری)
مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ کے مجددو متولی، سید مہدی حسین خان موسوی معروف بہ نواب آغا ابّو صاحب: ولادت: ۱۲۵۰ ھ/ ۱۸۳۴ء - وفات: ۱۳۳۶ھ/۱۹۱۷ء۔ والا جاہ لکھنؤ کے بہت بڑے رئیس اور اس سے بڑ ے دینی عالم ، مقدس متقی ، فقیہ وادیب تھے ۔ نواب والا جاہ صاحب کے ایک بیٹے تھے جوآغا ابّو صاحب کے نام سے پہچانے جاتے تھے ۔
جب شاہی وقف کی دیکھ بھال کا انتظام ہو ا تو آغا ابّو صاحب بھی ایک متولّی مقرر ہوئے ۔ آغا ابّو صاحب نے وقف کی شرعی حیثیت کو بحال کیا اور سب سے بڑا کام ۱۸۹۲ءمیں مدرسہ شاہی کا احیاء تھا ۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ شاہی عمارتوں کے گرنے اور مدرسے کے ضائع ہونے کے بعد ہمیں موزوں زمین اور مناسب عمارت بنانا ہوگی ۔ حکومت نے اس مقصد کے لئے حکیم مہدی کے مقبرہ کے پاس بہت بڑی زمین دی جس پر ایک بہت عالی شان مدرسہ تعمیر ہوا اور مدرسہ کا نام "سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ" رکھاگیا۔ مدرسہ کے اخراجات وقف حسین آباد اور خود ابّو صاحب کے وقف سے پورے ہوتے تھے ۔ آغا ابّوصاحب نے اپنا قیمتی کتب خانہ بھی مدرسہ کو وقف کر دیا تھا ، اس کتب خانے میں تفسیر و حدیث اور فقہ و عقائد جیسے علوم پر کئی ہزار کتابیں تھیں ۔
آغا ابّو صاحب بانی مدرسہ سلطان المدارس کا یہ تذکرہ ان کی تالیفات کی فہرست سے خالی رہتا اور یہ لکھ کر بات ختم ہو جاتی کہ وہ فارسی ، عربی وارود کے شاعر تھے ۔ اتفاقاً ہمیں ایک پرانی مطبوعہ کتاب مل گئی جس کا نام ہے ،، بغیتہ الطلاب ، ،اس کے مئولف مولانا سید حیدر علی صاحب نے نواب آغا ابّو صاحب کی ایک عربی عبارت چھاپی ہے اور آخر عبارت میں ان کا تعارف بھی کرایا ہے۔
والا جاہ بہادر نیشاپوری: نواب مرزا محمد بہادر جووالا جاہ کے نام سے مشہور تھے ۔ آپ تقریباً۱۲۲۰ ھ میں پیدا ہوئے موصوف نواب دلیر الدولہ دلاور الملک مر زا محمد علی خان عرف نواب آغا حیدر صاحب کے چھوٹے صاحبزادے اور لکھنؤ کے مقتدر رئیس، فیض آباد سے لکھنؤ اور لکھنؤ سے عراق جاکر ملا در بندی اور آیۃ اللہ علی نقی طبا طبائی سے کسب فیض کیا ۔ مقامی طور پر جناب ممتا ز العلماء سید تقی صاحب اور جناب صفدر شاہ صاحب جیسے پر ہیز گار علماء کے شاگرد تھے موصوف کی تصویر عمامہ و قبا کے ساتھ نہیں دیکھی گئی صرف گول چندو ے کی ٹوپی ، اچکن اور سادہ لباس میں نظرآتی ہے، چہرہ پرخوبرومحاسن اور پیشانی پر نشانِ سجدہ تھا، آپ حج وزیارات سے مشرف ہوچکے تھے ۔
ان کے صاحبزادے نواب آغا ابّو صاحب تھے جن کے تقدس و احتیاط کا چرچہ ہم نے بھی سنا ۔ نواب آغا ابّو صاحب متوفی۱۳۳۶ھ ہی نے مدرسہ سلطان المدارس کے نا م سے لکھنؤمیں ایک عظیم الشان درسگاہ قائم کی جس کا دور آخر میں نے بھی دیکھا اور وہیں سے صدر الا فاضل کیا ہے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ حضرت مولانا سید ابوالحسن رضوی لکھنوی معروف بہ جناب ابّو صاحب قبلہ نے تقریباً ۱۲۸۹ھ میں رؤو سائے لکھنؤ کی امداد سے ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی جب وہ چند ماہ چل کر بند ہو گیا تو آپ کو اس قدر ملال ہو اکہ ارادہ کر لیا کہ ترک لکھنؤ کر کے عراق چلے جائیں ۔ پہلےیہ مدرسہ امام باڑہ جناب ممتاز العلما ء میں قائم ہوا ۔ پھر قریب گو ل دروازہ دو مکان کر ایہ پر لئے جب پستی کا زمانہ آیا تو کٹرہ ابو تراب خاں میں آگیا آپ خود بھی در س دیتے تھے جب آپ ۱۳۳۰ھ میں زیارات عتبا ت عالیا ت کو گئے تو یہ مدرسہ جناب ملا ذ العلماء کے حوالہ کر دیا تو امام باڑہ جناب غفران مآب میں آ گیا جب سید العلماء ثانی زیارات عراق کو گئے تو اپنا قائم مقام کر گئے اور تمام مملو کہ و موقوفہ آپ کی تحویل میں دے گئے بعد واپسی کے مدرسہ ناظمیہ کی بنیاد ڈالی اور جناب مرزا عبا س علی خاں صاحب بہادر کو ترغیب دلائی اور وہ مدرسہ کھولا گیا تو اس کو جناب نجم العلما ء کے سپرد کیا گیا پھر مدرسئہ حسین آباد کی تحریک چلائی اور اس میں کامیابی ہوئی چنانچہ اصلاح ماہ صفر۱۳۲۷ ھ میں ہے کہ ۱۸۹۴ءمیں مدرسہ حسین آباد جاری ہوا۔
اصلی منبع: "تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ، ج1،تالیف: مولانا شیخ ابن حسن املوی کربلائی؛ ناشر: انٹرنیشنل نورمائکرو فلم سینٹر ، ایران کلچر ہاؤس،دہلی( ہند)"۔
جاری ہے۔۔۔